انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سد ذرائع اسلام ایک کامل ومکمل مذہب ہے جس کا اعلان فخر الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ تعالیٰ نے حجۃ الوداع کے موقع پر کرادیا تھا: "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا"۔ (المائدہ:۳) یعنی بالفاظِ دیگر یہ اعلان کروادیا گیا کہ اب دین اسلام میں کسی قسم کا کوئی نقص اور عیب نہیں ہے؛ بلکہ قیامت تک کے درپیش مسائل وحوادث کا اسی میں حل موجود ہے؛ بشرطیکہ بصیرت وگہرائی سے کتاب وسنت کا مطالعہ کیا جائے، اسی بصیرت وگہرائی کے ساتھ نئے نئے حوادث کے احکام معلوم کرنے کے لیے فقہاء نے چند اصول وضوابط مقرر کئے ہیں، جن کی روشنی میں ہرحادثہ کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے اور اسے اصطلاح میں اصول فقہ کا نام دیا ہے، اصولِ فقہ کے بعض بنیادی مآخذ ہیں اور بعض ضمنی مآخذ کی حیثیت رکھتی ہیں، ان ہی ضمنی مآخذ میں سے "سدذرائع" بھی ہے، جن کا تمام فقہاء نے فی الجملہ اعتبار کیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے "سدذرائع" کی لغوی واصطلاحی تعریف ذکر کردی جائے؛ تاکہ اگلے مباحث کے سمجھنے میں آسانی ہو۔ سدذرائع کی تحقیق سدلغت میں بند کرنے کو کہتے ہیں اور ذریعہ لغت میں کسی چیز تک پہونچانے والے وسیلہ کوکہتے ہیں اور اصطلاح میں ذرائع ان اشیاء کو کہا جاتا ہے جن کا ظاہر اور جن کی ذات تومباح ہو لیکن وہ شئی کسی ممنوع فعل تک پہونچانے کا سبب بنتی ہو (الموسوعۃ الفقہیہ:۲۴/۲۷۶) اور شیخ ابوزہرہ نے اپنی معرکۃ الاراء تصنیف "اصول الفقہ" میں ذرائع کی تعریف ان الفاظ میں کی: "والذرائع فی لغۃ الشرع مایکون طریقاً للمحرم أوللمحل"۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۲۸) ترجمہ:یعنی ذرائع شریعت کی زبان میں ایسا راستہ ہے جوکسی حرام یاحلال فعل تک پہونچانے کا سبب ہو۔ اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ "سدذرائع" کا مفہوم یہ ہے کہ ان ذرائع ا وروسائل پر روک لگایا جائے اور ان سے منع کیا جائے جوکسی حرام اور مکروہ فعل کا سبب بنے۔ سدذرائع کا مطلب سدذرائع کا مطلب یہ ہے کہ انسان کواس ذریعہ سے روکا جائے جوکسی حرام چیز تک پہونچانے کا سبب بنے؛ اگرچہ وہ ذریعہ فی نفسہ جائز اور مباح ہو؛ لیکن اس کے مفضی الی الحرام ہونے کی وجہ سے اس میں حرمت آجائے گی، ہاں اگر اس میں یہ بات نہ ہو تو پھر اس کا یہ حکم نہیں ہوگا؛ بلکہ وہ اپنی اصل یعنی جواز پر باقی رہے گا اور اس سے اس کو روکا نہیں جائےگا، ذرائع دوطرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جوحرام فعل کا ذریعہ بنے، دوسرے وہ جوکسی واجب ومستحب فعل کا ذریعہ بنے؛ لیکن چونکہ یہاں مقصود "سدذرائع" کوبیان کرنا ہے اس لیے صرف ان ذرائع کو اور ان کے حکم کو بیان کیا جائیگا جوحرام فعل کا ذریعہ اور وسیلہ بنے۔ سدذرائع اسی امت کی خصوصیت حضرت آدم علیہ السلام سے آخرالزماں حضرت محمدرسول اللہﷺ تک جتنے انبیاء ورسل آئے سب کی شریعت میں معاصی وفواحش حرام تھے لیکن معاصی وفواحش کے ذرائع حرام نہ تھے؛ لیکن شریعت محمدی کی خصوصیت ہے کہ اس میں جہاں معاصی وفواحش کوحرام کیا گیا وہیں ان تک پہونچانے والے ذرائع واسباب کو ممنوع قرار دیا گیا اور ذرائع پر بھی وہی حکم لگایا گیا جواصل کا حکم تھا۔ حکمت اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے اس شریعت اور اس کے متبعین کی ایک جماعت کوقیامت تک باقی رکھنے کی ذمہ داری لی ہے اور ظاہر ہے اس مقصد میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب کہ معاصی وفواحش سے ان کی حفاظت ہو اور تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اس کی تکمیل بغیران ذرائع واسباب پر روک لگائے نہیں ہوسکتی۔ (احکام القرآن:۳/۴۷۸، مفتی شفیع صاحبؒ) علامہ ابن قیم اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں: "اگرمعاصی اور محرمات سے اللہ تعالیٰ روک دیتا اور ان ذرائع پر روک نہ لگاتا تواس کا صاف مطلب یہ ہوتا کہ ایک طرف معاصی سے توروکا گیا؛ لیکن دوسری طرف معاصی پر آمادہ کرنے والی چیزوں کو بحال رکھا اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے بار بار معاصی کا ارتکاب ہوتا، جواللہ تعالیٰ کی حکمتِ کاملہ اور اس کے ہمہ گیر علم کے سراسر منافی تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصل کو حرام قرار دینے کے ساتھ اس کے ذرائع کو بھی حرام کردیا"۔ (اعلام الموقعین:۳/۱۲۳) اسی لیے جب شراب حرام کی گئی تواسی پر بس نہیں کیا گیا؛ بلکہ اس کی بیع وشراء کو بھی حرام قرار دیا گیا؛ کیونکہ یہ شرب خمر کا ذریعہ بن سکتا ہے؛ اسی طرح جب شرک کو ظلمِ عظیم اور اس کے عدم معافی کا اعلان کیا گیا توان تمام ذرائع کو بھی حرام قرار دیا گیا جواس کو شرک تک پہونچانے والے تھے، مثلاً تصویر کشی، اسی طرح طلوع وغروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنےسےمنع کیا گیا؛تاکہ پرستش آفتاب کا شبہ نہ ہو۔ (احکام القرآن:۱/۴۷۸،۴۷۹) احکامِ شرعیہ کے اقسام انسان کو شرعاً جن امور کا مکلف بنایا گیا ہے، ان میں سے بعض مقاصد کے قبیل سے ہیں اور بعض وسائل وذرائع کا درجہ رکھتی ہیں "مقاصد" کا مطلب یہ ہے کہ خود مصالح یامفاسد پر مبنی ہوں، یعنی ان کی ذات میں مصالح یامفاسد ہوں وہ کسی غیر کا نتیجہ نہ ہوں اور "وسائل" سے مراد یہ ہے کہ مقاصد تک رسائی اور پہونچنے کا ذریعہ بنیں اور شرعاً یہ ذرائع تحلیل وتحریم میں اپنے مقاصد کے تابع ہوتے ہیں اور حکم کے اعتبار سے ان کا درجہ مقاصد سے کمتر ہوتا ہے، چنانچہ علامہ قرافی کا کہنا ہے: "الْوَسِيلَةِ إلَى أَفْضَلِ الْمَقَاصِدِ أَفْضَلَ الْوَسَائِلِ وَإِلَى أَقْبَحِ الْمَقَاصِدِ أَقْبَحَ الْوَسَائِلِ وَإِلَى مَاھُوَمُتَوَسِّطُ مُتَوَسِّطَاةٍ"۔ (انوارالبروق فی انواع الفروق،الفرق الثامن:۳/۴۶) ترجمہ:یعنی مقاصد اگراعلیٰ درجہ کے ہوں تووسائل کا بھی حکم اعلیٰ ہوگا اور اگرمقاصد غلط ہوں تووسائل کا حکم بھی غلط ہی ہوگا اور اگر مقاصد درمیانی درجہ کے ہوں تووسائل بھی مقاصد کی طرح متوسط ہوں گے۔ بہرحال بات طے ہے کہ مقاصد تک پہونچنے کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں، اصلاً حکم تومقاصد پر لگایا جاتا ہے؛ لیکن جوان تک پہونچنے کا ذریعہ بنتے ہیں ان کا حکم بھی مقاصد ہی جیسا ہوتا ہے؛ اگرمقاصد میں حسن ہے توان کے ذرائع میں بھی حسن پایا جائے گا اور اگر مقاصد میں قبح ہی قبح ہے توان کے ذرائع میں بھی قبح پایا جائے گا اور اس حسن وقبح کی نوعیت وکمیت کا تعین دراصل مقاصد سے ان ذرائع کے تعلق کی بناء پر کیا جائے گا، ذرائع کا مقاصد سے جتنا گہرا ربط وتعلق ہوگا اسی کے بقدر ذرائع میں حسن وقبح ہوگا اور جتنا کمزور تعلق ہوگا اتنا ہی ان میں کم حسن وقبح پایا جائے گا۔ وسائل کی اقسام جب وسائل واسباب کا احکام شرعیہ کے قبیل سے ہونا معلوم ہوگیا توان کی مزید کچھ تفصیل پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے، اسباب ووسائل کی اولاً دوقسمیں ہیں کہ ایک سبب قریب ہے اور دوسرا سبب بعید اور یہ بات طے ہے کہ سبب بعید سے احتراز واجتناب ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ انسان کے ہرکسب وفعل میں اس بات کا ضرور احتمال ہوتا ہے کہ وہ خیر کا ذریعہ ہے اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ شرکا ذریعہ ہے، اب اگربعید سے بعید ترچیزوں کا انسان اعتبار کرنے لگے توانسان کا جینا دوبھر ہوجائیگا اور بہت بڑا حرج لازم آئے گا؛ اسی لیے شرعاً سبب بعید معتبر نہیں ہے اور اس مقالہ میں اس پر گفتگو بھی نہیں ہے؛ جہاں تک سبب قریب کی بات ہے توشریعت نے اس کا اعتبار کیا ہے گویا مقاصد تک پہونچنے کے لیے جوسبب قریب ہوں وہ شرعاً معتبر ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آدمی کا کوئی قول وعمل یاخود اس کی ذات کسی خیرکا سبب بنے تواس کو شرعاً خیر ہی شمار کیا گیا ہے اور اگر ان میں سے کوئی شرکا سبب بنے تواس کو شرقرار دیا گیا ہے۔ اسباب قریبہ کے اقسام مقاصد کے لیے جوسبب قریب ہوا کرتا ہے اس کی دوصورتیں ہیں، ایک یہ کہ وہ کسی گناہ ومعصیت کا سبب ومحرک بنے، اس طور پر کہ اگر یہ محرک وباعث نہ ہوتا توفاعل اس گناہ کا اقدام نہ کرتا اور اس سے محفوظ رہتا، جیسے کفار کے بتوں کو برا بھلا کہنا معبود حقیقی کے برا بھلا کہنے کا سبب ہے؛ کیونکہ اگربتوں کو برا بھلا نہ کہا جاتا توکفار بھی حق تعالیٰ کو برا بھلا نہ کہتے؛ گویا بتوں کو برا کہنا باعث اور محرک بنا کفار کا حق تعالیٰ کو گالیاں دینے کا اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ وسیلہ اور محرک وباعث تونہ بنے ؛البتہ ارتکاب معصیت کے لیے ممدومعاون ثابت ہو اور فاعل کو مطلوب تک پہونچانے میں سہولت فراہم کرے جیسے شراب پینے کا جوشخص ارادہ رکھتا ہے اسے شراب پیش کرنا، اسی طرح ناحق قتل کرنے والے شخص کے ہاتھ میں تلوار دے دینا؛ یہاں شراب پیش کرنا اور تلوار دے دینا شرب خمر اور قتل ناحق کا محرک وباعث نہیں ہے؛ مگریہ بہرحال معین علی المعصیت ہے۔ اسباب قریبہ کے احکام سبب قریب کی پہلی صورت تونص قرآنی سے حرام ہے؛ البتہ دوسری صورت میں تھوڑی تفصیل ہے اور وہ یہ کہ اگروہ سبب ووسیلہ اس طرح پایا جائے کہ اس میں تبدیلی اور الٹ پھیر کے بغیر ہی وہ معصیت کا ذریعہ بن گیا ہو تویہ ذریعہ مکروہِ تحریمی ہوگا؛ لیکن اگر اس میں تغیروتبدیلی کے بعد گناہ سرزد ہوا ہوتو مکروہِ تنزیہی ہوگا؛ چنانچہ فتنہ وفساد برپا کرنے والوں سے اسلحہ کا فروخت کرنا باتفاق فقہاء مکروہِ تحریمی ہے؛ چونکہ ان اسلحہ میں کسی تبدیلی کے بغیر فساد برپا کیا جاتا ہے؛ گویامفسدین کے ہاتھوں اسلحہ بیچنا فساد کے لیے معین ہے اور فساد اسی اسلحہ سے برپا ہوگا؛ لہٰذا ان کے ہاتھوں اسلحہ فروخت کرنا مکروہِ تحریمی ہے؛ البتہ ان لوگوں کے ہاتھوں لوہا فروخت کرنا مکروہِ تنزیہی ہوگا؛ کیونکہ اگروہ ان سے ہتھیار بنائیں گے تولوہا میں ترمیم کرنی ہوگی۔ (احکام القرآن:۳/۴۷۸،۴۷۹) سدذرائع میں اعتدال یہ بات بھی مخفی نہیں کہ اسباب وذرائع کا ایک لامتناہی اور غیرمنقطع سلسلہ ہے، اس میں اگر میانہ روی سے کام نہ لیا جائے توحرج کا باعث ہوگا جو "وَمَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ" (الحج:۷۸) کے منافی ہوگا؛ کیونکہ اگراسباب معاصی اور اس کے ذرائع پر بالعموم روک لگادی جائے توعام مباحات کے مقابلہ میں نہی کا دائرہ زیادہ وسیع ہوجائے گا، جس سے مکلفین پر زمین باوجود کشادگی کے تنگ ہوجائے گی کہ ہرذریعہ ووسیلہ میں حکم ممانعت ہی کا نظر آئے گا جوایک حرج عظیم ہے اور اگرتمام اسباب وذرائع معاصی کو فی الجملہ مباح قرار دیا جائے تومعاصی سے اجتناب دشوار اور دوبھر ہوجائے گا جوزمین میں ایک بہت بڑا فساد اور فتنۂ عظیم ہوگا؛ حالانکہ اس امت کوتمام امور میں اعتدال اور توسط پر پیدا کیا گیا (اورقرآن مجید میں بھی امت وسط کے تحفہ سے نوازا گیا) لہٰذا شریعت مصطفویہ نے سدذرائع کے سلسلہ میں درمیانی راستے کو اختیار کیا ہے۔ (احکام القرآن:۳/۴۷۸) احناف ومالکیہ کا مسلک سدذرائع کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کا مطمح نظر یہ ہے کہ وہ عمل شعائراسلام اور مقاصد شرعیہ میں سے ہے یانہیں ،اگروہ شعائر اور مقاصد شرعیہ میں سے ہوتو سرے سے اس کے ترک کا حکم نہیں لگاتے؛؛ بلکہ اس سے منکرات کے ازالہ اور اس کی اصلاح کی تدابیر اختیار کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات فاعل کے منکرات پر روکنے کی قدرت نہ ہونے کی صورت میں شرکت کی اجازت دیتے ہیں، جیسا کہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "وَلَاتُتْرَكُ السُّنَّةُ لِمَعْصِيَةٍ تُوجَدُ مِنْ الْغَيْرِ"۔ (بدائع الصنائع:۵/۱۲۸) ترجمہ:معصیت کی وجہ سے (جودوسری جانب سے آئے) کسی سنت کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ اورجیسا کہ نوحہ کرنے والی عورتوں کی وجہ سے جنازہ میں شرکت ترک نہیں کی جائے گی؛ اگروہ منع پر قادر ہوتو منع کرے؛ ورنہ صبرکرے ،یہ تغییرغیرمقتدیٰ کے لیے ہے؛ اگروہ شخص مقتدیٰ ہوتوشریک نہ ہو۔ (بدائع الصنائع:۵/۱۲۸) لیکن اگروہ عمل شعائر اسلام یامقاصدِ شرعیہ میں سے نہ ہو خواہ وہ فعل مباحات یامستحبات کے قبیل سے ہو، جب اس کے ساتھ کوئی منکرشامل ہوجائے یاوہ کسی نہ کسی منکر کی طرف عام طور پر لے جاتا ہو تواحناف وموالک اس کو ممنوع اور مکروہ قرار دیتے ہیں اور اس کے ترک کا حکم دیتے ہیں؛ اگرچہ بعض مواقع پر وہ منکر سے خالی ہو، یہ حکم محض سدّاً للذرائع ہوتا ہے، اس لیے کہ اگرچہ وہ خود عامل کے حق میں منکرسے خالی ہے؛ لیکن وہ دوسروں کے مبتلائے معصیت ہونے کا ذریعہ بنتا ہے اور جوچیز معصیت کا ذریعہ بنے تووہ بھی معصیت ہوتی ہے؛ جیسا کہ علامہ زاہدیؒ لکھتے ہیں کہ "نماز کے بعد جوسجدہ کیا جاتا ہے وہ مکروہ ہے؛ کیونکہ نا واقف حضرات اسے سنت اور واجب سمجھ بیٹھتے ہیں اور جو مباح کام اس عقیدہ تک پہونچائے وہ خود مکروہ ہوتا ہے"۔ (کبیری:۵۷۳) اسی قبیل سے امام ابوحنیفہؒ کا اشعار ھدی کے بارے میں کراہت کا قول ہے؛ حالانکہ اشعار ہدی آپﷺ سے منقول ہے، اس کے باوجود امام ابوحنیفہؒ نے اسے مکروہ محض اس لیے کہا کہ لوگ اس میں افراط سے کام لے رہے تھے؛ حالانکہ اشعار نہ توشعائر کے قبیل سے تھا اور نہ ہی مقاصدِ شرعیہ میں داخل تھا؛ لہٰذا امام ابوحنیفہؒ نے اس کو "سدّاً للذرائع" منع کردیا۔ (احکام القرآن:۳/۲۵۳۔۲۵۶) فقہ مالکی کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام مالکؒ نے دیگر ائمہ کے مقابلہ میں "سدذرائع" سے زیادہ کام لیا ہے اور فقہ کے مختلف ابواب میں ان سے مدد لی ہے۔ شوافع کا مسلک جن حضرات نے ذرائع کو ساقط الاعتبار مانا ہے ان میں سرِفہرست امام شافعیؒ ہیں (الموافقات:۴/۵۵۶) لیکن فقہ شافعی کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی بعض شرائط کے ساتھ سدذرائع کا اعتبار فقہ کے مختلف ابواب میں کیا ہے؛ البتہ دیگرائمہ کے مقابلہ میں شوافع نے اس سے کم استفادہ کیا ہے۔ سدذرائع اور حنابلہ فقہاء حنابلہ میں سب سے زیادہ سدذرائع پر علامہ ابن القیمؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "اعلام الموقعین" میں گفتگوکی ہے ،انھوں نے اس کے اثبات پر ننانوے دلائل ذکر کئے ہیں، ان کے نزدیک "سدذرائع" ربع دین ہے (اعلام الموقعین:۳/۱۴۳) الغرض حنابلہ بھی سدذرائع کومعتبر قرار دیتے ہیں۔ قرآن میں سد ذرائع کے نظائر سدذرائع کے نظائر خود کتاب اللہ میں بھی ہیں، میں اس کی صرف دومثالیں پیش کرونگا: ۱۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "وَلَاتَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ"۔ (الانعام:۱۰۸) ترجمہ:اوردشنام مت دو ان کو جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں (یعنی ان کے معبودوں کو) کیونکہ پھر وہ براہِ جہل حد سے گزرکر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔ (ترجمہ تھانویؒ) آیتِ بالا میں اللہ جل شانہ نے مشرکین کے معبودوں کو برا کہنے سے منع کیا، جب کہ اُن کو برا کہنا اللہ کی حمیت اور ان معبودانِ باطلہ کی اہانت کے لیے ہی ہوا کرتا تھا؛ لیکن یہ عمل خود اللہ کو برا کہنے کا باعث اور ذریعہ بنتا؛ اس لیے منع کردیا گیا، اس آیت سے ایک مباح اور جائز عمل (معبودانِ باطلہ کو برا بھلا کہنا) سے روکا گیا ہے؛ کیونکہ یہ عمل ایک حرام فعل (معبودِ حقیقی کو برا بھلا کہنا) کومستلزم تھا اور یہی توسدذریعہ ہے۔ ۲۔نیزارشادِ باری تعالیٰ ہے: "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَاتَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا"۔ (البقرۃ:۱۰۴) ترجمہ:اے ایمان والو! تم(لفظ) راعنا مت کہا کرو اور انظرنا کہا کرو۔ (ترجمہ تھانویؒ) درج بالا آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صحابہ کو "راعنا" کہنے سے منع کیا، جب کہ اس کا مفہوم بالکل صحیح تھا (کہ ہماری قوت وتحمل کا لحاظ کرکے ہمیں مکلف بنائیے) اور صحابہؓ کی نیت بھی اچھی تھی؛ لیکن اسی لفظ میں منافقین اور یہود "ع" کے کسرہ کو کھینچ کر پڑھتے اور وہ لفظ "رَاعِنَا" کے بجائے "رَاعینا" بن جاتا اور جس کے معنی چرواہے کے ہوتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد آپﷺکی اہانت ہوا کرتا تھا توآیت کے ذریعہ لفظ "راعنا" کے استعمال کرنے سے خود صحابہؓ کوروک دیا گیا؛ تاکہ منافقین اور یہود کو اس لفظ سے شرارت کا موقع نہ مل سکے اور یہی تو"سدذریعہ" ہے۔ احادیث میں سد ذرائع کے نظائر سدذرائع کے نظائر احادیث میں بھی ملتے ہیں: ۱۔ایک مرتبہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میدانِ جنگ میں کسی چور کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں (مشکوٰۃ شریف:۲/۳۱۴۔ ابوداؤد:۲/۶۹۵) حالانکہ چورکی سزا "قطع ید" ہی ہے؛ لیکن میدانِ جنگ میں اگرچور کا ہاتھ کاٹا جائے تواس بات کا امکان ہے کہ وہ کافروں سے مل جائے اور مسلمانوں کی مخبری کرکے انہیں غیرمعمولی نقصان پہونچائے اور کافروں کی تقویت کا ذریعہ بن جائے ،اس لیے آپﷺ نے وہاں حدود کے نافذ کرنے سے منع فرمایا۔ ۲۔نیزآپﷺ نے جنگ کے موقع سے کافروں کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنے سے منع فرمایا (سنن الکبریٰ للبیہقی:۵/۳۲۷) حالانکہ یہ عمل فی نفسہٖ مباح اور جائز ہے؛ لیکن جنگ کے موقع سے فروخت کرنے سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچے گا؛ کیونکہ وہ ہتھیار مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوں گے اور ظاہرہے کہ یہ ممنوع ہے، آپﷺ کا اس موقع سے کافروں کے ہاتھ ہتھیار فروخت کرنے سے منع کرنا؛ یہی تو "سدذریعہ" ہے۔ اجماع میں سد ذرائع کے نظائر اجماع میں بھی سدذرائع کے نظائر پائے جاتے ہیں، مثلاً قرآن پاک کا نزول سات قرأتوں پر ہوا تھا۔ (ترمذی شریف:۲/۱۲۲) لیکن جب حضرت عثمان غنیؓ کے زمانہ میں ناواقفیت کی بنا پر بعض عجمی حضرات کے مابین اس تعلق سے اختلاف ہونے لگا تولغتِ قریش کے مطابق قرآن کے جمع وترتیب پر صحابہ کرامؓ کا اتفاق ہوا، تاکہ آگے چل کر قرآن اختلاف کا ذریعہ نہ بن جائے یہ اجماع بھی محض سد ذریعہ کے طور پر تھا۔ (اصول مذہب امام احمد بن حنبل:۴۶۲، ۴۶۳)