انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافت سے دست برداری آپ کے مدائن چلے آنے کے بعد عبداللہ بن عامر کو موقع مل گیا اس نے بڑھ کر مدائن میں گھیر لیا حضرت حسنؓ پہلے ہی سے امیر معاویہؓ سے صلح کرنے پر آمادہ تھے اپنے ساتھیوں کی بزدلی اورکمزوری کا تجربہ کرنے کے بعد جنگ کا خیال بالکل ترک کردیا اورچند شرائط پر امیر معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کرلیا اوریہ شرائط عبداللہ بن عامر کے ذریعہ سے امیر معاویہؓ کے پاس بھجوادیئے جو حسب ذیل ہیں: (۱)کوئی عراقی محض بغض وکینہ کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا(۲) بلااستثنا سب کو امان دی جائے گی(۳) عراقیوں کے ہفوات کو انگیز کیا جائے گا(۴)یہ ہواز کا کل خراج حسنؓ کے لئے مخصوص کردیا جائے گا۔ (۵) حسینؓ کو دو لاکھ سالانہ علیحدہ دیا جائے گا ۔(۶)بنی ہاشم کو صلات وعطایا میں بنی عبدشمس (بنی امیہ) پر ترجیح دی جائے گی۔ عبداللہ بن عامر نے یہ شرائط امیر معاویہ کے پاس بھیجوادیئے،انہوں نے بلا کسی ترمیم کے یہ تمام شرطیں منظور کرلیں اوراپنے قلم سے ان کی منظوری لکھ کر اپنی مہر ثبت کرکے معززین وعمائد کی شہادتیں لکھوا کر حضرت حسنؓ کے پاس بھیجوادیا۔ (یہ تمام حالات اخبار الطوال وینوری ،۲۳۰ تا ۲۳۲ سے ماخوذ ہیں، ابن اثیر کا بیان اس سے کسی قدر مختلف ہے اس کی روایت کے مطابق صورت واقعہ ہے کہ جس وقت امام حسنؓ نے اپنے شرائط امیر معاویہؓ کے سامنے پیش کرنے کے لئے بھیجے تھے،اسی دوران میں امیر معاویہؓ نے بھی ایک سادہ کاغذ پر مہر لگا کر حسنؓ کے پاس بھیجا تھا کہ اس پر وہ جو شرائط چاہیں تحریر کردیں سب منظور کرلی جائیں گی اس کاغذ کے بھیجنے کے بعد امیر معاویہؓ کے پاس حسنؓ کے شرائط والا کاغذ پہنچا امیر معاویہ نے اس کو روکے رکھا حسنؓ کو جب امیر معاویہؓ کا مہر کردہ سادہ کاغذ ملا تو انہوں نے اس میں بہت سی ایسی شرطیں جو پہلے مطالبہ میں نہ تھیں بڑھا دیں لیکن امیر معاویہؓ نے انہیں تسلیم نہیں کیا اورصرف انہی شرائط کو مانا جسے حسنؓ پہلے بھیج چکے تھے (ابن اثیر:۳/۳۴۲) دست برداری کے بعد حضرت حسنؓ نے قیس بن سعد انصاری کو جو مقدمۃ الجیش کے ساتھ شامیوں کے مقابلہ پر مامور تھے اس کی اطلاع دی اورجملہ امور امیر معاویہ ؓ کے حوالہ کرکے مدائن چلے آنے کا حکم دیا قیس کو یہ فرمان ملا تو انہوں نے فوج کوپڑھ کر سنایا اورکہا کہ اس کے بعد ہمارے لئے صرف دو صورتیں ہیں یا تو بلا امام کے جنگ جاری رکھیں یا معاویہ کی اطاعت قبول کرلیں، ان کے دستہ میں بھی کچھ کمزور لوگ موجود تھے جنہوں نے امیر معاویہؓ کی اطاعت قبول کرلی اورقیس حضرت حسنؓ کے حکم کے مطابق آپ کے پاس مدائن چلے آئے اوران کے مدائن آنے کے بعد حضرت حسنؓ کوفہ تشریف لے گئے امیر معاویہؓ یہاں آکر آپ سے ملے اور دونوں میں صلح نامہ کے شرائط کی زبانی بھی تصدیق و توثیق ہوگئی۔ (اخبار الطوال :۲۳۲) اوپر جو شرطیں اخبار الطوال سے نقل کی گئی ہیں، ان کے علاوہ عام طور پر ایک یہ شرط بہت مشہور ہے کہ امیر معاویہؓ کے بعد حسن خلیفہ ہوں گے ؛لیکن یہ شرط مروج الذہب مسعودی اخبار الطوال دینوری، یعقوبی ،طبری اورابن اثیر وغیرہ کسی میں بھی نہیں ہے، البتہ علامہ ابن عبدالبر نے استیعاب میں لکھا ہے کہ علما کا یہ بیان ہے کہ حسنؓ صرف معاویہؓ کی زندگی ہی تک کے لئے ان کے حق میں دست بردار ہوئے تھے (استیعاب تذکرہ امام حسنؓ) لیکن ابن عبدالبر کا یہ بیان خود محل نظر ہے اس لئے کہ جو واقعہ کسی مستند تاریخ میں نہیں ملتا اس کو علما کا بیان کیسے کہا جاسکتا ہے ممکن ہے ان کے عہد کے علماء کی یہ رائے رہی ہو لیکن تاریخوں سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی،خود طبری نے بھی جو اپنی تاریخ میں ہر قسم کی رطب دیا بس روایتیں نقل کردیتا ہے،اس شرط کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے اورآئندہ واقعات سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی اس شرط کے نہ ہونے کا سب سے بڑاثبوت یہ ہے کہ حضرت حسنؓ کی وفات کے بعد جب امیر معاویہؓ یزید کی بیعت لینے کے لئے مدینہ گئے اورابن زبیرؓ، حسینؓ اورعبدالرحمن بن ابی بکرؓ وغیرہ کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا، تو ان بزرگوں نے اس کے خلاف ہر طرح کے دلائل دیئے ،ابن زبیرؓ نے کہا کہ یہ طریقہ خلفائے راشدینؓ کے انتخابی طریقہ کے خلاف ہے، اس لئے ہم اسے منظور نہیں کرسکتے،عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے کہا یہ قیصر وکسریٰ کی سنت ہے، لیکن کسی نے بھی یہ دلیل نہیں دی کہ حسنؓ صرف تمہارے حق میں دست بردار ہوئے تھے،اس لئے یزید کو ولیعہد نہیں بنایا جاسکتا ظاہر ہے کہ اگر ان بزرگوں کو اس قسم کی شرط کا علم ہوتا تو وہ دوسرے دلائل کے ساتھ اسے بھی یزید کی ولیعہدی کی مخالفت میں ضرور پیش کرتے پھر امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد جب حضرت حسینؓ یزید کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنے دعویٰ کی تائید اوریزید کی مخالفت میں بہت سی تقریریں کیں اوران تقریروں میں یزید کی مخالفت کے اسباب بیان کیے لیکن کسی تقریر میں بھی آپ نے یہ دعویٰ نہیں فرمایا کہ چونکہ میرے بھائی حسنؓ صرف امیر معاویہؓ کے حق میں دستبردار ہوئے تھے اور وہ امیر معاویہؓ کی زندگی میں وفات پاچکے تھے اس لئے اصول توارث کی رو سے ان کی جانشینی کا حق مجھے یا حسنؓ کی اولاد کو پہنچتا ہے؛حالانکہ یزید کی حکومت کے خلاف دلائل میں یہ بڑی قوی دلیل تھی لیکن حضرت حسینؓ نے اس کی طرف اشارہ بھی نہیں فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہی سرے سے غلط ہے، باقی رہا یہ سوال کہ پھر بعض ارباب سیر نے اسے کیوں نقل کیا ہے، اس کا جواب ان لوگوں کے لئے بہت آسان ہے جو بن امیہ اوربنی ہاشم کی اختلافی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک حامی دوسرے کے متعلق ایسی روایتیں گھڑدیتے ہیں جس سے دوسرے کے دامن پر کوئی دھبہ آتا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کے خلاف صف آرا ہوکر اور پھر اپنے بعد یزید کو ولیعہد بنا کر اسلامی خلافت ختم کرکے تاریخ اسلام میں نہایت بری مثال قائم کی،لیکن اس غلطی کو محض اس کی حد تک محدود رکھنا چاہیے تھا مگر ان کے مخالفوں نے اس پر بس نہیں کیا ؛بلکہ ان کے خلاف ہر طرح کے بہتان تراش کر تاریخوں میں شامل کردیئے اوپر کی شرط بھی اسی بہتان کی ایک کڑی ہے، ہمارے نزدیک اس شرط کی ایزاد سے امیر معاویہؓ کے اشارہ سے حضرت حسنؓ کو زہر دینے والی روایت کی توثیق مقصود ہے جس کا ذکر آئیندہ آئے گا اس لئے کہ جب بطور مقدمہ کے اسے تسلیم کرلیا جائے کہ حسنؓ صرف معاویہؓ کی زندگی تک کے لئے خلافت سے دستبردار ہوئے تھے اورامیر معاویہؓ اپنے خاندان میں حکومت چاہتے تھے تو پھر ان دونوں مقدمات سے یہ کھلا ہوا نتیجہ نکل آتا ہے کہ حسنؓ کو امیر معاویہؓ ہی نے زہر دلوایا تھا اور یہ ایسا مکروہ الزام ہے جس سے امیر معاویہؓ کی اخلاقی تصویر نہایت بد نما ہوجاتی ہے اوروہ ہمیشہ کے لئے مورد طعن بن جاتے ہیں، حضرت حسنؓ کے اسبابِ وفات پر انشاء اللہ امیر معاویہؓ کے حالات میں تفصیل سے بحث کی جائے گی۔