انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت کعب بن مالکؓ نام ونسب کعب نام، ابو عبداللہ کنیت ،بنو سلمہ سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے،کعب بن مالک بن ابی کعب عمرو بن قیس بن سواد بن منعم بن کعب بن مسلمہ بن سعد بن علی بن اسد بن ساردہ بن یزید بن حشم بن خزرج ،والدہ کا نام لیلی بنت زید بن ثعلبہ تھا اور بنو سلمہ سے تھیں۔ جاہلیت میں ابوالبشیر کنیت کرتے تھے، آنحضرتﷺ نے بدل کر ابو عبداللہ کردی، مالک کے یہی ایک چشم وچراغ تھے۔ اسلام عقبہ ثانیہ میں ۷۰ آدمیوں کے ساتھ مکہ آکر بیعت کی۔ غزوات آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے اور انصار ومہاجرین میں برادری قائم کی تو حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ کو کہ عشرۂ مبشرہ میں تھے ان کا بھائی بنایا۔ غزوۂ بدر میں جلدی کی وجہ سے نہ جاسکے، ان کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ رہ گئے تھے،لیکن آنحضرتﷺ نے کسی کو کچھ نہ کہا۔ اس غزوہ سے محروم رہنے کا ان کو کچھ افسوس بھی نہ تھا، خود فرماتے تھے کہ لیلۃ العقبہ کے مقابلہ میں جو اسلام کی آئندہ کامیابیوں کا دیباچہ تھی، میں بدر کو ترجیح نہیں دیتا گو لوگوں میں بدر کا زیادہ چرچا ہے۔ (بخاری:۲/۶۳۴) غزوۂ احد میں اپنے مہاجر بھائی کی طرح داد شجاعت دی، آنحضرتﷺ کی زرد زرہ پہن کر میدان میں آئے،آنحضرتﷺ ان کی زرہ زیب تن کئے تھے، اس لڑائی میں ۱۱ زخم کھائے۔ آنحضرتﷺ کے متعلق خبر اڑ گئی تھی کہ شہید ہوگئے صحابہؓ کو سخت تشویش پیدا ہوگئی،سب سے پہلے انہوں نے پہچانا اور بآواز بلند پکاراٹھے کہ رسول اللہﷺ یہ ہیں، آنحضرتﷺ نے اشارہ فرمایا کہ خاموش رہو۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی:۲۲) احد کے بعد جو غزوات پیش آئے، اُن میں انہوں نے نہایت مستعدی سے شرکت کی ،یہ عجیب بات ہے کہ عہد نبوت کے پہلے غزوہ کی طرح پچھلے غزوہ کی شرکت کے شرف سے بھی محروم رہے، غزوۂ تبوک آنحضرتﷺ کا اخیر غزوہ ہے(یہ مفصل واقعہ صحیح بخاری ،صفحہ:۶۳۴،۶۳۵،۶۳۶میں مذکور ہے) اور غزوہ عسرت کہلاتا ہے،آنحضرتﷺ کی عادت یہ تھی کہ کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو صاف صاف نہ بتاتے ؛لیکن اس دفعہ خلاف معمول ظاہر کردیا تھا،تاکہ مسلمان اس طویل اور مشکل سفر کیلئے تیار ہوجائیں، خود حضرت کعبؓ نے اس کے لئے دو اونٹ مہیا کئے تھے،ان کا بیان ہے کہ میں کسی غزوہ میں اتنا قوی ،تیار اورخوشحال نہ تھا جتنا اس دفعہ تھا۔ اہتمام کی اصل وجہ یہ تھی کہ رومیوں سے مقابلہ تھا جو سازو سامان ،تعداد، جمعیت و کثرت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی قوت شمار ہوتے تھے، آنحضرتﷺ نے مسلمانوں کی بہت بڑی جمعیت فراہم کی اور شدید گرمی کے زمانہ میں تیاری کا حکم دے دیا۔ حضرت کعبؓ روزانہ تہیہ کرتے ؛لیکن کوئی فیصلہ نہ کرپاتے ،اسی میں وقت گذر گیا اورآنحضرتﷺ صحابہؓ کو لے کر تبوک روانہ ہوگئے۔ یہاں ابھی تک سامان بھی درست نہ ہوا تھا، دل میں کہتے تھے کہ میں جاسکتا ہوں ؛لیکن پھر نیت بدل جاتی اور رک جاتے،اسی طرح روزانہ سفر کا ارادہ کرتے اور فسخ کرتے ،یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے تبوک پہنچنے کی خبر آگئی۔ شہر میں نکلتے تو منافقین اورضعفاء کے علاوہ کوئی نظر نہ آتا، سخت شرمندگی ہوتی کہ تنو مند ،قوی اورصحیح و سالم ہونے کے باوجود کیوں پیچھے رہ گیا۔ آنحضرتﷺ کو ان کے رہ جانے کا کوئی خیال بھی نہ تھا، نہ فوج کا کوئی رجسٹر تھا جس سے غیر حاضر رہنے والوں کا پتہ چلتا اس بناء پر آنحضرتﷺ کو معلوم ہونے کا صرف ایک ذریعہ تھا اور وہ وحی الہی تھی۔ تبوک پہنچ کر ان کے متعلق دریافت کیا تو بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ان کو اپنے کپڑے دیکھنے سے کب فرصت تھی جو یہاں آتے، حضرت معاذ بن جبلؓ نے کہا یہ غلط ہے ہم نے ان میں کوئی بری بات نہیں پائی، آنحضرتﷺ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ غزوہ ختم ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ کی واپسی کی خبر ان کو ملی تو ان کے دل میں مختلف خیالات موجزن ہوئے ،گھر کے لوگوں سے مشورہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ناراضی سے بچنے کی کیا تدبیر ہے ،کبھی یہ خیال آتا کہ باتیں بناکر آنحضرتﷺ کے غصہ سے نجات حاصل کریں ،لیکن جب رسول اللہ ﷺ مدینہ کے قریب پہنچے تو یہ تمام وسوسے دور ہوگئے اورانہوں نے تہہیہ کرلیا کہ چاہے کچھ ہو سچ سچ سارا ماجرا حضورﷺ سے عرض کردیں گے۔ آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے تو ۸۰ سے اوپر آدمیوں کی ایک جماعت معذرت کے لئے حاضر ہوئی اور قسم کھا کر ایک ایک نے اپنا عذر بیان کیا، آپ نے سب کا عذر قبول کیا ،بیعت لی اور سب کے لئے استغفار کیا اس کے بعد حضرت کعبؓ سامنے آئے آنحضرتﷺ ان کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایاآؤ وہ سامنے آکر بیٹھے تو پوچھا کہ غزوہ میں کیوں نہ گئے؟عرض کیا حضور سے کیا چھپاؤں، کوئی دنیاوی حاکم ہوتا تو سو طرح کی باتیں بنا کر اس کو راضی کرلیتا ؛کیونکہ میں مقرر اور مباحث واقع ہوا ہوں، لیکن آپ کے سامنے سچ بولونگا ،شائد خدا معاف کردے،جھوٹ بولنے سے اس وقت آپ خوش تو ہو جائیں گے لیکن پھر خدا آپ کو میری طرف سے ناراض کردیگا اور مجھے یہ گوارہ نہیں ہے، واقعہ یہ ہے کہ مجھےکوئی عذر نہ تھا، میں نہایت قوی، باسروسامان اور مالدار تھا؛ لیکن بد قسمتی کہ نہ جاسکا، آنحضرتﷺ نے فرمایا انہوں نے سچی بات کہی اچھا جاؤ تمہارے لئے خدا جو فیصلہ کرے۔ یہ وہاں سے اٹھے تو بنو سلمہ کے کچھ لوگوں نے کہا کہ اس سے پہلے تم نے کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا تھا اور تعجب ہے کہ اس کے لئے تم کوئی عذر بھی نہ پیش کرسکے،کیا اچھا ہوتا، اگر اور لوگوں کی طرح تم نے بھی کوئی عذر کردیا ہوتا، رسول اللہ ﷺ نے استغفار کیا تھا تمہارا گناہ بھی معاف ہوجاتا، یہ سن کر پھر ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جاکر اگلے بیان کی تردید کردیں ،پھر کچھ سوچ کر پوچھا کہ میرے جیسے کچھ اور لوگ بھی ہیں؟ معلوم ہوا ہاں دو آدمی اور ہیں مرارہؓ بن ربیع اور ہلال بن امیہؓ، دونوں بزرگ نہایت صالح اور غزوۂ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے ان کے نام سن کر تسکین ہوئی اور جھوٹ کے ارادہ سے باز آئے۔ آنحضرتﷺ نے ان تینوں سے مسلمانوں کو بات چیت کرنے کی ممانعت کردی تھی، ۵۰ دن تک یہی حالت رہی، لوگ ان کو گھور گھور کر دیکھتے تھے؛لیکن بولتے نہ تھے مرارہؓ اور ہلالؓ تو گھر میں بیٹھ گئے تھے، اور رات دن رویا کرتے تھے ،کعبؓ جوان آدمی تھے ،گھر میں کہا ں بیٹھ سکتے تھے ،پانچوں وقت مسجد میں نماز کے لئے آتے اور بازاروں میں پھر اکرتے ؛لیکن کوئی مسلمان بات تک کاروادار نہ ہوتا۔ مسجد میں آتے اور رسول اللہ ﷺ کو نماز کے بعد سلام کرتے،آنحضرتﷺ مصلے پر بیٹھے رہتے ،یہ دیکھتے کہ جواب میں لب مبارک ہلے یا نہیں، پھر قریب ہی نماز پڑہتے اور گوشۂ چشم سے آنحضرتﷺ کی طرف تاکتے، آنحضرتﷺ ان کو دیکھتے رہتے، جب نماز سے فارغ ہوکر آپ کی طرف متوجہ ہوتے تو آپ منہ پھیر لیتے تھے۔ ان کے ساتھ یہ برتاؤ ان کے گھر والوں کا بھی تھا، حضرت ابوقتادہؓ عم زاد بھائی تھے ایک مرتبہ ان کے مکان کی دیوار پر چڑھے اور سلام کیا، انہوں نے جواب تک نہ دیا، انہوں نے تین مرتبہ قسم دے کر پوچھا کہ تم یہ جانتے ہو کہ میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کو محبوب رکھتا ہوں، انہوں نے اخیر مرتبہ جواب دیا کہ خدا اور رسول ﷺ کو خبر ہوگی اس جواب سے ان کو سخت مایوسی ہوئی اور دل میں کہا کہ اب میرے ایمان کی بھی کوئی گواہی دینے والا نہیں ،بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور بازار کی طرف نکل گئے وہاں ایک نبطی جو شام کا باشندہ تھا ان کو ڈھونڈھ رہا تھا، مسلمانوں نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ دیکھو وہ آرہے ہیں وہ بادشاہ غسان کا ان کے پاس خط لایا تھا کھول کر پڑھا تو یہ تحریر تھا کہ تمہارے صاحب آنحضرتﷺ نے تم پر بڑی زیادتی کی؛ لیکن خدا نے تم کو کسی ذلیل گھر میں نہیں پیدا کیا ہے تم میرے پاس آجاؤ، مضمون پڑھ کر کہا یہ بھی ایک آزمائش ہے اور خط کو ایک تنور میں ڈالدیا۔ چالیس دن گذر گئے تو آنحضرتﷺ کا آدمی پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ اپنی بیوی سے علیحدہ ہوجاؤ، پوچھا طلاق دیدوں؟ بولا نہیں صرف الگ رہو اپنی بیوی سے جاکر کہا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور جب تک میری نسبت خدا کوئی فیصلہ نہ کردے وہیں رہو، ہلالؓ اور مرارہؓ کو بھی یہی حکم ہوا تھا ،لیکن بلالؓ بہت بوڑھے تھے ان کی بیوی بارگاہِ رسالت میں گئیں، اورخدمت کی اجازت لے آئیں بولے میں نہ جاؤں گا معلوم نہیں آپ کیا فرمائیں۔ پچاسویں دن فجر کی نماز پڑھ کر ایک چھت پر بیٹھے ہوئے تھے اور دل میں کہہ رہے تھے کہ اب تو زندگی سے بیزار ہوں زمین وآسمان سب مجھ پر تنگ ہیں کہ اتنے میں پہاڑ سے آواز آئی کہ اے کعب ! بشارت ہو سمجھ گئے کہ درقبول واہوا، اوراللہ نے توبہ قبول کرلی فوراً سجدہ میں گرے ،خدا وند تعالی کا شکر یہ ادا کیا اور اپنی مغفرت چاہی ،دو آدمیوں نے جس میں ایک گھوڑے پر سوار تھا، آکر خوشخبری سنائی، انہوں نے اپنے کپڑے اتار کر دونوں کو دیدیئے ،مزید کپڑے موجود نہ تھے ،اس لئے مانگ کر پہنے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے۔ راستہ میں لوگ جوق درجوق چلے آرہے تھے،سب نے مبارکباددی، مسجد میں پہنچے تو رسول اللہ ﷺ صحابہ کے درمیان بیٹھے تھے، حضرت طلحہؓ نے دوڑ کر مصافحہ کیا؛ لیکن اور لوگ بیٹھے رہے، آنحضرتﷺ کو سلام کیا ،چہرہ مبارک مسرت سے چاند کی طرح چمک رہا تھا، فرمایا تم کو بشارت ہو، جب سے تم پیدا ہوئے آج سے بہتر کوئی دن نہ گذرا ہوگا، پوچھا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے معاف کیا؟ فرمایا میں نے نہیں خدا نے معاف کیا، جوش مسرت میں عرض کیا کہ اپنا مال صدقہ کرتا ہوں فرمایا کہ کچھ صدقہ کرو، انہوں نے خیبر کا حصہ صدقہ کردیا، اس کے بعد کہا کہ خدانے مجھ کو صرف سچ کی وجہ سے نجات دی،اب یہ عہد کرتا ہوں کہ ہمیشہ سچ بولوں گا۔ سچ بولنے میں حضرت کعبؓ کو جس ابتلا کا سامنا ہوا، اس کی نظیر سے تاریخ اسلام خالی ہے، ایسے بڑے بڑے مصائب پر بھی ان کا قدم جادۂ استقلال سے نہ ہٹا،قرآن مجید کی یہ آیتیں ان کے متعلق نازل ہوئیں: وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔(توبۃ:۱۱۸) اور ان تینوں پر بھی (اللہ نے رحمت کی نظر فرمائی ہے)جن کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا تھا،یہاں تک کہ جب ان پر یہ زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ ہوگئی،ان کی زندگیاں ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہوں نہ سمجھ لیا کہ اللہ(کی پکڑ)سےخود اسی کی پناہ میں آئے بغیر کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی تو پھر اللہ نے ان پر رحم فرمایا تاکہ وہ آئندہ اللہ ہی سے رجوع کیا کریں،یقین جانو اللہ بہت معاف کرنے والا،بڑا مہربان ہے۔ اس آیت میں "خلفوا" کا لفظ ہے جس کے معنی غزوہ سے پیچھے رہنا نہیں ؛بلکہ رسول اللہ ﷺ کا ان کے معاملہ میں امرِالہی کا منتظر رہنا اوران کو چھوڑ رکھنا ہے۔(بخاری:۲/۶۳۶) عہد نبوی کے بعد حضرت عثمانؓ کی شہادت کے روح فرسا واقعہ میں انہوں نے مرثیہ لکھا تھا۔ حضرت علی ؓ اور امیر معاویہؓ کی لڑائیوں میں وہ دونوں سے الگ رہے۔ وفات امیر معاویہؓ کے عہد میں وفات پائی، سنہ میں اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ ۵۰ ھ تھا عمر ۷۷ سال تھی۔ اولاد عبداللہ، عبیداللہ ،عبدالرحمن ،معبد،محمد، قصر۔ کعب کے ارکان خمسہ تھے ان میں سے اول الذکر کو یہ شرف خاصؒ تھا کہ جب ان کے والد نابینا ہوگئے تو یہ ان کے قائد اور راہ نما بنتے تھے۔ (بخاری:۳/۶۳۴) فضل وکمال حدیث کی کتابوں میں ۸۰ روایتیں ہیں اور خود آنحضرتﷺ اوراسید بن ؓ حضیر سے روایت کی ہے ،راویوں میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت جابرؓ ،حضرت ابوامامہ باہلیؓ، امام باقر ؓ ،عمرو بن حکم بن ثوبان،علی بن ابی طلحہ، عمر بن کثیر بن افلح ،عمر بن حکم بن رافع جیسے اکابر شامل ہیں۔ مشہور شاعر تھے،طبیعت اچھی پائی تھی اور اشعار میں جدت تھی،جاہلیت میں شاعری کے انتساب سے مشہور تھے، ایک مرتبہ آنحضرتﷺ سے دریافت کیا کہ شعر کہنا کیسا ہے، فرمایا کچھ مضائقہ نہیں ،مسلمان اس کی وجہ سے تلوار اورزبان دونوں سے جہاد کرتا ہے ،جب یہ شعر کہا: زعمت سخینۃ ان ستغلب ربھا فلیغلبن مغالب الغلاب سخینہ کا گمان ہے کہ اس کا معبود اس کو غالب کریگا بہتر ہے وہ تمام غالب ہو نے والوں کے غالب (خدا) پر غلبہ حاصل کریں تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس سے تم نے خدا کو مشکور بنایا۔ ان کی شاعری کا موضوع کفار کو لڑائی سے ڈرانا اورمسلمانوں کا ان کے قلوب میں سکہ جمانا تھا ،درباررسالت میں تین شاعر تھے اورتینوں کے موضوع جداگانہ تھے، انہی میں سے ایک حضرت کعبؓ بھی تھے، کلام کے اثر کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ صرف دو بیعت کہے اور تمام قبیلۂ دوس مسلمان ہوگیا، وہ شعر یہ تھے: قضینا تھا مۃ کل وتر وخیر ثمہ اغمد نا ایسونا تہامہ اور خیبر سے ہم نے کینہ کو دور کرکے تلواریں نیام میں کرلیں یخرھا ولو نطقت لقالت قواطعھن دوسااوثقیفا اب ہم پھر ان کو اٹھاتے ہیں اوراگر بول سکیں توکہیں کہ اب دوس یا ثقیف کا نمبر ہے دوسیوں نے سنا تو کہا کہ مسلمان ہوجانا بہتر ہے،ورنہ ثقیف کی طرح ہمارا بھی حشر ہوگا۔ اخلاق صدق وراستی ان کا خاص وصف تھا اور اس کو انہوں نے جس طرح بنایا اس سے زیادہ ہونا ناممکن ہے دعا قبول ہونے کے بعد کبھی جھوٹ نہ بولے، خود فرماتے ہیں: واللہ ما تعمدت کذبۃ منذ قلت ذالک لرسول ﷺ الی یومی ھذا وانی لا رجوان یحفظنی اللہ فیما بقیٰ (مسلم:۲/۴۵۴) غزوہ تبوک سے پیشتر کی زندگی نہایت پاک اورصاف گذری تھی،چنانچہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو بنو سلمہ نے برجستہ کہا: واللہ ما علمناک کنت اذنبت ذبنا قیل ھذا! (بخاری:۲/۶۳۵) یعنی خدا کی قسم تم نے اس سے پہلے تو کوئی گناہ نہ کیا تھا۔