انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امیر معاویہ کی فرد جرم کی تاریخی حیثیت امیر معاویہؓ کی سیرت میں ان کے کار ناموں کی تفصیل کے بعد سب سے اہم اورضروری ان غلط روایات اوربے بنیاد الزاموں کی تنقید و تردید ہے جن کی شہرت عام نے بہت سے تعلیم یافتہ مگر کوتاہ نظر اشخاص کو بھی امیر معاویہؓ کی جانب سے غلط فہمیوں میں مبتلا کردیا ہے،یہ واقعات تاریخی حیثیت سے یا بالکل بے حقیقت ہیں یا نہایت کمزور ہیں،لیکن ان کی شہرتِ عام نے انہیں تاریخی حقائق سے بھی زیادہ مشہور کردیا ہے اوراس کی تاریکی میں امیر کے روشن خدوخال بالکل چھپ گئے ہیں۔ ان واقعات کی شہرت کے دو اسباب ہیں،پہلا سبب بنی امیہ اوربنی ہاشم کی قدیم چشمک اور خلافت کے بارہ میں اہل بیت اورغیر اہل بیت کا سوال ہے، بعض ناعاقبت اندیش اوربدخواہِ خلافت مفسدوں نے شیخین ہی کے عہد میں اس قسم کے اختلافی سوالات پیدا کردیئے تھے ،لیکن ان دونوں بزرگوں کی خلافت اجماعی اورخالص شرعی تھی ،نظام خلافت حق وصداقت کی بنیادوں پر قائم تھا، خود یہ بزرگوار اسوۂ نبویﷺ کا مجسم پیکر تھے، اس سے بھی بڑھ کر حق و باطل میں امتیاز کرنے والی جماعتِ صحابہ موجود تھی، اس لئے یہ شرانگیز سوالات ابھر نہ سکے اور دماغوں ہی کے اندر دب دب کر رہ گئے، اس کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں (باوجود یکہ وہ بھی خلیفۂ راشد تھے لیکن چونکہ امتداد زمانہ سے نظام خلافت میں پہلی استواری قائم نہ رہ گئی تھی) فتنہ پر ست فرقہ کی شر انگیزیاں اثر کر گئیں اور حضرت عثمانؓ کو طرح طرح کے الزمات کا نشانہ بننا پڑا اوراس کے جو مذموم نتائج نکلے وہ سب کو معلوم ہیں، ایسی حالت میں امیر معاویہؓ کو جن کی حکومت نہ خلافتِ راشدہ کے صراطِ مستقیم سے ہٹی ہوئی تھی اوروہ بعض غلطیوں کی وجہ سے بد نام ہورہے تھے مورد الزام بنادینا کیا مشکل تھا۔ دوسرا سبب ان کی بعض لغزشیں ہیں، مثلا ً جناب امیر ؑ کے مقابلہ میں ان کا صف آرا ہونا، اوراس میں کامیابی کے لئے ہر طرح کے جائز و ناجائز وسائل استعمال کرنا، حضرت حسنؓ سے لڑنا، اسلامی خلافت کو موروثی حکومت میں بدل دینا وغیرہ ،ان میں سے ہر ایک واقعہ ان کی ایسی کھلی غلطی ہے جسے کوئی حق پسند مستحسن نہیں قرار دے سکتا، خصوصا ًیزید کی ولیعہدی سے اسلامی خلافت کی روح ختم اوراسلام میں موروثی بادشاہت کی رسم قائم ہوگئی، ان واقعات نے عوام کو چھوڑ کر حق پسند خواص کو بھی امیر معاویہ سے بد ظن کردیا، اس لئے امیر معاویہؓ کے مخالفین کو ان کے خلاف پروپگنڈے کا موقع مل گیا اور انہوں نے ان واقعات کو جنہیں سنجیدہ طبقہ بھی ناپسند کرتا تھا، آڑ بنا کر امیر معاویہؓ کو طرح طرح کے الزامات کا نشانہ بنادیا اورچونکہ عوام پہلے سے ان سے بد ظن تھے، اس لئے امیر کے مخالفوں نے جس رنگ میں ان کی تصویر پیش کی اورجو جو برائیاں ان کی طرف منسوب کیں لوگوں نے نہایت آسانی کے ساتھ اس کو قبول کرلیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ ؓ کے بعد گو نصف صدی سے زیادہ بنی امیہ کی حکومت قائم رہی، لیکن ان کے خلاف جو نفرت انگیز جذبات پیدا ہورہے تھے،وہ برابر دماغوں میں پرورش پاتے رہے، اوران کی مخالفت کا جو نقش جم گیا تھا وہ کسی طرح نہ مٹ سکا، ان ہی واقعات کے نتائج میں بنی عباس کی حکومت قائم ہوئی، یہ سب بنی امیہ کے نہایت سخت دشمن تھے، اس لئے بنی امیہ کی مخالفت میں جو صدا امیر معاویہؓ کے عہد میں اٹھی تھی، وہ بنی عباس کے پورے دورِ حکومت تک برابر گونجتی رہی؛بلکہ اس کا غلغلہ اورزیادہ بلند ہوگیا اوربنی عباس کی حکومت وہ تھی جس کا سکہ مشرق سے مغرب تک روان تھا اس لئے امیر معاویہؓ کے مثالب ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گئے۔ اسی زمانہ میں تاریخ نویسی کا آغاز ہوا، اس لئے ایسی بہت سی غلط روایتیں جو عرصہ سے زبانوں پر چڑھی چلی آرہی تھیں، تاریخوں میں داخل ہوگئیں؛ کیونکہ ایسے ابتدائی دور میں جبکہ تاریخ نویسی کا آغاز ہوا تھا روایات کی اتنی تحقیق وتنقید جس سے افسانہ وحقائق میں پورا پورا امتیاز ہوسکے مشکل تھی، گو بہت سی بے سروپا روایتیں جن کا لغو ہونا بالکل عیاں تھاتنقید سے مسترد ہوگئیں، پھر بھی بہت سے غلط واقعات تاریخ کا جزو بن گئے،حتیٰ کہ مورخ ابن جریر اپنی محدثانہ تنقید کے باوجود اپنی کتاب کو غلط روایات سے محفوظ نہ رکھ سکا اورآغاز تاریخ اسلام میں واقعات پولیٹیکل مقاصد کے لئے تراشے گئے تھے، اس میں داخل ہوگئے، تاہم زمانہ ما بعد میں جب تنقید کا معیار بلند ہوا تو بڑی حد تک اس قسم کی روایتیں ناقابل اعتبار قرار پائیں؛چنانچہ ابن خلدون میں اس قسم کے افسانے نہیں ملتے۔ غرض بعض ان غلط واقعات نے جن کا عوام کی زبانوں کے سوا تاریخ میں سرے سے کوئی وجود نہیں اور حددرجہ ضعیف اورکمزور روایتوں نے مل کر امیر معاویہؓ کی تصویر بہت بھیانک کردی، اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ان غلط افسانوں اورکمزور تاریخی روایات کا پردہ ہٹا کر امیر معاویہؓ کی اصلی تصویر پیش کردی جائے تاکہ ان کی زندگی کے قابل اعتراض پہلو کے ساتھ روشن پہلو بھی نظر آجائیں اور ان کی طرف سے عام طور پر جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ دور ہوجائیں۔ لیکن ان واقعات کی تردید کا منشا امیر معاویہؓ کے بے جا حمایت یا ان کا اور حضرت علیؓ کا موازنہ نہیں ہے، ابن عم رسول خلیفۂ راشد علی مرتضیؓ، اورامیر شام کا مقابلہ ہی کیا؛بلکہ اس کا مقصد صرف امیر معاویہؓ کی جانب تصحیح خیال اوران غلط واقعات کی پردہ دری ہے،جن کی شہرت عام نے بہت سے مسلمانوں کو ایک صحابی رسول سے بد ظن کر رکھا ہے۔ امیر معاویہؓ پر عموماً حسب ذیل الزمات لگائے جاتے ہیں، یا کم از کم عوام الناس کی زبانوں پر ہیں (۱)حضرت حسنؓ کے زہر دلوانے میں امیر معاویہؓ کا ہاتھ تھا (۲)بنی ہاشم اوراہل بیت نبویﷺ کے ساتھ امیر معاویہؓ کا طرز عمل ناپسندیدہ تھا (۳)جناب امیر پر سب وشتم کرتے تھے (۴) صحابہ کو قتل کیا اوران کی توہین کی (۵) ان کا طرز حکومت نہایت جابرانہ تھا (۶)انہوں نے بیت المال کو ذاتی خزانہ بنالیا تھا اور اس کو اپنے اغراض میں اڑاتے تھا (۷) حکومت کے تمام شعبوں میں بنی امیہ کو بھردیا تھا (۸)بہت سی بدعتیں جو خلفائے راشدین کے عہد میں نہ تھیں، معاویہؓ نے جاری کیں۔