انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۱)حضرت امام ابوحنیفہ ؒ امام ابوحنیفہؒ (پیدئش: ۸۰ھ) کی شہرت زیادہ ترامام مجتہد کی حیثیت سے ہے؛ لیکن علمائے حدیث نے آپ کو محدثین میں بھی ذکر کیا ہے، محدثین کا ذکر اس عنوان سے کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں سے احادیث سنیں اور ان سے آگے فلاں فلاں نے روایت لیں، حضرت امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں بھی یہ پیرایہ تعارف موجود ہے، حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ (سنہ ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں: "قد قال الامام علی بن المدینی ابوحنیفہ روی عنہ الثوری وابن المبارک وحماد بن زید وہشام ووکیع وعباد بن العوام وجعفر بن عون وھو ثقہ لاباس بہ وکان شعبہ حسن الرای فیہ"۔ (روی حماد بن زید عن ابی حنیفۃ احادیث کثیرۃ، الانتقاء:۱۳۰) ترجمہ: امام علی بن المدینی کہتے ہیں کہ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، حمادبن زید، ہشام، وکیع، عباد بن عوام، جعفر بن عون نے امام ابوحنیفہؒ سے حدیث روایت کی ہے، ابوحنیفہ ثقہ تھے ان سے روایت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور شعبہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔ حافظ شمس الدین ذہبی لکھتے ہیں: "وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وابي اسحاق وخلق كثير..... وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابوعاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير، وكان اماما ورعا"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۸) ترجمہ: امام ابوحنیفہ نے عطاء، نافع، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، سلمہ بن کہیل، ابی جعفر، محمدبن علی، قتادہ، عمرو بن دینار، ابی اسحاق اور بہت سے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے اور ابوحنیفہ سے وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت، ابوعاصم، عبدالرزاق، عبیداللہ بن موسیٰ، ابونعیم، ابوعبدالرحمن المقری اور خلق کثیر نے روایت لی ہے اور ابوحنیفہ امام تھے اور زاہد پرہیزگار تھے۔ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ اہلِ مکہ کے محدث اور مفتی عطاء بن ابی رباح سے کس کس نے حدیث راویت کی ہے؟: "وعنه ايوب وحسين المعلم وابن جريج وابن اسحاق والاوزاعي وابو حنيفة وهمام بن يحيى وجرير ابن حازم"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۲) خطیب تبریزی، صاحب مشکوٰۃ لکھتے ہیں: "سمع عطاء بن ابی رباح وابااسحاق السبیعی ومحمد بن المنکد رونا فعاوہشام بن عروۃ وسماک بن حرب وغیرہم وروی عنہ عبداللہ بن المبارک وکیع بن الجراح ویزید بن ہارون والقاضی ابویوسف ومحمد بن الحسن الشیبانی وغیرہم"۔ (الاکمال:۶۲۴) ترجمہ: ابوحنیفہؒ نے عطا بن رباح اور ابواسحاق السبیعی اور محمدبن المنکدر اور ہشام بن عروہ اور سماک بن حرب وغیرہ حضرات سے روایت لی اور ابوحنیفہؒ سے عبداللہ بن مبارک اوروکیع بن الجراح اور یزید بن ہارون اور قاضی ابویوسف اور محمد بن حسن الشیبانی وغیرہ حضرات نے روایت لی ہیں ۔ حضرت عبدالرحمن المقری (۲۱۳ھ) جب آپ سے روایت کرتے توفرماتے مجھ سے اس شخص نے یہ حدیث بیان کی جو (فن حدیث میں) بادشاہوں کا بادشاہ تھا، خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: "کان اذاحدث عن ابی حنیفۃ قال حدثنا شاہنشاہ"۔ آپ کے اساتذہ وتلامذہ ان کے علاوہ بھی بہت سے تھے، آپ نے بلند پایہ محدثین سے محدثین کے طور پر روایات لیں اور آگے محدثین کے طرز پر انہیں محدثین سے روایت کیا، آپ کے تلامذہ میں سے عبداللہ بن مبارک اور وکیع بن الجراح کے تذکرے کتب رجال میں دیکھیں، یہ حضرات فنِ حدیث میں اپنے وقت کے آفتاب وماہتاب تھے، ان جیسے اکابر محدثین کا حدیث میں آپ کی شاگردی کرنا اس فن میں آپ کی عظمتِ شان کی کھلی شہادت ہے، یہ صحیح ہے کہ آپ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طرح مکثرین روایت میں سے نہ تھے؛ لیکن اس سے آپ کے علمِ حدیث میں کمزور ہونے کا شبہ کسی جاہل کوبھی نہ ہوسکے گا، محدثین آپ کے ذکر کے بغیرآگے نہ چلتے تھے، مشکوٰۃ شریف حدیث کی کتاب ہے جس میں ایک روایت بھی آپ سے منقول نہیں؛ مگرخطیب تبریزی "الاکمال فی اسماء الرجال" میں آپ کے ذکر کے بغیر آگے نہیں چل سکے، آپ کے وفور علم کی شہادت آپ کودینی پڑی اور ظاہر ہے کہ ان دنوں علم سے مراد علم حدیث ہی لیا جاتا تھا، مصنف مذکور لکھتے ہیں: "والغرض بایراد ذکرہ فی ہذا الکتاب وان لم نرد عنہ حدیثاً فی المشکوٰۃ للتبرک بہ لعلو رتبتہ ووفور علمہ" (الاکمال فی أسماء الرجال:۶۲۴) ترجمہ: اورغرض اس کتاب میں آپ کا ذکرلانے سے یہ ہے کہ اگرچہ ہم مشکوٰۃ میں اُن سے کوئی حدیث نہیں لائے ہیں کہ آپ کے ذکر سے برکت حاصل ہوجائے، یہ آپ کے علوِمرتبہ اور وفور علم کی وجہ سے ہے۔ وفورِ علم سے مرادِ حدیث کا علم وافر نہیں تو اور کیا ہے؟ رہا فقہ تویہ علم اسی وقت بنتا ہے جب یہ حدیث پر مرتب ہو اسے علم حدیث لازم ہے؛یہی نہیں کہ آپ نے محدثین کے طرز پر روایات لیں اور آگے روایت کیں؛ بلکہ روایتِ حدیث اور راویوں کے صدق وکذب پر بھی آپ کی پوری نظر تھی، امام اوزاعیؒ سے ایک مسئلے پر گفتگو ہوئی اور دونوں طرف سے احادیث سند کے ساتھ پڑھی گئیں توآپ نے دونوں طرف کے راویوں پر تبصرہ فرمایا اور باوجود یہ کہ دونوں طرف کے روات ثقہ تھے، آپ نے راویوں کے علو فہم پر بحث شروع کردی (سند الانام فی شرح مسند الامام:۲۰) اور دونوں طرف کے راویوں کا نام لے لے کر بتایا کہ حماد بن ابی سلیمان زہری سے افقہ ہیں اور فلاں فلاں سے افقہ ہے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے مقابلے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہیں، اس سے واضح ہے کہ آپ راویوں پر تنقیدی نظر رکھتے تھے، ایک دوسری جگہ راویوں کے صدق وکذب پر آپ گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مارأیت احداً افضل من عطاء"۔ (تذکرہ:۱/۹۲) میں نے عطاء بن ابی رباح سے زیادہ اچھا (راوی) کسی کو نہیں دیکھا...... اور یہ بھی فرمایا: "مالقیت فیمن لقیت اکذب من جابر الجعفی"۔ (تہذیب التہذیب:۳/۴۸) میں جن لوگوں سے ملاہوں ان میں جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں پایا۔ حافظ ابنِ حجر نے زید بن عیاش کے بارے میں آپ کی رائے نقل کی ہے "انہ مجہول" (تہذیب التہذیب:۴/۴۲۴) طلق بن حبیب پر آپ نے اس کے عقیدہ کی رو سے جرح کی ہے "کان یری القدر" (الجواہر المضیہ:۱/۳۰) محدثین ہی راویوں پر اس درجہ تنقیدی نظر رکھتے ہیں، حافظ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں: "قال ابوحنیفۃ رایت ربیعہ واباالزناد وابوالزناد افقہ الرجلین"۔ (تذکرہ:۱/۱۲۷) ترجمہ:ابوحنیفہؒ کہتے ہیں میں نے ربیعہ اور ابوالزناد دونوں کودیکھا، ابوالزناد زیادہ فقیہ تھے۔ محدثین کا آپ کے متعلق اس قسم کی آراء کا اظہار کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ آپ رواۃ حدیث کے فہم ودرایت پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے، حضرت سفیان الثوریؒ کے علمی مرتبہ اور شانِ علم حدیث سے کون واقف نہیں، اتنے بڑے محدث کے بارے میں آپ سے رائے لی گئی کہ ان سے حدیث لی جائے یا نہیں؟ امام بیہقیؒ لکھتے ہیں: "عبد الحميد قال: سمعت أباسعد الصاغاني يقول: جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال: ماترى في الأخذ عن الثوري؟ فقال: اكتب عنه ماخلا حديث أبي إسحاق عن الحارث عن علي، وحديث جابر الجعفي"۔ (کتاب القرأۃ للبیہقی:۱۳۴) ترجمہ: عبدالحمید الحمانی کہتے ہیں میں نے ابوسعدصاغانی کوکہتے ہوئے سنا کہ ایک شخص امام ابوحنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا سفیان ثوری سے روایت لینے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ان سے حدیث لے لو؛ ماسوائے ان حدیثوں کے جنھیں وہ ابواسحاق عن الحارث کی سند سے روایت کریں یاجنھیں وہ جابر جعفی سے نقل کریں۔ غور کیجئے جب حضرت امام سفیان ثوری جیسے محدث کے بارے میں بھی آپ سے رائے لی جارہی ہےتو آپ کا اپنا مقام حدیث میں کیا ہوگا؟ اجتہاد واستنباط یاتطبیق وترجیح میں تومجتہدین آپ سے اختلاف کرسکتے ہیں؛ لیکن کسی مقام پریہ کہہ دینا کہ یہ حدیث حضرت امام کونہ پہنچی ہوگی ہرگز درست نہیں؛ اس دور میں یہ بعض الظن اثم کے قبیل میں سے ہے، محدث جلیل ملاعلی قاری احیاء العلوم کی ایک عبارت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "فالظن بأبي حنيفة أن هذه الأحاديث لم تبلغه ولوبلغته لقال بها قلت هذا من بعض الظن فإن حسن الظن بأبي حنيفة أنه أحاط بالأحاديث الشريفة من الصحيحة والضعيفة، لكنه مارجح الحديث الدال على الحرمة أوحمله على الكراهة جمعا بين الأحاديث وعملا بالرواية والدراية"۔ (سندالانام:۵۲) الحافظ اور الحجۃ کے درجے کے محدثین توبہت ہوئے؛ لیکن بہت کم ہوئے جن کا علم تمام احادیث کومحیط مانا گیا ہو، حضرت امام ان کبارِ محدثین میں سے ہیں، جن کاعلم تمام احادیثِ صحیحہ اور ضعیفہ کومحیط مانا گیا، ایک مرتبہ یحییٰ بن معینؒ سے امام ابوحنیفہؒ کے متعلق پوچھا گیا توفرمایا کہ ثقہ میں ثقہ ہیں، ایک مرتبہ فرمایا حدیث فقہ میں اور سچے ہیں اور دین کے بارے میں قابلِ اعتماد ہیں۔ (تاریخ بغداد خطیب:۱۳/۴۱۹،۴۲۰) امام ابوداؤد فرماتے ہیں: "ان ابا حنیفۃ کان اماما"۔ (تذکرہ:۵/۱۶۰) ترجمہ:بے شک ابوحنیفہؒ امام تھے۔ حضرت سفیان بن عیینہ (۱۹۸ھ) کس پائے کے محدث تھے یہ اہلِ علم سے مخفی نہیں، آپ کوفہ آئے توعلماء حدیث تب آپ سے حدیث سننے کے لیئے تیار ہوئے، جب حضرت امام ابوحنیفہؒ نے آپ کے محدث ہونے کی تصدیق کی، آپ نے فرمایا: یہ شخص عمرو بن دینار کی روایات کا سب سے بڑا عالم ہے، اس پر علماء سفیان بن عیینہ کے گرد جمع ہوگئے، حضرت سفیانؒ کہتے ہیں: "قدمت الکوفۃ فقال ابوحنیفۃ ہذا اعلم الناس بحدیث عمروبن دینار فاجتمعوا علی فحدثتھم"۔ (الجواہرالمضیئۃ:۱/۳۰) سفیان بن عیینہ کومحدث بنانے میں بڑے بڑے محدثین کی محنتیں ہوئیں؛ مگراس میں سبقت حضرت امام ابوحنیفہؒ کی ہے۔ حضرت سفیان خود کہتے ہیں: "اوّل من صیرنی محدثا ابوحنیفۃ"۔ (الجواہر نقلاً عن ابن خلکان:۱/۱۰۳) ترجمہ:جسں نے سب سے پہلے مجھے محدث بنایا ابوحنیفہ تھے۔ حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں محدثِ حرم حضرت سفیان کوفی تھے، اب آپ خود سمجھ لیں کہ آپ نے حضرت امام سے کس قدر استفادہ کیا ہوگا، آپ مسلکاً بھی حنفی تھے۔ (الجواہر:۱/۲۵۰) یحییٰ بن زکریا ابی زائدہ کی جلالتِ علم سے کون واقف نہیں، حافظ ذہبیؒ انہیں "الحافظ الثبت المتقن الفقیہ" (تذکرہ:۱/۲۴۶) لکھتے ہیں، آپ حضرت امام کے شاگرد تھے اور بقول حضرت امام طحاویؒ حضرت امام کے اُن پہلے دس اصحاب میں سے تھے جوتدوین علم میں آپ کے ساتھ بیٹھے، فن حدیث کے ان جیسے اکابر کا حضرت امام سے یہ قریبی رابطہ بتلاتا ہے کہ حضرت امام فن روایت میں بھی ان جبالِ علم کے شیخ تھے اور اکابر محدثین نہ صرف ان کے علم حدیث کے قائل تھے؛ بلکہ ان سے اپنے محدث ہونے کی سند لیتے تھے۔