انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** آنحضرت ﷺسے پہلے کا علم الآثار پیغمبرانہ تاریخ میں علم الکتاب اور علم الآثار ہمیشہ سے علم کےدو ماخذ رہے ہیں، قرآن کریم میں بھی ان دونوں کا ذکر واضح طور پرموجود ہے حضورﷺ کی بعثت سے پہلے جو ملتیں دنیا میں موجو تھیں وہ کسی نہ کسی گزشتہ پیغمبر سے انتساب رکھتی تھیں؛ مگر الحاد کا زہر اورتاویل کا فتنہ ان میں بہت تیزی سے سرایت کرچکا تھا، حضورﷺ نے جب اپنی دعوت پیش کی او رانہیں حقیقی اسلام کی طرف بلایا توانہوں نے اپنے موقف پر اصرار کیا اور اس کوچھوڑنےکے لیے کچھ بھی تیار نہ ہوئے، آنحضرتﷺ نے اس سے ان کے اس موقف کی سند پوچھی اور اس میں ان دونوں علمی ماخذ کا ذکر فرمایا کہ علم الکتاب اور علم الآثار میں کوئی سند بھی تمہارے پاس ہو تو اپنے عقائد واعمال کے ثبوت میں اسے پیش کرو : "اِیْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ"۔ (الاحقاف:۴) ترجمہ:میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پرہو؛ اگر تم واقعی سچے ہو۔ اس روایت عن الانبیاء کو ہی سلسلہ حدیث کہتے ہیں، اسے ہی اسناد الحدیث سے تعبیر کرتے ہیں، حضرت مطر الوراق (۱۲۵ھ) کہتے ہیں: اللہ تعالی کے اس ارشاد"أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ" سے مراد اسنادلحدیث ہے۔ (فتح المغیث، اقسام العالی من السند والنازل:۳/۴) معلوم ہوا کے پہلے انبیاء کی تعلیمات میں بھی آسمانی کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کی احادیث چلتی تھیں،یہ علیحدہ بات ہے کہ نہ ان کی آسمانی کتابیں محفوظ رہیں،نہ ان کی احادیث کا سلسلہ متصل رہا؛لیکن اس بات کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ ان کے دائرہ ٔاثر میں ان کی حدیث بھی پہنچتی تھی،ان میں سے بعض کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بھی نقل فرمایا، اللہ تعالی نے حضورﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: "هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى" (النازعات:۱۵) ترجمہ:کیا پہنچی ہے آپ تک موسی علیہ السلام کی حدیث۔