انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عثمانؓ کا فرمان ایک ایک حکم ہر عامل کے پاس بھی پہنچ گیا کہ ضرور شریک حج ہونا چاہئے؛چنانچہ عبداللہ بن سعدؓ والئ مصر معاویہ ؓ بن ابی سفیان والئی شام،عبداللہ بن عامر وغیرہ تمام عمال مکہ معظمہ میں حج کے موقع پر جمع ہوگئے ،عبداللہ بن سبا کی تجویز کے موافق لوگ ہر ایک صوبے اور ہر ایک مرکز سے روانہ ہوئے اوربجائے اس کے کہ مکہ معظمہ میں آتے مدینہ منورہ میں آکر جمع ہوگئے،حج کے ایام میں حضرت عثمان غنیؓ نے اعلان کرایا کہ تمام عامل موجود ہیں جس کا جی چاہے اپنی شکایت پیش کرے، مگر کوئی شخص کسی عامل کی شکایت لے کر نہ آیا خلیفہ وقت کی مجلس میں جو شخص موجود تھے وہ ا س فساد اورفتنے کے مٹانے کی نسبت باہم مشورہ کرنے لگے اوراس طرح اُن کی باتوں نے طول کھینچا ،حضرت عثمان غنی ؓ نے سب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ فتنہ تو ضرور برپا ہونے والاہے اوراس کا دروازہ عنقریب کھل جائے گا میں یہ نہیں چاہتا کہ فتنہ کے اس دروازے کو کھولنے کا انتظام مجھ پر عائد ہو، خدائے تعالیٰ خوب آگاہ ہے کہ میں نے لوگوں کے ساتھ سوائے بہتری اور بھلائی کے اورکچھ نہیں کیا اس کے بعد سب خاموش ہوگئے اور حج سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ میں آئے،یہاں آکر حضرت عثمان غنیؓ نے ان لوگوں کو جو باہر سے آئے ہوئے تھے ایک جلسہ میں طلب کیا اوراسی جلسہ میں حضرت علیؓ ،حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیر کو بھی بلوایا، حضرت امیر معاویہؓ بھی مکہ سے حضرت عثمان غنیؓ کے ساتھ آئے تھے اوروہ بھی اس وقت موجود تھے،اس مجلس میں سب سے پہلے حضرت امیر معاویہؓ نے کھڑے ہوکر حمد و ثنا کے بعد کہا کہ: آپ سب حضرات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اورصاحب حل و عقد ہیں، اس امت کے سرپرست ہیں،آپ حضرات نے اپنے دوست یعنی حضرت عثمان غنیؓ کو بلا رورعایت خلیفہ منتخب کیا، اب وہ بوڑھے ہوگئے ہیں،اُن کی نسبت قسم قسم کی باتیں لوگوں کی زبان پر جاری ہیں آپ لوگوں نے اس معاملہ میں اگر کوئی فیصلہ کیا ہے تو اس کو ظاہر کیجئے میں جواب دینے کے لئے تیار ہوں،ہاں یہ بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر کسی کو خلافت وامارت کی طمع ہو تو یاد رکھو کہ تم لوگ سوائے پیٹھ پھیر کر بھاگنے کے اورکچھ حاصل نہ کرسکو گے۔ اس تقریر کے آخری فقرے کو سن کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت امیر معاویہؓ کو جھڑک دیا وہ بیٹھ گئے اورحضرت عثمانؓ کھڑے ہوئے،انہوں نے فرمایا کہ: اس میں شک نہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اورحضرت عمر فاروقؓ نے خلیفہ ہوکر احتیاط اوراحتساب کی وجہ سے اپنے عزیز واقارب کی مطلق بات نہ پوچھی،حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رشتہ داروں کا لحاظ فرماتے اوراُن کو مدد دیتے تھے،میرے عزیز واقارب غریب لوگ ہیں،میں اُن کے ساتھ سلوک کرتا ہوں،اگر تم اس کو ناجائز ثابت کردو تو میں اس طز عمل سے دست کش ہونے کو تیار ہوں۔