انوار اسلام |
س کتاب ک |
نکاح سے متعلق کچھ نئے مسائل نکاح میں گانے بجانے کا حکم گانا بجانا اور نغمہ وسروداسلام میں ایک ناپسندیدہ چیز ہے، فقہاء احناف رحمہم اللہ نے اس کومطلقاًنا جائز قرار دیا ہے، شادی میں دف اور اچھے اشعار کا ثبوت خود احادیث سے ہے؛ چنانچہ حضرت ربیع رضی اللہ عنہ بن معوذ بن عفرا سے مروی ہے کہ ان کی شادی کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے سامنے ہی چند چھوٹی بچیاں دف بجارہی تھیں اور غزوۂ بدر میں میرے آباء واجداد کی بہادری کا تذکرہ کررہی تھیں، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے موقع پردَف بجانے کا حکم دیا، ایک روایت میں ہے کہ ایک انصاریہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں حضور صلی اللہ علیہ سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خواہش کا اظہار کیا کہ تم نے دلہن کے ساتھ کسی ایسی عورت کوکیوں نہیں بھیجا جو اس طرح گاتی ہو: أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُمْ۔ (سنن ابن ماجہ، بَاب الْغِنَاءِ وَالدُّفِّ،كِتَاب النِّكَاحِ،حدیث نمبر:۱۸۹۰، شاملہ، موقع الإسلام۔) ترجمہ: تمہارے پاس آئے ہم تمہارے پاس آئےہم، مبارک ہوہم کواور مبارک ہوتم کو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اشعار پڑھنے کی اجازت ہے، حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ انصاری اور قرظہ بن کعب رضی اللہ عنہ جوبدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ہیں ان سے بھی شادی کے موقع پرکمسن بچیوں کے اشعار سننے ثابت ہیں اور فتاویٰ عالمگیری کی عبارت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے موقع پر اور عید کے دن دف بجانے کی اجازت ہے؛ لیکن بیہودہ، عشقیہ، گالیوں اور طعنوں پرمشتمل اشعار پڑھنا، بالغ یامشتہات بچیوں کا اجنبیوں تک اپنی آواز پہنچانا، دف کے علاوہ کسی اور چیز سے اپنی آواز ہم آہنگ کرنا جیسے ہارمونیم، طبلے، باجے وغیرہ مطلقاً حرام، ناجائز اور شدید گناہ اور معصیت کے کام ہیں اور ہمارے زمانے میں دَف کی اجازت سے قوی اندیشہ ہے؛ بلکہ مشاہدہ ہے کہ ان ساری برائیوں کوراہ مل جاتی ہے، اس لیے ہمارے زمانے میں اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اس سے بچنا چاہیے؛ اسی طرف مولانا تھانوی رحمہ اللہ کا بھی رجحان ہے، دعائیہ اور صالح وداعی اشعار پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۲۹۱) جہیز کی حیثیت سامانِ جہیز کے طور پرلڑکی کے والدین جوکچھ اسے دیتے ہیں اس کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ کیا اسے بیوی کی ملک سمجھا جائے گا یاشوہر کی؟ اس کا مدار دراصل عرف اور اشیاء کی نوعیت پر ہے، جوچیزیں خالصۃ مردوں کے استعمال کی ہیں وہ تومردوں ہی کی ہوگی، مثلاً نوشہ کا لباس اور گھڑی وغیرہ اور جوعورتوں کے استعمال کی ہیں جیسے زنانی کپڑے، زیورات وغیرہ تووہ ان ہی کے شمار ہوں گے، بچ رہے مشترک نوعیت کے سامان، فرنیچروغیرہ تواگرنیت داماد کوہبہ کرنے کی تھی تووہ اس کا مالک اور اگرخدانخواستہ زوجین میں تفریق ہوئی تب بھی واپسی کا مطالبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی؛ ہمارے یہاں عرف میں عموماً مقصد خود اپنی بچی کوایسے سامان دینا ہوتا ہے؛ اس لئے بچی ہی اس کی مالک سمجھی جائے گی اور علاحدگی کے وقت یااس سے پہلے بھی اسے اپنی سسرال سے واپس لانے کی مجاز ہوگی۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۲۹۴) منگنی کی شرعی حیثیت اور منگنی کے بعد لڑکی کا نکاح سے انکار کرنا کسی لڑکی والوں نے یالڑکے والوں نے ان دونوں کا نکاح آپس میں کرنے کا وعدہ کرلیا جسے منگنی یارسم وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی حیثیت ایک وعدے کی ہے، جس کا پورا کرنا واجب ہے اور اگرکوئی شرعی عذر نہ ہو (جیسے لڑکی والے ہماری خاطر تواضع نہیں کرتے یاجہیز وغیرہ صحیح نہیں دےرہےہیں وغیرہ)تو اس کی خلاف ورزی جائز نہیں؛ البتہ کوئی معقول عذر پیش آجائے تومنگنی توڑی بھی جاسکتی ہے۔ (ملخص فتاویٰ عثمانی:۲/۲۲۸۔ فتاویٰ محمودیہ:۱۱/۱۵۸) نکاح میں دف اور گولہ اعلانِ نکاح کے لیے دف بجانا بشرطیکہ اس میں جلاجل نہ ہو؛ نیز ہیئت تطرّب (جذبات بھڑکانے اور آواز میں اُتار چڑھاؤ کی ہیئت) پرنہ بجایا جائے؛ محض اعلان اور تشہیر کے لیے بجایا جائے توشرعاً درست ہوگا، مروّجہ دَف ناجائز ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۱۱/۲۱۷)