انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حسن بن صالح الہمدانیؒ نام ونسب حسن نام اورابو عبداللہ کنیت تھی(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۵)نسب نامہ یہ ہے حسن بن صالح بن صالح بن مسلم بن حیان بن شفی بن ہنی بن رافع بن قملی بن عمرو بن ماتع بن صہلان بن زید بن ثور بن مالک بن معاویہ بن دومان بن کمبیل بن جشم بن ہمدان (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۰) جدِامجد حیان کا لقب حی تھا، اس لئے ابنِ سعد اوربعض دوسرے محققین ان کا ذکر حسن بن حی کے نام سے بھی کرتے ہیں،وطن کی نسبت سے کوفی اورقبیلہ کی طرف منسوب ہوکر ہمدانی مشہور ہوئے ہمدان میں کا ایک قبیلہ ہے جوکوفہ آباد ہونے کے بعد وہاں آکر بس گیا تھا،اس قبیلہ کی بکثرت شاخیں ہیں۔ (کتاب الانساب اللسمعانی :۵۹۱) وطن اور پیدائش ۱۰۰ھ میں کوفہ کی مردم خیز سرزمین میں ولادت ہوئی حسن بن صالح اوران کے بھائی (علی بن صالح) دونوں توام پیدا ہوئے تھے (العبر فی خبر من عنبر:۱/۲۴۹)ان دونوں کی ولادت میں صرف ایک گھنٹہ کا فصل ہوا تھا،یعنی علی کی ولادت حسن سے ایک گھنٹہ قبل ہوگئی تھی ظاہر ہے اس سے عمر میں کوئی نمایاں تفاوت واقع نہیں ہوتا،لیکن ابو نعیم کا بیان ہے کہ میں نے حسن کو کبھی اپنے بھائی کا نام لیتے نہیں سُنا جب اس کی ضرورت پیش آتی تو فرماتے قال ابو محمد ھکذا (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۰) (علی بن صالح کی کنیت ابو محمد تھی) علم وفضل علمی اعتبار سے وہ باکمال اتباع تابعین میں تھے، انہوں نے نہ صرف حدیث فقہ کی قندیلیں فروزاں کیں ؛بلکہ اخلاق وعمل کے چراغ بھی روشن کئے،اپنے زمانہ کے ممتاز عالم ،عابد اورزاہد شمار کئے جاتے تھے،تمام علماء اور محققین ان پر کلام کے باوجود جملہ خصوصیات اور کمالات کا اعتراف بھی کرتے ہیں،ان کے شاگرد رشید ابو نعیم بیان کرتے ہیں کہ: کتبت عن ثمان،مائۃ محدث فما رایت افضل من حسن بن صالح (العبر فی خیر من عنبر:۱/۲۴۹،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۵) میں نے آٹھ سو محدثین سے حدیثیں لکھی ہیں لیکن حسن بن صالح سے زیادہ بلند مرتبہ میں نے کسی کو نہیں پایا اجتمع فیہ حفظ واتقان وفقہ وعبادۃ وہ حفظ واتقان اورفقہ وعبادت کا مجموعہ تھے۔ شیوخ وتلامذہ حسن بن صالح نے خیر القرون کا وہ پُر بہار زمانہ پایا تھا،جب قریہ قریہ اجلہ تابعین کی نواسنجیوں سے پُر شورتھا،پھر کوفہ تو ہمیشہ ہی سے علم کا مرکز اورعلماء کا منبع رہا ہے حسن بن صالح نے بھی اس عہدِ سعادت کی بہاروں سے اپنے دل و دماغ کو معطر کیا تابعین کرام کی ایک بڑی جماعت سے انہیں فیض صحبت حاصل ہوا، ممتاز اساتذہ میں ان کے والد صالح بن صالح کے علاوہ ابو اسحاق سبیعی،عمروبن دینار،عاصم الاحول،عبداللہ بن محمد بن عقیل،اسماعیل السدی،عبدالعزیز بن رفیع،محمد بن عمروبن علقمہ،لیث بن ابی سلیم، منصور بن المعتمر،سہیل بن ابی صالح،سلمہ بن کہیل،سعید بن ابی عروبہ،سماک بن حرب،عبداللہ بن دینار (العبر فی خبر من غیر:۱/۲۴۹،وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۷۶) کے نام لائق ذکر ہیں۔ اسی طرح خود ان سے مستفید ہونے والوں کا حلقہ بھی بہت وسیع ہے،نامور تلامذہ میں عبداللہ بن المبارک،حمید بن عبدالرحمن الرواسی،اسود بن عامر،شاذان ،وکیع بن الجراح،یحییٰ بن آدم ،جراح بن ملیح الرواسی،عبداللہ بن داؤد الخریبی،ابو احمد الزبیری ،عبید اللہ بن موسیٰ ابو نعیم،طلق بن غنام ،قبیصہ بن عقبہ، احمد بن یونس،علی بن الجعد (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۵)جیسے یکتا ئے عصر علماء شامل ہیں۔ حدیث وفقہ حسن بن صالح کو حدیث اور فقہ دونوں پر یکساں قدرت اورعبور حاصل تھا لیکن فقہ ان کی خصوصی جولا نگاہ تھی،اسی بنا پر فقیہ کوفہ کی حیثیت سے انہیں زیادہ شہرت اورقبولِ عام نصیب ہوا؛چنانچہ حافظ ذہبی اورعلامہ خزری نے "فقیہ کوفہ"ہی کے الفاظ سے ان کے تذکرے کا آغاز کیا ہے،عجلی کا قول ہے کہ حسن بن صالح سفیان ثوری سے بھی بڑے فقیہ تھے۔ (تہذیب التہذیب:۳/۲۸۸) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حدیث میں ان کا کوئی مقام نہ تھا؛بلکہ اس میں بھی انہیں کامل دسترس حاصل تھی،تمام علمائے جرح وتعدیل ان کی ثقاہت ،عدالت ،صداقت اوراتقان پر متفق ہیں جو کچھ بھی کلام ان کے بارے میں کیا گیا ہے، وہ ان کے بعض دوسرے خیالات سے متعلق ہے (جس کی تفصیل آگے آئے گی)لیکن ان کی محدثانہ شان اورفقیہانہ جلالتِ قدر میں کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے،امام احمدؒ فرماتے ہیں،حسن اثبت فی حدیث من شریک دوسری جگہ فرماتے ہیں: الحسن بن صالح صحیح الروایۃ متفقۃ صائن لنفسہ فی الحدیث والورع (تہذیب التہذیب:۲/۲۸۲) حسن بن صالح متفقہ طور پر صحیح الروایہ ہیں اورحدیث ورع میں بلند مرتبہ۔ ابنِ معین کا بیان ہے: یکتب رأی مالک والاوزاعی والحسن بن صالح وھولاء ثقات (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۴۹) امام مالک ،اوزاعی اورحسن بن صالح کی رائے لکھی جاتی ہے اوریہ سب ثقہ ہیں۔ ابو حاتم کا قول ہے: ثقۃ،حافظ متقن،ابن عدی کہتے ہیں: لم اجد لہ حدیثا منکراً وھو عندی من اھل الصدق (میزان الاعتدال:۱/۲۳۱) میں نے ان کی کوئی منکر حدیث نہیں پائی وہ میرے نزدیک اہلِ صدق میں سے ہیں۔ ابن سعد نے لکھا ہے ‘کان ثقۃ صحیح الحدیث کثیرہ’ (طبقات ابنِ سعد:۶/۲۶۰) علاوہ ازیں امام نسائی،دار قطنی،بخاری اورابن ابی خثیمہ وغیرہ دیگر محدثین وماہرینِ فن نے بھی حسن بن صالح کی ثقاہت وعدالت کو بصراحت تسلیم کیا ہے۔ دو الزامات اوران کے جوابات بایں ہمہ تبحر علمی اورفضائل وکمالات حسن کی ذات گرامی بھی فقہ وجرح کے غبار سے محفوظ نہیں رہی لیکن اس کا تعلق ان کے بعض معتقدات اورخیالات سے ہے۔ پہلا الزام ان پر یہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ علوم دینیہ سے مالا مال ہونے اوراپنے تما م تر مذہبی تقشف کے باوجود نمازِ جمعہ نہیں پڑھتے تھے،سفیان ثوری کا بیان ہے۔ الحسن بن صالح مع ماسمع من العلم وفقہ یترک الجمعۃ حسن بن صالح علم وفقہ کے باوجود نماز جمعہ ترک کردیتے تھے اس کمزوری کی بنا پر خود ان کے بہت سے تلامذہ ان کو سخت ناپسند کرتے اوران سے روایت کرنے میں محتاط رہتے تھے۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ وہ ظالم مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج بالسیف کے جواز کے قائل تھے،ان کے نزدیک اگر کوئی مسلم حکمران اورامام اپنے ظلم وجور سے خلقِ خدا پر مسلط ہو جائے تو از روئے شرع اس کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردنوں میں باقی رکھنا ضروری نہیں ہے؛بلکہ عامہ مسلمین اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے اس کی چیرہ دستیوں کو بقوت ختم کرنے کا حق رکھتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ قدیم ائمہ سلف کا مسلک یہی رہا ہے، لیکن اس کے نتیجہ کے طور پر گذشتہ زمانہ میں جو ہولناک خونریزیاں ہوئیں اس پر اوراقِ تاریخ شاہد ہیں،واقعہ حرّہ اورابن الاشعث کے واقعہ میں جو کچھ ہوا، اس میں اربابِ بصیرت کے لئے کافی سامانِ عبرت موجود ہے، اس وجہ سے اب جمہور ائمہ نے اس قدیم مسلک کے یکسر ترک پر اتفاق کرلیا ہے،جس کی رو سے ظالم حکمران اورامام المسلمین کی اطاعت بھی بہرحال لازمی ہے،اس سے روگردانی کی گنجائش نہیں ۔ حسن بن صالح کے معاصر علماء نے اسی بناء پر ان کے مسلک سے شدید اختلاف کیا اور اسے ان کے معائب میں شمار کیا، ابو نعیم بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سفیان ثوری کی مجلس میں حسن بن صالح کا ذکر آیا تو انہوں نے سخت ناگواری ظاہر کی اورفرمایا: ذلک یری السیف علی الامۃ یعنی الخروج علی الاولاۃ الظلمۃ (میزان الاعتدال:۱/۲۳۱) وہ امت (یعنی ظالم حکمرانوں)کے خلاف خروج بالسیف کے قائل تھے۔ لیکن علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے ان دونوں الزامات کی بہت شدومد کے ساتھ تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اولاً تو اس قسم کے شخصی مسلک کی بنیاد پر ایک ایسی شخصیت کے کردار کو مجروح نہیں کیا جائے گا جس کی عدالت،حفظ،اتقان اورزہد وتقویٰ مسلم ہو،ثانیاً ان کے اس مسلک میں تاویل کی بھی بڑی گنجائش موجود ہے؛ یعنی یہ کہ وہ کسی فاسق کے پیچھے نمازِ جمعہ کے قائل نہ ہوں گے، اوراسی طرح وہ کسی فاسق امام المسلمین کی اورنگ نشینی کو درست تسلیم نہیں کرتے ہوں گے اوراگر حسن کا مسلک بھی فی الواقع وہی رہا ہو، جو عام طور سے سمجھا گیا تو بھی ان کی ذات مطعون قرار نہیں دیجاسکتی،اس لئے کہ وہ مجتہد مطلق تھے۔ (تہذیب التہذیب:۳/۲۸۸) پھر یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے وہ یہ کہ حسن بن صالح کے نزدیک ظالم حکمرانوں کے خلاف جہاد جائز ضرور تھا تاہم ایک بھی نظیر اس کی موجود نہیں کہ انہوں نے اپنے اس خیال کو عملی شکل دی ہو اور کسی مسلم حکمران کے جو روستم کے خلاف خروج کیا ہو،علاوہ ازیں ترک جمعہ کے الزام کی تردید خود ابو نعیم کے اس واضح بیان اورشہادت سے ہوتی ہے کہ : قال ابن المبارک کان ابن صالح لا یشھد الجمعۃ وانا رایتہ فی الجمعۃ قد شھد ھا مع الناس (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۱) ابن مبارک کا قول ہے کہ ابن صالح جمعہ کی نماز میں نہیں آتے تھے،درآنحا لیکہ میں نے خود انہیں دیکھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ نماز جمعہ میں تشریف لائے۔ اس شہادت کی روشنی میں حافظ ابن حجر کی مذکورہ بالاتاویل بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ زہد وورع تقویٰ وپاک نفسی میں بھی حسن کا مرتبہ بہت بلند تھا، ان کی اس خصوصیت کا نمایاں طور سے ذکر کیا جاتا ہے،ابن حجر نے انہیں متقی کامل قراردیا ہے (تہذیب التہذیب:۳/۲۸۸) سمعانی نے ان کے تقشف کی حد تک زہد وورع کی صراحت کی ہے (کتاب الانساب السمعانی:۵۹۱) ابو زرعہ کا یہ قول گذرچکا کہ حسن اتقان ،فقہ،عبادت اورزہد سب کے مجموعہ کمالات تھے۔ (میزان الاعتدال:۱/۲۳۱) عبادت وریاضت حسن بن صالح زیورِ علم کے ساتھ عمل کی دولت سے بھی مالا مال تھے،عبادت کی کثرت اوراس میں غایت درجہ خشوع وخضوع ان کے صحیفۂ کمال کے بہت نمایاں ابواب ہیں؛چنانچہ امام وکیع علم وفضل اورریاضت وعبادت میں انہیں شہرۂ آفاق تابعی سعید بن جبیرؓ سے تشبیہ دیتے تھے (مراۃ الحجنان:۱/۳۵۳) ابن سعد لکھتے ہیں کان ناسکاً عابدا فقیھاً (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۱)ابن حبان کا قول ہے تجرد للعبادۃ۔ (کتاب الانساب للسمعانی :۵۹۱) حافظ ابن حجر،علامہ یافعی،امام ذہبی اورابنِ سعد وغیرہ محققین نے حسن بن صالح کی کثرتِ عبادت کے بارے میں امام وکیع کا یہ بہت ہی حیرت انگیز بیان نقل کیا ہے کہ حسن،ان کے بھائی علی اوران کی والدہ نے پوری رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا، ہر فرد اپنے حصہ شب (یعنی ثلث لیل) میں عبادت کرتا تھا، پھر جب ان کی والدہ کی رحلت ہوگئی تو دونوں بھائیوں نے رات کے دو حصے کرکے نصف نصف شب عبادت کرنا شروع کردیا، پھر ایک عرصہ کے بعد علی بن صالح کا انتقال ہوگیا تو حسن اخیر عمر تک تمام شب عبادت کیا کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۲/۲۸۸،میزان الاعتدال:۱/۲۳۰، العبر فی خبر من غبر، تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۵،مراۃ الجنان :۱/۳۵۳،طبقات ابن سعد،:۶/۲۶۱) خشیتِ الہیٰ اپنے تمام تبحر علمی اورمجاہدوں وریاضتوں کے باوجود حسن بن صالح خوفِ آخرت اورخشیتِ الہیٰ سے ہمہ وقت لرزاں رہتے تھے،جو بلاشبہ ان کے علوئے مرتبت اورجلالت شان کی روشن دلیل ہے، خاصانِ خدا ہمیشہ اس صفتِ عالیہ سے ضرور متصف ہوتے ہیں،ابو سلیمان دارانی راوی ہیں کہ میں نے حسن سے زیادہ کسی کو خوفِ خدا سے لرزاں نہیں دیکھا،وہ نماز میں ایک ہی سورہ پڑھنے میں صبح کردیتے تھے اوردرمیان میں فرطِ خشیت سے باربار بیہوش ہوجاتے تھے۔ مارایت احداً الخوف اظھر علی وجھہ من الحسن قام لیلۃ بعم یتساءلون فغشی علیہ فلم یختمھا الی الفجر (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۹۵) میں نے حسن بن صالح سے زیادہ کسی کو خدا سے خائف نہیں دیکھا،ایک شب نماز میں عَمَّ یَتَسَاءَ لُوْن شروع کی تو بے ہوش ہوگئے اوراس سورۃ کو نمازِ فجر تک بھی ختم نہ کرسکے۔ نیک نفسی ان تمام گوناگوں کمالات اورخصائل حمیدہ کے ساتھ وہ اخلاق ونیک طبعی کا بھی ایک اعلیٰ نمونہ تھے،ان کی معاشی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ تھی،خود کہا کرتے تھے کہ بما اصبحت وما معی درھم ،تاہم جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا اس میں فیاضی اور سرچشمی سے کام لیتے تھے،کبھی کوئی سائل ان کے درسے تہی دست واپس نہیں ہوا، حتی کہ وقت پر اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو اپنے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء دے دیتے تھے،ابو نعیم فضل بن دکین بیان کرتے ہیں: جاہ یوماً سائل فسألہ فنزع جوربیہ فاعطاہ (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۱) ایک دن ان کے پاس ایک سائل نے آکر دستِ سوال پھیلا یا تو اپنے دونوں موزے اتار کر اس کو عطا کردئے۔ وفات باختلافِ روایت ۱۶۷ھ یا ۱۶۹ھ میں علم وعمل کا یہ روشن چراغ کوفہ میں گل ہوگیا، وفات سے سات سال قبل گوشہ گیر ہوگئے تھے،اس وقت خلیفہ مہدی کا آفتاب حکومت اوج اقبال پر تھا اورکوفہ میں اس کا والی روح بن حاتم تھا، کوفہ کے جس مکان میں حسن نے گوشہ نشینی اختیار کی تھی، اسی میں ان کے ساتھ عیسیٰ بن زید بھی کنارہ کش ہوگئے تھے،خلیفہ مہدی نے ان دونوں کو باہر لانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا،حتیٰ کہ اسی حالت میں دونوں نے جامِ اجل نوش کیا، ابو نعیم راوی ہیں کہ رایت حسن بن صالح یوم الجمعۃ قد شھد ھا مع الناس ثم اختفیٰ یوم الاحد الی ان مات ولہ یومئذ اثنتان اورثلاث وستون سنۃ میں نے حسن بن صالح کو جمعہ کے روز دیکھا کہ وہ عام لوگوں کے ساتھ جمعہ میں شریک ہوئے، پھر اس کے بعد اتوار کے دن گوشہ نشین ہوگئے اوروفات تک اسی حالت میں رہے انتقال کے وقت ان کی عمر ۶۲یا ۶۳ سال تھی۔ اس بیان سے ان کی عمر ۶۲یا ۶۳ سال معلوم ہوتی ہے، اس لحاظ سے ان کا سنہ ولادت ۱۰۴ ھ قرار پاتا ہے،کیونکہ ۱۶۷ ھ کے سنہ وفات ہونے پر خود ابو نعیم بھی متفق ہیں: واللہ تعالیٰ اعلم