انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۸۳۔یزید بن ابی حبیبؒ نام ونسب یزید نام،ابورجاء کنیت،قریش کی شاخ بنی عامر بن لوئی کے غلام تھے،ان کے والد ابوحبیب (اسود) نوبی تھے، ان کے وطن ونقلہ تھا۔ پیدائش یزید ۵۳ھ میں پیدا ہوئے اور مصر میں ان کی نشوونما ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ،ج اول،ص۱۱۶) فضل وکمال فضل وکمال کے لحاظ سے مصر کے آئمہ تابعین میں تھے،حافظ ذہبی انہیں امام الکبیر لکھتے ہیں ، مصر میں ان ہی کی ذات سے دینی علوم کا صحیح ذوق پیدا ہوا،ابن یونس کا بیان ہے کہ وہ پہلے شخص ہیں جن کی ذات سے مصر میں علم ظاہر ہوا اور حلال و حرام کے مسائل کا آغاز ہوا،ان سے پہلے اہل مصر کا علم محض ترغیب اورملاحم وفتن تک محدود تھا۔ (ایضاً) حدیث وہ مصر کے ممتاز حفاظِ حدیث میں تھے،علامہ ابن سعد ثقہ اورکثیر الحدیث اورحافظ ذہبی حجۃ اورحافظِ حدیث لکھتے ہیں۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۲،ص۲۰۲) حدیث میں انہوں نے عبداللہ بن حارث بن جزوزبیدی،ابو الطفیل ،اسلم بن یزید،ابی عمران،ابراہیم بن عبداللہ بن حنین،خیر بن نعیم حضرمی،سوید بن قیس، عبدالرحمن بن شماسہ مہری، عبدالعزیز ابن ابی الصعبہ،عطاء بن ابی رباح ،عراک بن مالک اور امام زہری وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ ان سے فیض یاب ہونے والوں میں سلیمان التیمی،محمد بن اسحٰق ،زید بن انیسہ،عمرو بن الحارث،عبدالحمید بن جعفر،ابن لہیعہ،اورلیث بن سعد لائق ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۱۸) فقہ فقہ میں انہیں بڑی دستگاہ حاصل تھی،حافظ ذہبی ان کو فقیہ لکھتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۱۵)عمر بن عبدالعزیز نے مصر میں تین آدمیوں کو افتا کے منصب پر ممتاز کیا تھا، ان میں سے ایک یزید بھی تھے۔ (ایضاً:۱۱۶) انہی کی وجہ سے مصر میں فقہ کا مذاق پیدا ہوا۔ علمائے معاصرین کی رائے ان کے کمالات کے متعلق ان کے عہد کے علماء کی یہ رائے تھی،لیث بن سعد کہتے تھے کہ یزید ہمارے عالم اورہمارے سردارہیں (ایضاً:۱۱۶)ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لیث اُن کے اور عبید اللہ بن جعفر کے متعلق کہتے تھے کہ یہ دونوں ملک کے جوہر ہیں ،عمرو بن حارث سے کسی نے سوال کیاکہ یزید افضل ہیں یا عبداللہ بن جعفر،انہوں نے جواب دیا اگر وہ دونوں ترازو میں تولے جائیں تو کسی کا پلہ بھاری نہ ہوگا۔ (ایضاً:۱۱۵،۱۱۶) احتیاط محتاط تابعین کی طرح وہ بھی اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ جب ان کے پاس سائلین کی کثرت ہوگئی تو انہوں نے خانہ نشینی اختیار کرلی۔ (ایضاً) علم کی عظمت علم کا بڑا وقار قائم رکھتے تھے اوراس سلسلہ میں کسی امیر کے آستانہ پر جانا گوارا نہیں تھا،جس کو ضرورت ہوتی اس کو خود یہاں بلاتے تھے،ایک مرتبہ ریان بن عبدالعزیز نے آپ کے پاس کہلا بھیجا کہ آپ میرے پاس آئیے ،میں آپ سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں، آپ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ تم خود میرے پاس آؤ میرے پاس آنا تمہارے لیے زینت اورمیرا تمہارے پاس جانا تمہارے لیے عیب دار ہے۔ (ایضاً) صاف گوئی امراء کو مطلق خاطر میں نہ لاتے،ان کے منہ پر ان کی برائیاں بیان کرتے، ایک مرتبہ آپ بیمار پڑے، حوثرہ بن سہیل امیر مصر آپ کی عیادت کے لیے آیا اورپوچھا جس کپڑے میں مچھر کا خون لگا ہو،اس میں نماز پڑھنے کے متعلق آپ کا کیاخیال ہے،یہ سوال سُن کر آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اس سے گفتگو بند کردی،یہ دیکھ کر حوثرہ اٹھ گیا،آپ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ روزانہ خلق اللہ کا خون کرتے ہو اور مجھ سے مچھر کے خون کے متعلق پوچھتے ہو۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۱۵،۱۱۶) وفات مروان کے عہد حکومت ۱۱۸ ھ میں وفات پائی۔ (ابن سعد،ج۷،ق ۲،ص۲۰۲) بعض خاص اوصاف عقل ودانش اورحلم اورتحمل کے زیور سے آراستہ تھے۔ کان حلیماً عاقلاً