انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافت علوی پر ایک نظر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اُن عالی جاہ و بلند پایہ بزرگوں کے خاتم تھے جن کے بعد کوئی شخص باقی نہ رہا جس کی عزت وعظمت تمام عالم اسلامی میں مسلم ہو اوروہ جرأت وہمت کے ساتھ نہی عن المنکر اورامر بالمعروف کرسکے،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کا حال سُنا تو فرمایا: اب عرب لوگ جو چاہے سو کریں ؛کیونکہ علیؓ کے بعد ایسا کوئی باقی نہ رہا کہ اُن کو کسی برے کام سے منع کرے گا،یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ حضرت علیؓ کے بعد صحابہ کرامؓ نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام ترک کردیا تھا؛بلکہ صحابہ کرامؓ ایک ناصح اور واعظ کی حیثیت سے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے اورحضرت علیؓ ان لوگوں میں شامل تھے جو لوگوں کو نبیوں اورپیغمبروں کی طرح حکم دیتے تھے،حضرت امیر معاویہؓ بھی باوجود اس کے کہ حضرت علیؓ سے مخالفت رکھتے تھے،مذہبی مسائل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فتویٰ حاصل کیا کرتے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پالیسی اورچالاکی سے قطعاً پاک اور مبرا تھے،اُن کے نزدیک حق اور سچ کو تسلیم کرنا سب سے زیادہ ضروری تھا،وہ ابتداءً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو سب سے زیادہ حق دارِ خلافت سمجھتے تھے،لہذا انہوں نے نہایت صفائی کے ساتھ اس کا اظہار کردیا اورچند روز تک حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، پھر انہیں ایام میں جب ابو سفیان نے اُن کو حضرت ابوبکرصدیقؓ کے خلاف خروج پر آمادہ کرنا چاہا توانہوں نے ابو سفیان کو نہایت حقارت کے ساتھ جھڑک دیا، کیونکہ وہ اس فعل کو بُرا جانتے تھے جب ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ خلافت کے معاملہ میں کسی رشتہ داری کو کوئی داخل نہیں ہے؛بلکہ اس کے لئے اور ضروری باتیں قابل لحاظ ہیں اور حضرت ابوبکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے مستحق تھے تو وہ خود بخود آکر صدیق اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے اوربیعت ہونے کے بعد وہی سب سے زیادہ صدیق اکبرؓ کے معین و مدد گار اور دل سے فرماں بردار تھے،فاروق اعظم امور میں عموماً انہیں کی رائے کو قابلِ عمل جانتے تھے،حضرت عثمان غنیؓ کو بھی انہوں نے ہمیشہ سچے اوراچھے مشورے دیئے اوراس بات کی مطلق پرواہ نہ کی کہ حضرت عثمانؓ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہیں یا دوسرے کی بات مانتے ہیں،انہوں نے حضرت عثمان غنیؓ کے بعض کاموں کو قابلِ اعتراض پایا تو بلا تامل اُن پر اعتراض بھی کیا،لوگوں نے حضرت عثمان غنیؓ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو جہاں تک اُن کے نزدیک یہ احتجاج جائز تھا وہاں تک انہوں نے اس کو اطمینان کی نظر سے دیکھا اورجس قدر حصہ انہوں نے جائز سمجھا اسی قدر اس کی مخالفت کی اور روکنا چاہا،مدینہ منورہ میں جب بلوائیوں کا زورشوردیکھا اور ناشدنی علامات ظاہر ہوئے تو انہوں نے چالاکی اور چال بازی کے ساتھ اپنی پوزیشن صاف دکھانے کے لئے کوئی تدبیر نہیں کی ؛بلکہ صرف اپنی پاک طینتی اور صاف باطنی پر مطئن رہے،شہادتِ عثمانی کے بعد جب لوگوں نے اُن کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہی توچونکہ وہ اب اپنے آپ کو حضرت عثمان غنی کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت اُن کو توقع تھی کہ مجھ کو خلیفہ منتخب کیا جائے گا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ حضرت عمر فاروقؓ کے بعد وہ اگر خلیفہ منتخب ہوتے تو عالمِ اسلامی کو اُن پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا جو بعد میں پیش آئیں ،لیکن صحابہ کرامؓ کی اس احتیاط نے کہ خلافتِ اسلامی میں کسی رشتہ داری کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے،حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ کی قابلیت کو حضرت عثمان غنیؓ کے مقابلہ میں مؤخر کردیا تو حضرت علیؓ نے اپنے اقرار پر ثابت قدم رہنا ضروری سمجھا اوربلا اظہارِ مخالفت بیعتِ عثمانی میں داخل ہوگئے غرض حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے تمام کاموں سے آفتاب نصف النہار کی طرح یہ امر ثابت ہے کہ وہ جس بات کو حق اورسچ جانتے تھے اس کے حق اور سچ کہنے میں کسی مصلحت اورپالیسی کی وجہ سے تامل کرنا ہرگز ضروری نہ سمجھتے تھے،اُن کا چہرہ اُن کے قلب کی تصویر اوراُن کا ظاہر اُن کے باطن کا آئینہ تھا،وہ ایک شمشیر برہنہ تھے اور حق کو حق کہنے میں کبھی نہ چوکتے تھے،اگر اُن کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو وہ اپنے آپ کو قتلِ عثمانؓ کے وقت بہت کچھ بچا کر رکھتا اوربیعتِ خلاف کے وقت بڑی بڑی احتیاطیں عمل میں لاتا،اسی طرح بیعتِ خلافت کے بعد عام افواہوں کے اثر کو زائل کرنے اور بنو امیہ کی مخالفانہ کوششوں کو ناکام رکھنے کی غرض محمد بن ابی بکرؓ اور مالک آشتروغیرہ چند بلوائی سرداروں کا قصاص عثمانی میں قتل کرادینا اور زیر سیاست لانا زیادہ کچھ مشکل نہ تھا،کیونکہ عام عالم اسلامی اس معاملہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تائید کے لئے مستعد تھا،لیکن ان کو ایسی پختہ شہادتیں نہ مل سکیں جن کی بنا پر وہ اُن لوگوں کو شرعاً زیر قصاص لاسکتے،لہذا انہوں نے تامل فرمایا اوراس تامل سے جو فتنے پیدا ہوئے ان سب کا مقابلہ کیا مگر اپنے نزدیک جس کام کو نا کردنی سمجھا تھا،اس کو ہرگز نہ کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جن لوگوں سے واسطہ پڑا اُن میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل تھے جو چالا کیوں،مصلحت اندیشیوں اورچال بازیوں سے کام لینا جانتے تھے،وہ خالص اسلامی کرہ ہوائی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے پیدا ہوکر فاروق اعظمؓ کے آخر عہد تک قائم تھا،دنیا طلبی،جاہ طلبی، نسلی وخاندانی تفوق وامتیاز اورایران ومصر وغیرہ کے کثیر التعداد نو مسلموں کے اسلامی برادری کے شامل ہوجانے کے سبب کسی قدر غبار آلود ہونے لگا تھا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ فاروق اعظمؓ کے بعد خلیفہ ہوتے تو عہد فاروقی کی حالت کو باقی اور قائم رکھنے کی قابلیت رکھتے تھے،لیکن حضرت عثمان غنی ؓ کی خلافت کے بعد وہ عہد فاروقی کی حالت کو واپس لانے میں ناکام رہے،اُن کے زمانے میں صحابۂ کرام کی جماعت بہت مختصر رہ گئی تھی،بڑے بڑے صاحبِ اثر اورجلیل القدر صحابہ فوت ہوچکے تھے،جو تھوڑی سی تعداد باقی تھی وہ سب منتشر تھی ،کوئی کوفہ میں تھا کوئی بصرہ میں کوئی دمشق میں تھا ،کوئی مصر میں کوئی یمن میں تھا،کوئی فلسطین میں کوئی مکہ میں تھا، کوئی مدینہ میں ، فاروق اعظمؓ کے زمانے تک صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد مدینہ منورہ میں موجود تھی اوربہت ہی کم لوگ باہر دوسرے شہروں میں ضرور تاً جاتے اورمدینے میں واپس آتے رہتے تھے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مدینہ کی سکونت ترک کرکے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اورسو اتفاق سے وہ فائدہ جو کوفہ کو دارالخلافہ بنانے میں انہوں نے سوچا تھا حاصل نہ ہوا، ساتھ ہی اُس فائدہ سے جو مدینہ کے دارالخلافہ ہونے میں مضمر تھا وہ محروم ہوگئے ،عالم اسلام میں ملکِ حجاز کو جو اہمیت حاصل تھی کوفہ کے دارالخلافہ ہونے سے حجاز کی حیثیت اوراہمیت کم ہوگئی جس کے سبب وہ امداد جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ملکِ حجاز سے حاصل ہوتی حاصل نہ ہوسکی۔ منافقوں اورخفیہ سازشیں کرنے والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی مسلمانوں کو کئی مرتبہ پریشانیوں میں مبتلا کیا لیکن وہ اپنے پلید و ناستودہ مقاصد میں ناکام و نامراد ہی رہے،عہد صدیقی اورعہدِ فاروقی میں یہ شریر لوگ کوئی قابلِ تذکرہ حرکت نہ کرسکے، عہدِ عثمانی میں اُن کو پھر شر انگیزی کے مواقع میسر آگئے اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تمام عہدِ خلافت اُنہیں شریروں کی شرارتوں کے پیدا کئے ہوئے ہنگاموں میں گذرا، اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اور بھی مواقع ملتے اوراُن کی شہادت کا واقعہ اس قدر جلد عمل میں نہ آتا تو یقیناً وہ چند روز کے بعد تمام مفسدوں کی مفسدہ پردازیوں پر غالب آکر عالمِ اسلامی کو ان اندرونی ہنگامہ آرائیوں سے پاک و صاف کردیتے کیونکہ اُن کے عزم وہمت اور استقلال وشجاعت میں کبھی کوئی فرق نہیں پایا گیا وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے اور ان پر غالب آنے کے لئے ہمیشہ مستعد پائے جاتے تھے کسی وقت بھی ان کے قلب پر پوری مایوسی اور پست ہمتی طاری نہ ہوسکتی تھی اور یہ وہ بات تھی جس کی توقع کسی دوسرے شخص سے ایسے حالات میں ہرگز نہیں ہوسکتی تھی وہ لوگوں کی دھوکہ بازیوں چالاکیوں اورپست ہمتیوں کے متعلق بھی اب تجربہ حاصل کرچکے تھے،لیکن مشیتِ ایزدی اورحکمِ الہی یہی تھا کہ وہ جلد شہادت پائیں اور بنو امیہ کے لئے میدان خالی چھوڑ جائیں۔ بنو امیہ کا قبیلہ اپنے آپ کو ملکِ عرب کا سردار اوربنو ہاشم کو اپنا رقیب سمجھتا تھا،اسلام نے اُن کے مفاخر کو مٹایا اور بھلادیا تھا،حضرت عثمان غنیؓ کے عہدِ خلافت نے اُن کو پھر چونکا دیا ،وہ اپنی کھوئی ہوئی سیادت کو واپس لانے کے لئے تدابیر سوچنے میں مصروف ہوگئے اور منافقوں کی سازشوں نے اُن کی تدابیر کو عملی جامہ پہنانے اورکامیاب بنانے میں امداد پہنچائی ،عثمان غنی کے عہدِ خلافت میں جو ناگوار اورناشدنی حالات پیدا ہوچکے تھے ان حالات کو رُوباصلاح کرنے اورپہلی حالت دوبارہ قائم کرنے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو زیادہ پریشانی اُٹھانی پڑی اورزیادہ وقت یعنی اپنا تمام عہدِ خلافت صرف کرنے پر بھی وہ مشکلات پر غالب نہ ہونے پائے تھے کہ شہید ہوئے ،لیکن اگر حضرت عثمان غنیؓ کے بعد یہ ممکن ہوتا کہ فاروق اعظمؓ دوبارہ تختِ خلافت پر متمکن ہوسکتے اوروہ پھر زمام خلافت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے تو یقیناً وہ چند ہفتوں میں وہی پہلی حالت قائم کرلیتے،مگر یہ سب ہماری خیالی باتیں ہیں،مصلحتِ الہیٰ اورمشیتِ ایزدی نے اسی کو مناسب سمجھا جو ظہور میں آیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اورحضرت امیر معاویہؓ کی معرکہ آرائیوں اور حضرت زبیرؓ وحضرت طلحہؓ اورحضرت علیؓ کی لڑائیوں وغیرہ کو ہم لوگ اپنے زمانہ کی مخالفتوں اورلڑائیوں پر قیاس کرکے بہت کچھ دھوکے اور فریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں ،ہم ان بزرگوں کے اخلاق کو اپنے اخلاقی پیمانوں سے ناپنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ بہت بڑی غلطی ہے خوب غور کرو اور سوچو کہ جنگِ جمل کے موقع پر حضرت طلحہؓ و زبیرؓ نے کس عزم وہمت کے ساتھ مقابلہ اورمعرکہ آرائی کی تیاری کی تھی،لیکن جب اُنکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یادلائی گئی تو کسی طرح وقت کے وقت پر جب کہ ایک زبردست فوج جاں نثاروں کی اُن کے قبضہ میں تھی،وہ میدانِ جنگ سے جدا ہوگئے، اُن کو غیرت بھی دلائی گئی، اُن کو بزدل بھی کہا گیا ،وہ لڑائی اور میدانِ جنگ کو کھیل تماشے سے زیادہ نہ سمجھتے تھے، اُن کی شمشیر خاراشگاف ہمیشہ بڑے بڑے میدانوں کو سرکرتی رہی تھی مگر انہوں نے کسی چیز کی بھی پرواہ دین وایمان کے مقابلہ میں نہ کی،انہوں نے ایک حدیث سُنتے ہی اپنی تمام کوششوں ،تمام امیدوں ،تمام اولوالعزمیوں کو یک لخت ترک کردیا، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ عالی جناب مولوی جو مسلمانوں میں بڑی عزت وتکریم کا مقام رکھتے ہیں،اگر کسی مسئلہ میں ایک دوسرے کے مخالف ہوجائیں تو برسوں مباحثوں اور مناظروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے،ایک دوسرے کی ہر طرح تذلیل و تنقیص کرتے اور بعض اوقات کچہریوں میں مقدمات تک دائر کرادیتے ہیں،گالیاں دینا اور اپنے حریف کو بُرا کہنا اپنا حق سمجھتے ہیں، مگر یہ سراسر محال ہے کہ اُن دونوں میں سے کوئی ایک اپنی غلطی تسلیم کرلے اور اپنے حریف کی سچی بات تسلیم کرکے لڑائی جھگڑے کا خاتمہ کردے،جنگِ صفین اور فیصلہ حکمین کے بعد ایک مرتبہ امیر معاویہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں ایک استفتاء بھیجا اورفتویٰ طلب کیا کہ خنثیٰ مشکل کی میراث کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اُن کو جواب میں لکھ بھیجا کہ اُس کے پیشاب گاہ کی صورت سے حکم میراث جاری ہوگا، یعنی اگر پیشاب گاہ مردوں کی مانند ہے تو حکم مرد کا ہوگا اوراگر عورت کی مانند ہے تو عورت کا حکم جاری ہوگا، بصرہ میں جنگِ جمل کے بعد آپ ؓ داخل ہوئے تو قیس بن عبادہ نے عرض کیا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ؓ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے بعد تم خلیفہ بنائے جاؤ گے کیا یہ بات درست ہے؟حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے ،میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہرگز جھوٹ نہیں بول سکتا،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے یہ وعدہ فرماتے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اورحضرت عمرفاروقؓ اورحضرت عثمانؓ غنی کو خلیفہ کیوں بننے دیتا اورکیوں اُن کی بیعت کرتا،آج کے مولویوں اور صوفیوں سے اس قسم کی توقعات کہاں تک ہوسکتی ہیں،ہر ایک شخص خود ہی اپنے دل میں اندازہ کرلے،اس قرآن مجید کی نسبت بھی جس کی ابتدائی آیت ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ ہے خدا تعالی خود فرماتا ہے: ’’ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ‘‘آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک حق و باطل کی معرکہ آرائی اورلڑائی کا سلسلہ جاری رہا ہے اورجاری رہے گا،رحمانی اورشیطانی دونوں گروہ دنیا میں ہمیشہ پائے گئے ہیں اور پائے جائیں گے،اربابِ حق اوراربابِ باطل کا وجود دنیا کو کبھی خالی نہیں چھوڑ سکتا اوریہی حق و باطل کا مقابلہ ہے جس کی وجہ سے نیکوں کے لئے اُن کی نیکی کا اجر مرتب ہوتا ہے اور مومن کے ایمان کی قدر خدا کی جناب میں کی جاتی ہےپس جس طرح قرآن مجید کا وجود اکثر کے لئے ہدایت اورکسی کے لئے گمراہی کا موجب بن جائے تو تعجب کی بات نہیں ہے،مومنوں اورمسلمانوں کی تعریف خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں اُمۃً وسطاً فرمائی ہے،اسلام میانہ روی سکھاتا اورافراط وتفریط کے پہلوؤں سے بچاتا ہے،بہت سے لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے معاملہ میں افراط وتفریط کے پہلوؤں کو اختیار کرکے گُمراہ ہوگئے ہیں،ان گمراہ لوگوں میں سے ایک گروہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف پہلو پر اس قدر زور دیا کہ اپنی مخالفت کو عداوت ؛بلکہ ذلیل ترین درجہ تک پہنچا اورخدائے تعالیٰ کے اُس برگزیدہ بندے کو گالیاں تک دینے میں تامل نہ کرکے اپنی گمراہی اور خُسران وخُذلان میں کوئی کمی نہ رکھی،دوسرے گروہ نے ان کی محبت میں ضرورت سے زیادہ مبالغہ کرکے اُن کو خدائی کے مرتبہ تک پہنچادیا اورایک بندے کو خدائی صفات کا مظہر قراردے کر دوسرے پاک اور نیک بندوں کو گالیاں دینا اوربُرا کہنا ثواب سمجھا اور اس طرح اپنی گمراہی کو حدِ کمال تک پہنچا کر پہلے گروہ کے ہمسر بن گیا،اس معاملہ میں حضرت علیؓ کا وجود بہت کچھ حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود سے مشابہ نظر آتا ہے کیونکہ یہودی ان کی مخالفت کے سبب گمراہ ہوئے اور عیسائی ان کی محبت و تعظیم میں مبالغہ کرنے اوراُن کو خدائی تک کا مرتبہ دینے میں گمراہ ہوئے،سچے پکے مسلمان جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں افراط تفریط کے پہلوؤں یعنی یہود ونصاریٰ کے عقائد سے بچ کر طریق اوسط پر قائم ہیں، اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے معاملہ میں بھی وہ خارجیوں اور شیعوں کے عقائد سے محترزرہ کر طریق اوسط پر قائم ہیں،یہ چند سطریں غالباً ایک تاریخ کی کتاب میں غیر موزوں اور تاریخ نویسی کے فرائض سے بالا تر سمجھی جائیں گی،لیکن ایسے عظیم الشان معاملہ کی نسبت جو آئندہ چل کر عالم اسلام پر نہایت قوی اثر ڈالنے والی ہے ایک مسلمان کے قلم سے چند الفاظ کا نکل جانا عیب نہ سمجھا جائے گا جبکہ واقعاتِ تاریخی کو بلا کم وکاست لکھ دینے کے بعد مؤلف کی رائے بالکل الگ اور غیر ملتبس طور پر نظر آئے۔ جس طرح صحابہ کرامؓ کو آج کل کے مسلمانوں،مولویوں اور صوفیوں پر قیاس کرنا غلطی ہے اسی طرح اُن کو عالم انسانیت سے بالا تر ہستیاں سمجھنا اورانسانی کمزوریوں سے قطعاً مبرا یقین کرنا بھی غلطی ہے،آخر وہ انسان تھے کھانے ،پینے،پہننے،سونے کی تمام ضرورتیں اُن کو اسی طرح لاحق تھیں جس طرح تمام انسانوں کو ہوا کرتی ہیں، صحابۂ کرام کا تو کہنا ہی کیا ،خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے انسان ہونے کا اقرار اور بشر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر فخر تھا، ہم روزانہ اپنی نمازوں میں اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ کہتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عبد اللہ ہونے کا اقرار کرتے اور بندہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں،ہاں ! ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معصوم عن الخطا اورجامع جمیعِ کمالات انسانیہ یقین کرتے اورنوعِ انسان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ایک ہی سب سے بہتر کامل ومکمل نمونہ جانتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اقتدا میں سعادتِ انسانی تک پہنچنے کا طریق مانتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت وہ برگزیدہ جماعت ہے جنہوں نے براہِ راست بلا توسط غیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے نمونہ کو دیکھا اورہدایت یاب وسعادت اندوز ہوئے،لیکن چونکہ وہ نبی نہ تھے، معصوم بھی نہ تھے،اُن کی استعدادیں بھی مختلف تھیں لہذا اُن میں ایک طرف صدیقؓ وفاروقؓ نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اُن کی جماعت میں معاویہؓ ومغیرہؓ بھی موجود ہیں، ایک طرف اُن میں عائشہؓ وعلیؓ جیسے فقیہ موجود ہیں تو دوسری طرف اُن میں ابو ہریرہؓ وابن مسعودؓ جیسے راوی ومحدث بھی پائے جاتے ہیں، ایک طرف اُن میں عمرو بن العاص جیسے سیاسی لوگ ہیں تو دوسری طرف اُن میں عبداللہ بن عمرؓ اور ابو ذر جیسے متقی پائے جاتے ہیں، پس مختلف استعدادوں کی بنا پر اگر ان کے کاموں اورکارناموں میں ہمیں کوئی اختلاف نظر آئے تو وہ اختلاف در حقیقت ہمارے لئے ایک رحمت اور سامانِ ترقی ہے،ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اختلاف کو اپنے لئے صبر سکون کے ساتھ سامانِ رحمت بنالیں اور عجلت وکوتاہ فہمی کے ذریعے باعثِ گمراہی نہ بننے دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ۴۰ ھ تک یعنی بیس سال برابر صحابہ کرامؓ کو ددنیا میں فتوحات حاصل ہوتی رہیں اورہر سال ؛بلکہ ہر مہینے کوئی نہ کوئی ملک یا صوبہ مفتوح ہوکر اسلامی سلطنت میں شامل ہوتا رہا، اس بست سالہ فتوحات نے برّا عظم ایشیا وافریقہ کے قریباًتمام متمدن ممالک کو اسلامی حکومت کے دائرہ میں داخل کردیا تھا اور اسلامی سیادت تمام دنیا میں مسلم ہوچکی تھی ۳۰ ھ سے ۴۰ ھ تک فتوحات کا سلسلہ قریباً رکا رہا اور اس دس سال کی مدت میں مسلمانوں کے اندر آپس کے جھگڑے اوراندرونی نزاعات برپا رہے،چشم ظاہر میں وہ دہ سالہ مدت کو سراسر زیان ونقصان ہی محسوس کرتی ہے، لیکن فہم وفراست اورغور وتامل کے لئے اس میں بہت سی بھلائیاں اورخوبیاں پوشیدہ ہیں، وہ بست سالہ فتوحات جس طاقت کے ذریعہ حاصل ہوئیں وہ طاقت نتیجہ تھی اس روحانیت اور اس تعلیم کا جو قرآن مجید اوراسلام کے ذریعہ صحابہ کرامؓ کو حاصل ہوئی تھی اوریہ وہ اندرونی خرخشے جس نے پیدا کئے تھے اُس طاقت کا جو مادیت اوراس دنیا کے باشندے ہونے کی وجہ سے ہر انسان میں پیدا ہوسکتی ہے، ان دہ سالہ رُکاوٹوں اور اندرونی جھگڑوں نے عالم اسلام کے لئے اسی طرح قوت اور سامانِ نمونہ بہم پہنچایا جس طرح موسمِ خزاں میں درخت اپنے نشو ونما کے مادے جمع کرلیتا اورموسم بہار کے آنے پر پھل پھول اورپتے پیدا کرتا ہے اگر ان ابتدائی ایام میں مسلمان آپس کی لڑائیوں اور تباہیوں کے نظارے نہ دیکھ لیتے اوراُن کی تاریخ کے ابتدائی صفحات میں دہ سال درد انگیز صفحہ موجود نہ ہوتا تو آگے چل کر قرونِ اولیٰ کے بعد جب کبھی وہ ایسی زبردست ٹھوکر کھاتے تو ایسے حواس باختہ ہوتے اوراس طرح گرتے کہ پھر کبھی سنبھل ہی نہ سکتے،ٹھوکریں کھانا، آپس میں اختلاف کا پیدا ہونا، بھائی کا بھائی سے لڑنا،خانہ جنگی کے شعلوں کا گھروں کے اندر بلند ہونا،ہابیل وقابیل کے زمانہ کی انسانی سنت ہے اوربنی نوعِ انسان جب تک اس ربیع مسکون میں آباد ہے یہ چیز بھی اس دنیا میں برابر موجود رہیں گی،حق و باطل کی جنگ جس طرح دنیا میں جاری رہی ہے اسی طرح روحانیت کے کمزور اورمادیت کے نمایاں ہوجانے پر حامیانِ حق کے اندر تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد کھٹ پٹ ہوتی رہی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی جبکہ حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی اورسر کے بال پکڑ کر کھینچ سکتے ،یوسف علیہ السلام کو اُن کے بھائی کنویں میں گراسکتے اورچند درہموں کے عوض فروخت کرسکتے اور حوار یین مسیح ؑ میں سے بعض بروایت انا جیل مروّجہ خود حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں تو ارباب حق اندرونی مخالفتوں اور صحابہ کرامؓ کے مشاجرات پر حیران ہونے اور تعجب کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، آپس کی مخالفتوں اور لڑائی جھگڑوں سے نوعِ انسان کبھی بکلی محفوظ نہیں ہوسکتی پس یہ فطری تقاضا اگر صحابہ کرامؓ کے زمانے میں ظہور پذیر نہ ہوتا تو بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے اندرونی نزاعات کی مصیبت سے گذر کر پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے،گرِ کر پھر سنبھلنے، رُک کرپھر چلنے کا موقع نہیں رہتا اور اسلام آج اپنی اصلی حالت میں تلاش کرنے سے بھی کسی کو نہ مل سکتا، دوسرے الفاظ میں اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جاسکتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اورحضرت امیر معاویہؓ اورحضرت طلحہؓ وزبیرؓ کی مخالفتیں اسلامی حکومت کی آئندہ زندگی کے لئے اُس ٹیکہ کی مثال تھیں جو چیچک سے محفوظ رہنے کے لئے بچوں کے لگایا جاتا ہے یا طاعون سے بچنے کے لئے لوگوں کے جس میں ٹیکہ کے ذریعہ طاعونی مادہ داخل کیا جاتا ہے؛چنانچہ یہ ٹیکہ بھی بہت مفید ثابت ہو اوراس کی ناگوار یاد آج تک مسلمانوں کے لئے درِ عبرت بن کر ہر تباہی و بربادی کے بعد ان کو پھر مستعد اورچوکس بناتی رہتی ہے،بنو امیہ اوربنو عباسؓ کی مخالفت بنو عباس کے عہد خلافت میں سادات کا خروج سلجو قیوں اور ویلمیوں کی رقابت ،غزنویوں اور غوریوں کی لڑائیاں فاطمیین وموحدین کی کشمکش ،عثمانیوں اورصفویوں کی زور آزمائیاں،افغانوں اور مغلوں کی معرکہ آرائی غرض ہزار ہا خانہ جنگیاں ہیں جن میں سے ہر ایک مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا کافی سامان رکھتی اور ہر موقع پر غیروں کی طرف سے یہی حکم لگایا جاتا کہ اب مسلمان سنبھلنے اور اُبھرنے کے قابل نہیں رہے لیکن دنیا نے ہمیشہ دیکھا کہ وہ سنبھلے اوراُبھرے ،انہوں نے مایوسی کوکا فروں کا حصہ سمجھا اوراپنے آپ کو ہمیشہ اُمیدوں سے پر استقامت واستقلال سے لبریز رکھا،اسلام کی عزت کو اپنی عزت پر اوراسلام کی بقا کو اپنی بقا پر ترجیح دی،ہلاکونے بغداد کو برباد کیا تو مسلمانوں نے فوراً ہلاکو کی اولاد کے قلوب کو اسلام سے آباد کردیا، عالمِ عیسائیت نے متحد ومتفق ہوکر بیت المقدس مسلمانوں سے چھین لیا، مگر صلاح الدین ایوبی نے تمام یورپی طاقتوں کو نیچا دکھا کر اُس مقدس شہر کو واپس لے لیا،انگورہ کے میدان نے بایزید یلدرم کی تمام اولوالعزمیوں کو عملی جامہ پہنادیا ،غرض خلافتِ راشدہ کے آخری دس سال میں جو جوکچھ ظہور میں آیا اُس نے مسلمانوں کو آئندہ کے لئے زیادہ باہمت، زیادہ صعوبت کش،زیادہ سخت جان،زیادہ مستقل مزاج، زیادہ اولوالعزم بنادیا،بہر حال حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے کی لڑائیوں کو اگر اسلام اور عالم اسلام کے لئے نقصان رساں کہتے ہو تو کم از کم اُن کے فوائد کو بھی گو وہ نقصان کے مقابلہ میں کم ہی کیوں نہ ہوں،بالکل فراموش نہ کردو۔ دن کے ساتھ رات، روشنی کے دامن میں تاریکی،بہار کی آغوش میں خزاں ،گل کےپہلو میں خار،شیر کی خوبصورت اوردل رُبا شکل ووضع میں درندگی، سانپ کی دل کش صورت ورفتار میں سم قاتل اور دریا کی پُر ازگوہر تہ میں غرق وہلاکت موجود پائی جاتی ہے، ایمان کی نعمت کا ہم کو مطلق احساس نہ ہوتا اگر کفر کی لعنت دنیا میں موجود نہ ہوتی، چاندنی رات ہم کو ہرگز مسرور نہ کرسکتی اگر اگر شب دیجور سے ہم کو واسطہ نہ پڑا کرتا ،غرضکہ خدائے تعالیٰ نے ہر خوبی کے دامن سے ایک بُرائی کو باندھ دیا ہے اور ہر نوش میں نیش رکھ دیا اسی اصول پر ایک کارخانہ عالم چل رہا ہے خلافت اسلامیہ یا حکومت وسلطنتِ اسلامیہ نوعِ انسان کے لئے دنیا میں ایک نعمت کہی جاسکتی ہے، جبکہ چاند اورسورج کے چہروں کو بھی گہن کی سیاہی سے مفر نہیں ہے تو اس نعمت کو مکدر کرنے اورزوال ونکال میں مبتلا کرنے کے سامان بھی اگر دنیا میں موجود ہوتے رہے ہوں تو ہم کو حیران و پریشان ہونا نہیں چاہئے،حضرت عثمان غنیؓ کے عہد خلافت میں منافقوں اورمسلم نما دشمنانِ اسلام کے سازشی گروہ کا پیدا ہوجانا تاریخ کے مطالعہ کرنے والے کو سخت ناگوار معلوم ہوتا ہے اور وہ اس سازشی گروہ پیدا ہوسکنے کی ذمہ داری اسلام پر عائدکرنے سے در گذر نہیں کرتا، لیکن اگر وہ غور کرے گا تو جس طرح زندگی یا حیات کو وہ تنازع للبقاء کشمکش ، جدوجہد اورکشمکش کا ایک سلسلہ تسلیم کرے گا، اسلام درحقیقت نام ہے تمام شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں ہمہ اوقات کمر بستہ رہنے کا اورشیطانی طاقتوں کو مغلوب کرکے رحمانی طاقتوں کے بول بالا کرنے کا،شیطانی طاقتوں میں سے سلطنت اسلامی کے خلاف سب سے زیادہ نقصان رساں منافقوں اورسازشی گروہوں کی شرارتیں ہواکرتی ہیں،آج تک جب کبھی اورجہاں کہیں خلافتِ اسلامیہ یعنی سلطنت اسلامیہ کو نقصان پہنچا ہے وہ انہیں منافقوں اورسازش کنندوں کی بدولت پہنچا ہے،ان منافقوں کا سلسلہ آج تک دنیا میں موجود ہے اورآج کل تو پہلے سے زیادہ طاقتور معلوم ہوتا ہے اس کی پیدائش حضرت عثمان غنیؓ کے عہد خلافت میں ہوئی ؛بلکہ یوں کہئے کہ شہادتِ فاروقی سے اس کی ابتدا ہوئی اوراس کے بعد جلد جلد نشوونما ہوکر شہادتِ عثمانیؓ سے شہادت علویؓ تک اس کو نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں، پھر آج تک اس کا سلسلہ موجود پایا جاتا ہے،حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ جب سے حضرت عمر فاروقؓ نے شہادت پائی اسلام کے اقبال میں کمی آگئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تک یہ شخص( حضرت عمر فاروقؓ کی طرف اشارہ فرماکر) تم میں موجودہے فتنوں کا دروازہ بند رہے گا، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان کا ہر فرشتہ عمرؓ کا وقار کرتا اورزمین کا ہر شیطان ان سے ڈرتا ہے، ایک روز کعب احبارؓ سے حضرت فاروق اعظم نے پوچھا کہ تم نے کہیں میرا ذکر بھی صحائف بنی اسرائیل میں دیکھا ہے،انہوں نے کہا کہ ہاں آپ ؓ کی نسبت لکھا ہے کہ آپ ؓ امیر شدید ہوں گے اورراہِ خدا میں کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں گے، آپ ؓ کے بعد جو خلیفہ ہوگا اُس کو ظالم لوگ قتل کرڈالیں گے اوراُن کے بعد بلا اور فتنہ پھیل جائے گا، مجاہدؓ، فرماتے ہیں کہ ہم اکثر یہ ذکر کیا کرتے تھے کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں شیاطین قید میں رہے اورآپ ؓ کے انتقال کے بعد آزاد ہوگئے۔