انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امین ومامون کی زورآزمائی سنہ۱۹۴ھ کے آخری ایام میں امین نے مامون کوولی عہدی سے معزول کیا اور مامون نے امین کا نام خطبہ سے نکال دیا، اس کے بعد امین نے یہی نہیں کہ اپنے بیٹے کومامون کی جگہ ولی عہد بنایا؛ بلکہ اپنے بھائی مؤتمن کوبھی معزول کرکے اُس کی جگہ اپنے دوسرے بیٹے عبداللہ کوولی عہد بنایا اور خطبوں میں موسیٰ وعبداللہ کا نام لیا جانے لگا، اب لڑائی اور زور آزمائی کے لیے امین ومامون کوکسی چیز کے انتظار کی ضرورت نہ تھی، فضل بن سہل کومامون نے ذوالریاستین یعنی صاحب السیف والقلم کا خطاب دے کراپنا مدار المہام سلطنت بنایا، طاہر بن حسین بن مصعب بن زریق بن اسد خزامی کوفوج کا سپہ سالاری سپرد کی گئی، فضل بن سہل نے سرحدی والایت رَے میں جاکر وہاں کے جنگ آزمودہ سپاہیوں کوفراہم کیا اور اس سرحدی علاقے کے لوگوں کی ایک فوج بھرتی کرکے سپہ سالار کوسپرد کی، طاہر بن حسین نے ابوالعباس خزاعی کولشکر رَے کا امیرمقرر کیا، ابوالعباس نے رَے میں اپنے لشکر کوکیل کانٹے سے درست کیا، اُدھر امین الرشید نے عصمت بن حماد بن سالم کوایک ہزار پیادوں کی جمعیت سے ہمدان کی طرف روانہ کرکے حکم دیا کہ تم ہمدان میں مقیم رہ کراپنے مقدمۃ الجیش کوسادہ کی طرف روانہ کرنا، اس کے بع دامین نے ایک بڑا لشکر مرتب کرکے فضل بن ربیع کے مشورے سے علی بن عیسیٰ بن ہامان کی سپہ سالاری میں مامون کے مقابلہ کوخراسان کی طرف روانہ کیا، امین اور اس کے وزیر فضل بن ربیع کی یہ سخت غلطی تھی کہ علی بن عیسیٰ کوسپہ سالار بناکر خراسان کی طرف روانہ کیا، اہلِ خراسان علی بن عیسیٰ سے اس کے عہد گورنری سے ناخوش تھے، اس کے آنے کی خبر سن کراہلِ خراسان اور بھی زیادہ لڑنے اور مارنے پرآمادہ ہوگئے، امین نے علی بن عیسیٰ کونہاوند، ہمدان، قم، اصفہان اور بلادِ جبل بطور جاگیر عطا کیے اور خزانۂ خلافت سے ہرقسم کا سامان اور روپیہ ضرورت سے زیادہ دے کرپچاس ہزار سواروں کے ساتھ رخصت کیا اور عمال کے نام فرامین جاری کئے کہ علی بن عیسیٰ کی کمک کے لیے لشکر روانہ کریں اور ہرقسم کی امداد اس کوپہنچائیں، علی بن عیسیٰ، امین کی ماں زبیرہ خاتون سے رخصت ہونے کے لیے حاضر ہوا تواس نے مامون کے متعلق علی کونصیحت کی کہ اس کوگرفتار کرکے کوئی بے ادبی کا برتاؤ نہ کرنا، شعبان سنہ۱۹۵ھ میں علی بن عیسیٰ بغداد سے روانہ ہوا، خود خلیفہ امین اور ارکانِ سلطنت بطریق مشایعت اس لشکر کے ہمراہ روانہ ہوئے، یہ اس شان وشکوہ کا لشکر تھا کہ اہلِ بغداد نے اب تک ایسا عظیم الشان لشکر نہیں دیکھا تھا، علی بن عیسیٰ خلیفہ امین سے رخصت ہوکر رَے کے قریب پہونچا تواُس کے ہمراہیوں نے رائے دی کہ ہراول اور مورچے قائم کرنے چاہیئں؛ مگرعلی نے کہا کہ طاہر جیسے شخص کے مقابلہ میں مورچے قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، طاہر بھی علی کے قریب پہونچنے کی خبر سن کررَے سے نکلا اور رَے سے پانچ فرسنگ کے فاصلے پردونوں کا مقابلہ ہوا، علی بن عیسیٰ کے ہمراہ پچاس ہزار سے زیادہ فوج تھی اور طاہر بن حسین کے لشکر کی کل تعداد چار ہزار فوج تھی، دونوں کی قوتوں کا یہ ایسا نمایاں فرق تھا کہ علی بن عیسیٰ نے صف آرائی کے وقت اپنی فوج سے کہا کہ ان لوگوں کوقتل کرنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ ان کوگھیر کرگرفتار کرلینا چاہیے، علی بن عیسیٰ کے عظیم الشان لشکر کودیکھ کرطاہر بن حسین کے لشکر سے عین صف آرائی کے وقت کچھ لوگ فرار ہوکر علی بن عیسیٰ کے پاس چلے گئے؛ تاکہ فتح مند ہونے والے گروہ کی شرکت سے فائدہ اُٹھائیں اور ہرقسم کے نقصان سے محفوظ رہیں؛ مگرعلی بن عیسیٰ نے ان لوگوں کوپٹواکر نکال دیا اور بعض کوقید کرلیا، اس سے طاہربن حسین کوبہت فائدہ پہونچا، یعنی اس کے لشکر کا ہرمتنفس لڑنے اور مارنے مرنے پرآمادہ ہوگیا، آخر لڑائی شروع ہوئی، طاہر بن حسین کے میمنہ اور میسرہ کوعلی بن عیسیٰ کے میسرہ اور میمنہ نے شکست دے کربھگایا؛ مگرطاہر نے قلب لشکر کولے کرعلی کے قلب پرایسا حملہ کیا کہ علی کا قلب شکست کھاکر پیچھے ہٹنے پرمجبور ہوا، یہ حالت دیکھ کرطاہر کے میمنہ اور میسرہ کے شکست خوردہ سپاہی لوٹے اور ہمت کرکے طاہر سے آملے، نہایت سخت معرکہ آرائی ہوئی اور اسی داروگیر میں علی بن عیسیٰ کے گلے میں ایک تیر نے ترازو ہوکر اس کا کام تمام کردیا، علی بن عیسیٰ کے گرتے ہی تمام لشکر فرار ہوا اور طاہر کے تمام ہمراہیوں نے علی بن عیسیٰ کا سرکاٹ لیا، طاہر کے فتح مند لشکر نے دوفرسنگ تک فراریوں کا تعاقب کیا اور لشکر بغداد قتل وگرفتار ہوتے ہوئے چلے گئے، رات کی تاریکی نے حائل ہوکر بقیہ فراریوں کوقتل وگرفتاری سے بچایا، طاہر بن حسین رَے میں واپس آیا اور فتح نامہ مامون کی خدمت میں روانہ کیا کہ: بخدمت امیرالمؤمنین گذارش ہے کہ یہ عریضہ ایسی حالت میں لکھ رہا ہوں کہ علی بن عیسیٰ کا سرمیرے روبرو ہے اُس کی انگوٹھی میری اُنگلی میں ہے اور اس کا لشکر میرے زیرفرمان ہے۔ تین دن کے عرصہ میں یہ خط مرَو میں فضل بن سہل کے پاس پہونچا وہ لیے ہوئے مامون کی خدمت میں حاضر ہوا فتح کی مبارکباد دی، اراکین دولت نے بطور امیرالمؤمنین سلام کیا، دودن کے بعد علی کا سربھی پہونچا جس کوتمام ملکِ خراسان میں تشہیر کیا گیا۔ بغداد میں علی بن عیسیٰ بن ہامان کے مقتول ہونے کی خبر پہونچی توامین نے عبدالرحمن بن جبلہ انباری کوبیس ہزار سواروں کی جمعیت سے طاہر کے مقابلہ کوروانہ کیا، عبدالرحمن بن جبلہ کوہمدان اور بلادِ خراسان کی سندِگورنری بھی دی گئی کہ ان ملکوں کوفتح کرکے اپنی حکومت قائم کرلو، عبدالرحمن بن جبلہ نے ہمدان پہونچ کرقلعہ بندی کی، اس کا حال طاہر بن حسین کومعلوم ہوا تووہ فوج لے کرہمدان کی طرف گیا، عبدالرحمن بن جبلہ نے ہمدان سے نکل کرمقابلہ کیا، طاہر نے پہلے ہی حملہ میں شکست دے کربھگادیا، عبدالرحمن نے ہمدان میں جاکر پھرتیاری کرکے شہر سے باہر نکل کردوبارہ مقابلہ کیا اس مرتبہ بھی شکست کھا کرہمدان میں داخل ہوکر پناہ گزین ہوا، طاہر نے فوراً بڑھ کرشہر کا محاصرہ کرلیا، محاصرہ نے طول کھینچا، اس وقفہ میں طاہر نے قزوین کوفتح کرلیا، عامل قزوین فرار ہوگیا، طولِ محاصرہ سے اہلِ شہر کواذیت ہوئی اور عبدالرحمن کواندیشہ ہوا کہ کہیں اہلِ شہر ہی شب خون نہ ماریں، اس لیے اس نے طاہر سے امان طلب کی طاہر نے اس کوامان دے دی اور ہمدان پرقبضہ کرلیا، طاہر کے امان دینے کی وجہ سے عبدالرحمن بلاروک ٹوک ہمدان میں رہتا تھا، ایک روز موقعہ پاکر عبدالرحمن کوشکست دے کرقتل کیا، عبدالرحمن کے ہمراہی جوقتل ہونے سے بچ گئے وہ بھاگ کرعبداللہ واحمد پسرانِ حریشی سے جوبغداد سے عبدالرحمن کی مدد کے لیے آرہے تھے، ان دونوں پراس قدر رعب طاری ہوا کہ بلامقابلہ راستے ہی سے بغداد کی جانب واپس چلے گئے، طاہر نے یکے بعد دیگرے شہروں پرقبضہ کرنا شروع کیا، حلوان پہونچ کرمورچے قائم کئے اور خندقیں کھدواکر خوب مضبوطی کرلی، ان فتوحات کے بعد مامون نے حکم جاری کیا کہ ہرشہر میں بیعتِ خلافت لی جائے اور منبروں پرہمارے نام کا خطبہ پڑھاجائے، فضل بن سہل کومامون نے ذوالریاستین (صاحب السیف والقلم) کا خطاب دے کراپنا وزیراعظم اور مدارالمہام خلافت بنایا، فضل بن سہل کی نیابت وماتحتی میں علی بن ہشام کووزیرجنگ اور نعیم بن خازم کووزیرمال اور دفتر انشاء کا مہتمم مقرر کیا، فضل بن سہل کے بھائی حسن بن سہل کودیوان الخراج کی افسری سپرد کی گئی۔