انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو ھریرہ کی والدہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادب المفرد میں ایک باب، باب عرض الإسلام على الأم النصرانية باندھا ہےجس کے تحت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کے قبولِ اسلام کا ذکر کیا ہے، پورا واقعہ یہ ہے، ابوکثیر بیان کرتے ہیں: سمعت أباهريرة يقول: ماسمع بي أحدٌ يهودي ولانصرانى الا أحبنى، إن امى كُنْت أُرِيدُها على الإسلام فتأبى۔ (الادب المفرد، باب عرض الإسلام على الأم النصرانية:۱/۵۴،حدیث نمبر:۳۵،شاملہ،موقع جامع الحدیث) ترجمہ:میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ سنا وہ فرماتے تھے کہ جس یہودی یانصرانی نے یہ بات سنی کہ میں اپنی والدہ کوحلقہ اسلام میں لے آنا چاہتا ہوں؛ مگروہ انکار کرتی ہیں (اور میں برابر اُن کی خدمت کرتا رہتا ہوں اور کچھ نہیں کہتا) تواُس نے میرے اِس طرزِ عمل کوپسند کیا۔ صحیح مسلم اور مسند میں بھی ان کے اسلام کا ذکر موجود ہے؛ مگراس میں ان کے نصرانی ہونے اور اس واقعہ کے ابتدائی ٹکڑے کا کوئی ذکر نہیں ہے، ارباب رجال نے بھی ام ابی ہریرہ کے عنوان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کا تذکرہ کیا ہے؛ لیکن ان میں سے کسی نے بھی ان کے نصرانی ہونے کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے؛ مگرامام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے نصرانی ہونے کی تصریح کردی ہے، اس لیے ان کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نسبی تعلق قبیلۂ دوس سے تھا، جویمن کا ایک ممتاز قبیلہ تھا اور معلوم ہے کہ یمن کے متعدد ممتاز قبائل نے نصرانیت قبول کرلی تھی، اس لیے ممکن ہے کہ دوس میں بھی کچھ لوگوں نے نصرانیت اختیار کرلی ہو، جن میں یہ خاتون بھی شامل ہوں، جیسا کہ اس واقعہ کے ابتدائی ٹکڑے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس پڑوس میں کچھ یہودی ونصرانی آباد تھے، واللہ اعلم بالصواب۔