انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگ البسیرہ اس عظیم الشان لشکر اورایسی حیرت انگیز تیاریوں کا حال سُن کر غرناطہ کے مسلمانوں کو بری پریشانی ہوئی، ابو الولید نے مراقش کے بادشاہ ابو سعید کے پاس پیغام بھیجا کہ یہ وقت مدد کا ہے،مگر سلطان مراقش نے کسی قسم کی مدد دینے سے انکار کردیا یا یہ کہ وہ کوئی مدد نہ دے سکا، بہرحال جب اس طرف سے بھی مایوسی ہوئی تو غرناطہ کے مسلمانوں کی عجیب حالت ہوئی،ان کی نگاہوں کے سامنے ہلاکت یقینی تھی،اورکامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی،ابوالولید،سلطان غرناطہ زیادہ سے زیادہ جس قدر فوج جمع کرسکا اُس کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار تھی،یعنی چار ہزار پیادے اورڈیڑھ ہزار سوار، عیسائیوں کے کئی لاکھ لشکر جرار کے مقابلہ میں اس قلیل تعداد کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی،مگر خدا پر بھروسہ کرکے اس مٹھی بھر فوج کو لے کر سلطان غرناطہ ۲۰ ربیع الثانی ۷۱۹ ھ کو غرناطہ سے روانہ ہوا، سلطان نے اپنے ایک سردار شیخ الغزوۃ نامی کو پانچ سو آدمیوں کا ایک دستہ دے کر بطور ہراول آگے بھیجا، اورپانچ ہزار فوج لے کر اس کے پیچھے خود روانہ ہوا، راستے بھر امراء لشکر سے مشورے ہوتے رہے کہ ہم کس طرح عیسائیوں پر فتح پاسکتے ہیں، آخر مسلمانوں کے ہر اول کا عیسائیوں کے ہر اول سے مقابلہ ہوا اورعیسائی ہر اول شکست کھا کر پیچھے ہٹ گیا اس کے بعد سلطان ابو الولید نے مقام البیرہ کے متصل ایک جھاڑی میں اپنے ایک سردار ابو الجیوش نامی کو ایک ہزار سواروں کے ساتھ چھپادیا، شیخ الغزاۃ کو پانچ سو سپاہیوں کے ساتھ آگے بھیجا اور حکم دیا کہ تم عیسائیوں کے سامنے پہنچ کر پیچھے ہٹنا اوراپنے تعاقب میں اُن کو لگائے لانا، ابوالجیوش کو یہ ہدایت تھی کہ جب عیسائی تمہارے برابر سے گذر جائیں تو تم جھاڑیوں سے نکل کر اُن پر عقب سے حملہ آور ہونا،صرف تین سو سوار لے کر سلطان ابو الولید ایک مناسب مقام پر ٹھہر گیا اور باقی فوج کو ایک اور سردار کو دے کر مناسب ہدایت کے ساتھ آہستہ بڑھنے کا حکم دیا، شیخ الغزاۃ ۶ جمادی الاول ۷۱۹ھ کو علی الصباح عیسائی لشکر کے سامنے پہنچا، عیسائیوں نے اس قلیل جماعت کو دیکھ کر فوراً حملہ کیا،شیخ الغزاۃ نے حسبِ ہدایت پیچھے ہٹنا شروع کیا اور عیسائی لشکر کا سمندر کمزور مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے شوق میں نہایت جوش وخروش کے ساتھ متحرک ہوا،شیخ الغزاۃ پیچھے ہٹتا جاتا تھا اورعیسائی لشکر جوش مسرت میں بڑھا چلا آتا تھا،جب ابو الجیوش کے سامنے سے یہ لشکر گذرا تو وہ اپنے ایک ہزار ہمراہیوں کو لے کر شیرنیستان کی طرح جھاڑی سے نکل کر عیسائیوں پر ٹوٹ پڑا،ابوالجیوش کے حملہ آور ہوتے ہی شیخ الغزاۃ بھی رک کر حملہ آور ہوا، اس کے ساتھ ہی سلطان ابو الولید بھی تیسری سمت سے اپنے تین سو سواروں کو لے کر حملہ آور ہوا،اس کے ساتھ ہی بقیہ فوج نے بھی بڑی بے جگری کے ساتھ حملہ کیا،بظاہر یہ حملہ اور ستم اُس کئی لاکھ کے لشکرِ عظیم کے سامنے کوئی حقیقت ہی نہ رکھتے تھے،مگر مسلمانوں نے اپنی جان پر کھیل کر اور زندگیوں سے مایوس ہوکر شوقِ شہادت میں اس شدت سے حملے کئے تھے کہ عیسائی میدانِ جنگ میں کھیت رہے اور باقی اپنی جان بچا کر لے گئے،غالباً یہ لڑائی جو جنگ البسیرہ کے نام سے مشہور ہے،اپنی نوعیت میں بے نظیر جنگ ہے،سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ اس لڑائی میں صرف تیرہ مسلمان شہید ہوئے تھے،ایک طرف تیرہ اوردوسری طرف ایک لاکھ آدمیوں کاہلاک ہونا عجائبات میں سے ہے،میدانِ جنگ میں سپہ سالارِ اعظم بطردوور پچیس معاونین کی لاشیں بھی موجود تھیں،سات ہزار قیدیوں میں بطروہ کی بیوی اوربیٹے بھی شریک تھے،بطروہ کی لاش ایک صندوق میں رکھ کر شہر غرناطہ کے دروازے پر لٹکادی گئی تھی، اس شکست فاش سے عیسائیوں کی کمر ٹوٹ گئی اوران کو معلوم ہوا کہ غرناطہ کی ریاست کا اندلس سے نام ونشان مٹانا کوئی آسان کام نہیں ہے،سلطان ابو الولید نے اس فتح پر خدائے تعالیٰ کا لشکر ادا کیا اورعیسائیوں کی درخواست پر ان سے صلح کرکے اپنی سلطنت کے اندرونی انتظام واستحکام میں مصروف ہوگیا، اورجب ۷۲۵ھ کو سلطان ابو الولید نے قلعہ مرطاش فتح کیا،اس کے بعد جب سلطان غرناطہ میں واپس آیاتو ۲۷رجب ۷۲۵ھ کو اس کے بھتیجے نے اُس کو دھوکے سے قتل کردیا،اراکینِ سلطنت نے قصاص میں قاتل کو قتل کیا اورسلطان کے بیٹے محمد کو تخت نشین کیا۔