انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** l۳۶۔عامربن شراحیل الشعبیؒ نام ونسب عامر نام،ابو عمر کنیت،شعبی قبیلہ کی نسبت ہے لیکن شہرت کی وجہ سے اس نسبت نے لقب کی حیثیت اختیار کرلی ہے،یمن کے نامور حمیری خاندان میں حبان بن عمرو ایک مشہور اورتاریخی شخص گزرا ہے،یہ شخص یمن کی ایک پہاڑی ذوالشبین میں پیدا ہوا تھا اورمرنے کے بعد یہیں دفن ہوا، اس لیے وہ خود ذوالشعبین مشہور ہو گیا،اس کے بعد اس کی نسل میں بھی یہ نسبت قائم رہی، اس کی نسل کی ایک شاخ فتوحات اسلامی سے قبل سے ہمدان میں آباد تھی، پھر اسلامی عہد میں کوفہ میں بس گئی، یہ شاخ شعبی کہلاتی تھی،عامر بن شراحیل اسی شاخ سے تھے،حسان بن عمرو کے اوپر اس خاندان کا نسب نامہ یہ ہے، بنی حسان بن عمرو بن قیس بن معاویہ بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن غوث بن قطن بن عرب بن زبیر بن ایمن بن ہمیسع بن حمیر۔ پیدائش عامر الشعبی کے سنہ ولادت کے بارہ میں مختلف روایات ہیں،خود ان کا بیان ہے کہ وہ جنگ جلولاء کے سال پیدا ہوئ (ابن سعد:۱۷۲) ایک بیان یہ بھی ہے کہ ان کی ماں جلولاء کے قیدیوں میں تھیں جو ان کے والد شراحیل کے حصہ میں پڑی تھیں، اس حساب سے ان کی پیدائش سنہ ۱۴ میں ہوئی۔ تعلیم عامر کے ہوش سنبھالنے کے وقت صحابہ کرام کی بہت بڑی جماعت موجود تھی اوران کی بو د وباش بھی ایسے مرکزی مقام پر تھی،جہاں بہت سے صحابہ اقامت پذیر تھے اور ان کی آمد ورفت رہتی تھی،اس لیے انہیں پانسو صحابہ کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا، ان میں اڑتالیس سے فیض اٹھایا تھا (تہذیب التہذیب:۵/۶۷) حبرالامۃ عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں آٹھ دس مہینہ مستقل قیام کرکے ان کے کمالات سے فیضیاب ہوئے تھے (ابن سعد:۶/۱۷۲) ان بزرگوں کے فیض نے ان کو امام عصر بنادیا۔ فضل وکمال علمی لحاظ سے وہ اپنے عہد کے امام تھے،حافظ ذہبی ان کو امام ،حافظ ذہبی ان کو امام، حافظ،فقیہ اور متقن (تذکرۃ الحفاظ:۱/۶۹) اور ابن عماد حنبلی امام البحر العلامہ لکھتے ہیں (شذرات الذہب :۱/۱۲۶) انہیں جملہ علوم میں یکساں کمال حاصل تھا، ابو اسحق الجبال کا بیان ہے کہ شعبی جملہ علوم میں یگانہ عصر تھے قرآن ،حدیث،فقہ،مغازی،ریاضی اورادب وشاعری سب میں انہیں یکساں دستگاہ حاصل تھی۔ قرآن قرآن کے اتنے ممتاز قاری تھے کہ زعیم القراء کہلاتے تھے (تذکرہ الحفاظ:۱/۷۳)تفسیر میں بھی انہیں پورا ادرک تھا،لیکن احتیاط کی وجہ سے انہوں نے مفسر کی حیثیت سے کوئی شہرت نہیں حاصل کی وہ تفسیر قرآن میں بڑے محتاط تھے،ہر شخص کو اس کا مجاز نہیں سمجھتے تھے،زکریا بن ابی زائد ہ کا بیان ہے کہ شعبی ابو صالح کے پاس سے گزرتے تو ان کے کان پکڑ کر کہتے کہ تم قرآن نہیں پڑھتےاور اس کی تفسیر بیان کرتے ہو۔ (ایضاً:۷۲) حدیث حدیث کے جلیل القدر حافظ ؛بلکہ امام العصر تھے،انہوں نے صحابۂ کرام اور تابعین کی بڑی جماعت سے سماع حدیث کیا تھا،صحابہ میں حضرت علیؓ،سعد بن ابی وقاصؓ،سعید ابن زیدؓ، زید بن ثابتؓ،قیس بن عبادہؓ، قرظہ بن کعبؓ ،عبادہ بن صامتؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ، ابو مسعود انصاریؓ، ابو ہریرہؓ،مغیرہ بن شعبہؓ،نعمان بن بشیرؓ،ابو ثعلبہ خشنیؓ ،جریر بن عبداللہ بجلیؓ،بریدہ ابن حصیبؓ،براء بن عازبؓ،معاویہؓ،جابر بن عبداللہؓ،جابر بن سمرہؓ، حارث بن مالکؓ حبشی ابن جنادہ،حسین بن علیؓ، زید بن ارقمؓ،ضحاک بن قیسؓ،سمرہ بن جندبؓ،عامر بن شہدؓ،عبداللہ بن عمرؓ،ابن عباسؓ،ابن زبیرؓ، ابن عمرو بن العاصؓ، عبداللہ بن مطیعؓ،عبدالرحمن بن سمرہؓ، عدی بن حاتمؓ،عروہ بن جعدالعبارقیؓ،عروہ بن مضرسؓ ،عمرو بن امیہؓ،عمرو بن حریث ،عمران بن حصینؓ، عوف بن مالکؓ،عیاض اشعرؓ،کعب بن عجرہؓ، محمد بن سیفیؓ،مقدام بن معدیکربؓ،وابصہ بن معبدؓ،ابی جیرہ بن ضحاکؓ،ابو سریحہ ؓ غفاری،ابو سعید خدریؓ اورصحابیات میں ام سلمہؓ،میمونہ بنت حارثؓ، اسماء بنت انیسؓ،فاطمہ بنت قیسؓ اور ام ہانیؓ وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا،ان میں سے بعض مرسل روایات ہیں،صحابہ کے علاوہ تابعین کی بہت بڑی تعداد سے استفادہ کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۵/۶۲) تلاش حدیث میں مشقت حدیث کا انہیں خاص ذوق تھا اور اس کو انہوں نے بڑی مشقت سے حاصل کیا تھا، ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اتنا علم کہا ں سے حاصل کیا،انہوں نے جواب دیا،غم واندوہ کو بھلا کر ملکوں کی سیاحت کرکے گدھوں کی طاقت برداشت اورکوؤں کی سحری خیزی کے ذریعہ۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۱) قوت حافظہ حافظہ اتنا قوی تھا کہ کبھی کاغذ قلم اور دوات کے شرمندۂ احسان نہیں ہوئے ،ایک مرتبہ جو حدیث سن لی وہ ہمشہ کے لیے سینہ میں محفوظ ہوگئی،ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی بیاض کو کتابت سے سیاہ نہیں کیا، یعنی کبھی لکھا نہیں،جب کسی نے کوئی حدیث سنائی تو وہ میرے سینہ میں محفوظ ہوگئی اور اس کے دوبارہ سننے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۱) اخذ حدیث میں احتیاط لیکن دوسروں سے حدیثوں کے لینے میں وہ بڑے محتاط تھے ان ہی لوگوں سے احادیث لیتے تھے جو علم کے ساتھ عقل و تقوی کے زیور سے آراستہ ہوتے،اس میں ان کا اصول یہ تھا کہ علم اسی شخص سے حاصل کرنا چاہئیے ،جس میں زہد وعبادت اورعقل ودانش دونوں جمع ہوں،تنہا عقل یا تنہا تقویٰ رکھنے والا علم کی حقیقت کو نہیں پاسکتا۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۷۳) حدیث میں وسعت علم حدیث میں ان کے علم کا دائرہ نہایت وسیع تھا، ان کا بیان ہے کہ میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی جس سے میں بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں (ایضاً:۷۷) اہل حجاز، بصرہ اورکوفہ تینوں علمی مرکزوں کے محدثین کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی حافظ نہ تھا (ایضا:۷۴) سنن کے بھی بڑے عالم تھے مکحول کابیان ہے کہ میں نے شعبی سے زیادہ سنتِ ماضیہ کا عالم نہیں دیکھا (ابن سعد:۱۷۷) ابن ابی لیلیٰ کہتے تھے کہ شعبی صاحب آثار تھے اورابراہیم صاحب قیاس۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۱) احتیاط فی الحدیث لیکن اس وسعتِ علم کے باوجود وہ خود روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے،زیادہ روایت کرنا پسند نہ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ گذشتہ صلحاء زیادہ حدیثیں بیان کرنا برا سمجھتے تھے،اگر مجھے یہ پہلے سے معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا، تو میں صرف محدثین کی متفقہ حدیثیں بیان کرتا۔ (ایضاً:۱۷۲) روایت بالمعنی لیکن روایت بالمعنی کو خلاف احتیاط نہیں سمجھتے تھے،یعنی روایت میں الفاظ کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے تھے،ابن عون کا بیان ہے کہ شعبی حدیثیں بالمعنی روایت کرتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۱۷۴) فقہ اگرچہ ان کو جملہ علوم وفنون میں یکساں درک حاصل تھا،لیکن ان کا خاص اور امتیازی فن فقہ تھا، اس میں ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فقیہ سمجھے جاتے تھے،ابو الحسن کہتے تھے کہ میں نے کسی کو شعبی سے بڑا فقیہ نہیں پایا،بعض علماء تو انہیں اس عہد کے کل آئمہ پر ترجیح دیتے تھے،ابومجلز کہتے تھے کہ میں سعید بن مسیب،طاؤس عطاء حسن بصری اورابن سیرین کسی کو بھی شعبی سے بلند مرتبہ فقیہ نہیں پایا۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۷۰) ابراہیم نخعی جو خود بہت بڑے فقیہ تھے،ان کے تفقہ کے اتنے قائل تھے کہ جومسئلہ ان کو نہ معلوم ہوتا اس کے سائل کو شعبی کے پاس بھیج دیتے تھے، ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، انہوں نے لا علمی ظاہر کی،اسی درمیان میں شعبی گزرتے ہوئے دکھائی دئیے،ابراہیم نخعی نے مستفتی سے کہا ان شیخ کے پاس جاکر پوچھو اوروہ جو جواب دین اسے مجھے بتاؤ ؛چنانچہ سائل نے جاکر ان سے دریافت کیا،انہوں بھی لا علمی ظاہر کی،نخعی کو یہ جواب معلوم ہوا تو انہوں نے کہا واللہ یہ فقہ ہے۔ (ابن سعد:۶/۱۷۴) ان کا فقہی کمال اتنا مسلم تھا کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں جو علوم نبوی کے حقیقی وارث تھے وہ مسندِ افتا پر بیٹھ گئےتھے،ابوبکر ندلی کا بیان ہے کہ ابن سیرین نے مجھے ہدایت کی تھی کہ شعبی کے دامن سے وابستہ رہو؛کیونکہ وہ صحابہ کی بڑی تعداد کی موجودگی میں فتویٰ دیتے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۷۱)