انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** رومی سلطنت عثمان خان کے بعد اس کا بیٹا ارخان تخت نشین ہوا، جو دوسرا عثمانی سلطان ہے،ارخان کا تذکرہ لکھنے سے پیشتر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رومی سلطنت کا مجمل تذکرہ کردیا جائے،تاکہ ان حالات اورفتوحات کے سمجھنے میں آسانی ہو جوارخان کے عہد حکومت میں وقوع پذیر ہوئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پونے چھ سو سال پیشتر ملک اطالیہ کے اندر سلویانامی ایک کنواری لڑکی کے پیٹ سے دو تُوام لڑکے پیدا ہوئے،ایک کا نام رومولس اوردوسرے کا نام ریموس رکھا گیا،کہاجاتا ہے کہ یہ دونوں بچے مریخ دیوتا کے نطفے سے پیدا ہوئے تھے،سلویانامی کنواری لڑکی،ویسٹادیوی کے مندر کی پچارن تھی،جہاں مریخ دیوتا نے آکر اس کو حاملہ کیا تھا،رومولس اورریموس کو پیدا ہونے کے بعد کسی کشت یا ٹوکری میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا گیا تھا پانی کی موجوں نے ان کو جنگل یا پہاڑ کے دامن میں ساحل پر ڈال دیا وہاں ایک مادہ گرگ نے آکر ان کو دودھ پلایا،اوران کی حفاظت کرنے لگی اس طرح بھیڑئیے کا دودھ پی پی کر ان دونوں بچوں نے پرورش پائی،اتفاقاً بادشاہ کا ایک گذریا اس طرف آنکلا اوراس نے دونوں بچوں کو دیکھ کر اٹھا لیا اوراپنے بادشاہ کے سامنے لایا، بادشاہ بیگم نے ان کو محبت کے ساتھ لے کر پرورش کیا، بڑے ہوکر ان دونوں بھائیوں نے ایک شہر کی بنیاد رکھی یہ شہر روم یا روما کے نام سے موسوم ہوا، اوران کی اولاد میں ایک ایسی عظیم الشان سلطنت قائم ہوئی جو دنیا کی عظیم ومہیب سلطنتوں میں شمار ہوتی ہے،شہر روما آج کل بھی ملک اٹلی کا دارالسلطنت ہے مگر رومولس اورریموس کی قائم کی ہوئی رومن سلطنت کا اب نام ونشان باقی نہیں رہا۔ یہ سلطنت جب اپنے انتہائی عروج کو پہنچ گئی تو اس کے دو ٹکڑے ہوگئے،ایک کو مشرقی روم اور دوسری کو مغربی روم کہتے ہیں،مغربی روم کا دارالسلطنت تو شہر روماہی رہا اورمشرقی روم کا دارالسلطنت قسطنطنیہ قرار پایا،مغربی روم پر شمالی ،یورپ اورروس کی وحشی قوموں نے بار بار حملے کرکے اس کو بے حد کمزور وناتوان بنادیا اوربالآخر مغربی روم کی سلطنت محدود ہوکر دو حصوں میں منقسم ہوگئی ،جینو اوروینس میں الگ الگ سلطنتیں قائم ہوئیں اورپھر وہ بھی مختلف صورتوں میں تبدیل ہوکر معدوم ہوئیں اور ان کی جگہ نئی حکومتیں قائم ہوگئیں،مگر مشرقی روم پر شمالی حملہ آوروں کی آفتیں بہت ہی کم نازل ہوئیں اوراس کو یورپی وحشیوں کے ہاتھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا،ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ قسطنطنیہ کے بادشاہ کا شہر روما پر بھی عمل دخل ہوگیا تھا عرب اور ایران والے مغربی روم سے تو ناواقف تھے جس کے نام پر سلطنتِ روم موسوم تھی وہ مشرقی یورپ یعنی قسطنطنیہ کے فرماں رواؤں نے عیسائی مذہب قبول کرکے اس کی اشاعت شروع کی تو یورپ کی وہ تمام قوتیں جو عیسائی مذہب قبول کرتی تھیں قسطنطنیہ کے بادشاہ کو عزت وعظمت کی نظر سے دیکھتی تھیں یہاں تک کہ قریباً تمام یورپ عیسائی مذہب میں داخل ہوگیا اوراسی لیے قیصر روم کو یورپ میں خصوصی وقار حاصل ہوا، جب قسطنطنیہ کا دربار عیسائی ہوگیا اوراس کے مقبوضہ علاقے میں عیسوی مذہب پھیل گیا تو عرب اورایران کے لوگ ہر ایک عیسائی کو رومی کے نام سے یاد کرنے لگے،قسطنطنیہ کے قیصر کی سلطنت چونکہ یونان کی شہشناہی کھنڈروں پر تعمیر ہوئی تھی اورقیصر روم سکندر یونانی کے مقبوضہ ممالک کا مالک تھا لہذا قسطنطنیہ کی سلطنت کو یونانی سلطنت بھی کہا جاتا ہے،اسی لیے مورخین نے رومی اوریونانی دونوں الفاظ مترادف اور ہم معنی سمجھ کر استعمال کیے ہیں،قیصر قسطنطنیہ کی سلطنت کی سلطنت میں چونکہ ایشیائے کوچک اورشام کا ملک بھی شامل تھا، اس لیے اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایشائے کوچک کو روم کا ملک کہاجاتا تھا، ملکِ شام سے تو عیسائی حکومت بہت جلد اٹھادی گئی تھی مگر ایشائے کوچک کو روم کا ملک کہاجاتا تھا،ملکِ شام سے تو عیسائی حکومت بہت جلد اٹھادی گئی تھی مگر ایشیا ئے کوچک کو روم کا ملک کہا جاتا تھا،ملکِ شام سے تو عیسائی حکومت بہت جلد اٹھادی گئی تھی مگر ایشائے کوچک کو روم کا ملک کہا جاتا تھا،ملکِ شام سے تو عیسائی حکومت بہت جلد اٹھادی گئی تھی مگر ایشیائے کوچک میں قیصرِ روم کی حکومت عہد اسلامیہ میں بھی عرصہ دراز تک قائم رہی،اس لیے ایشیائے کوچک کو عام طور پر ملک روم کہا جانے لگاجب سلجوقیوں کی ایک سلطنت ایشیائے کوچک کے ایک حصہ میں قائم ہوئی تو اس کو ملکِ روم کی سلجوقی سلطنت کہا گیا اوراس سلطنت کے سلاطین سلاجقہ روم کے نام سے پکارے گئے،ان سلاجقۂ روم کے بعد عثمان خان اول نے اپنی سلطنت ایشیائے کوچک میں قائم کی اورقریباً تمام ایشیائے کوچک پر قابض ہوگیا تو وہ بھی سلطانِ روم کہلایاپھر اس کے بعد آج تک عثمانی سلاطین روم ہی کہلائے جاتے تھے۔ قسطنطنیہ کے قیصر نے جب عیسوی مذہب قبول کیا تو اس عیسوی سلطنت اورایران کی مجوسی سلطنت میں بار بار لڑائیاں ہوئیں،ان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ملکِ عرب میں اسلامی سلطنت نے قائم ہوکر مجوسیوں اورعیسائیوں دونوں کو مبہوت کردیا، مجوسی سلطنت توپاش پاش ہوکر معدوم ہوگئی، لیکن قسطنطنیہ کی عیسائی سلطنت عرصۂ دراز تک قائم رہی، ہم جس زمانے کی تاریخ بیان کررہے ہیں،اُس زمانے میں بھی یہ عیسائی سلطنت موجود ہے، خلفائے راشدین کے عہد سعادت مہدی میں شام وفلسطین ومصر سے قیصر روم کی عیسائی حکومت بالکل مٹادی گئی تھی،اس کے بعد خلفائے بنو امیہ اورخلفائے بنو عباس کے زمانے میں قیصر روم کے ساتھ برابر لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا ،جس کا مختصر طورپر خلفاء کے حالات میں کہیں کہیں ذکر آتا رہا ہے ،ایشیائے کوچک کا ایک ملک قریباً سات سو سال سے برابر مسلمانوں اور عیسائیوں کا میدان جنگ بنا ہوا تھا،کسی زمانے میں مسلمان عیسائیوں کو دھیلکتے ہوئے درۂ دانیال اوربحیرہ مار موار تک لیجاتے تھے اورکبھی عیسائی مسلمانوں کو ریلتے ہوئے ایران وکردستان تک چلے آتے تھے،عیسائیوں کی اس سلطنت کو قدرتی طور پر مسلمانوں کے مقابلے میں دیر تک زندہ رہنے کا اس لئے موقع مل گیا کہ آپس کی نا اتفاقیوں اورخانہ جنگیوں سے مسلمانوں کو ایسا موقع میسر ہی نہ آیا کہ وہ اس عیسائی رومی سلطنت کا قصہ پاک کرتے۔ اس رہے ہوئے کام کو ترکانِ عثمانی پورا کیا اوراسی لئے وہ عالمِ اسلام کے محبوب ومقتدا سمجھے گئے، ہم جس زمانے کا ذکر کر رہے ہیں یہ وہ زمانہ ہے کہ یورپ کے صلیبی سیلاب شام وفلسطین کے میدانوں میں بار بار موجزن ہوچکے ہیں،عیسائیوں کے مجاہدین مسلمانوں کے مقابلے میں شکست پاپا کر اورمسلمانوں کی علمی واخلاقی ترقیات سے متاشر ہوہو کر یورپ میں واپس جاکر اوریورپ کے تمام ملکوں میں پھیل کر عیسائی ممالک کا بیدار اور ترقی کی طرف مائل و متوجہ کرچکے ہیں،اس زمانہ کی نسبت عیسائیوں کا یہ کہنا کہ رومی سلطنت بہت ہی غافل اورکمزور تھی،سراسر غلط ہے،عیسائیوں میں مسلمانوں کی مخالفت کے لئے اتفاق اورجوش بدرجۂ اتم پیدا ہوچکا تھا،قسطنطنیہ کا دربار سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا،قسطنطنیہ کی سلطنت کی نسبتاً سب سے زیادہ طاقتور اور فنون جنگ سے واقف اورمقابلہ کی اہلیت رکھتی تھی، اس سے پہلے زمانے میں یورپ کی دوسری سلطنتیں قسطنطنیہ کی سلطنت سے رقابت بھی رکھتی تھیں،لیکن صلیبی لڑائیوں کے بعد تمام یورپ کی ہمدردکی قسطنطنیہ کے قیصر سے متعلق تھی،قیصر قسطنطنیہ کے تعلقات صرف یورپ کے سلاطین تک محدود نہ تھے؛بلکہ وہ مسلمانوں کے ہر ایک دشمن کو اپنا دوست سمجھ کر اس سے محبت ومودّت کے تعلقات رکھتا تھا،چنگیز خاں اوراس کی اولاد کو فاتح اورنامسلمان دیکھ کر قیصر قسطنطنیہ کے فرماں روا کو اس میں بھی تامل نہ تھا کہ وہ اپنے مدّمقابل اورحریف کو اپنی بیٹی دیکر اپنا موافق بنانے کی کوشش کرے اوراس کے خطرے سے محفوظ ہوجائے اوراپنا کام نکال لے،مسلمانوں کی جمعیت میں پھوٹ ڈال کر ان کو کمزور وبرباد کردینے کی حکمتِ عملی کچھ ہمارے موجودہ زمانے کے عیسائیوں کے ساتھ مخصوص نہیں ؛بلکہ اس حکمتِ عملی پر قسطنطنیہ نے بارہا عمل کیا ہے اوروہ ہر زمانے میں نہایت چوکس اورمستعد نظر آیا ہے، اگر مسلمان آپس کی خانہ جنگی کو چھوڑدیں اور متفق ومتحد ہوکر دشمنانِ اسلام کے مقابلے پر مستعد ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کے مقابلے پر قائم نہیں رہ سکتی اوراس کولازماً مغلوب ومحکوم ہی ہونا پڑے گا،عثمان خان اوراس کی اولاد نے اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا تھا، اسی لئے انہوں نے خانہ جنگی اوراپنے مسلمان رقیبوں کے مقابلے سے اپنا پہلو ہمیشہ بچایا اوراپنے آپ کو حتی المقدور عیسائیوں کے مقابلے کے لئے مستعد رکھا؛چنانچہ وہ اس عظیم الشان کا م کو انجام دے سکے جو ان کے متقدمین سے انجام پذیر نہ ہوسکا، اب ہم کو عثمان خاں کے بیٹے ارخان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔