انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حادثۂ بیر معونہ(صفر۴ہجری) ابو براء عامر بن مالک جو قبیلہ کلاب کا سردار تھااور ملاعب الاسنہ (نیزوں سے کھیلنے والا)کے لقب سے مشہور تھامدینہ آیا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی، اس نے کہا،آپ دین سے واقف چند مسلمانوں کو میرے ساتھ کر دیجئے تا کہ وہ میری قوم میں اسلام کی تبلیغ کریں ، پھر ہم سب ایک ساتھ اسلام قبول کرلیں گے، آنحضرت ﷺ نے کچھ تامل کے بعد اسے منظور فر لیااور اصحاب صُفّہ میں سے ستّر(۷۰) قراء یعنی صا حبان علم و فضل کو روانہ فرمایا، اس جماعت کا امیر حضرت منذرؓ بن عمروجو " معنق الموت (موت کے لئے آگے آگے) کے لقب سے مشہور تھے کو بنایا گیااور حرامؓ بن ملحان کو ایک خط دے کر فرمایا کہ اسے بنی عامر کے سردار عامر بن طفیل تک پہنچا دیں،یہ لوگ بئیر معونہ پہنچے جو بنی عامر اور بنی سلیم کی بستیوں کے درمیان ایک کنواں ہے (بئیر کے معنی کنواں کے ہیں) اور وہاں اتر گئے، ان اصحاب میں سے عمروؓ بن امیہ ضمری اور حارثؓ بن صمہ تو اونٹوں کو چرانے کے لئے نکل گئے، حضرت حرامؓ بن ملحان دو ساتھیوں کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کا خط لے کر عامربن طفیل بن مالک ( جو ابو براء کا بھتیجا تھا) کے پاس گئے، بستی کے قریب ان دونوں سے کہا کہ میں تنہا جاتا ہوں ، اگر قتل ہو جاؤں تو تم واپس ہو جانا، عامر بن طفیل نے نامہ مبارک لیا اور اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا ، اس نے حضرت حرامؓ پر پیچھے سے نیزہ کا وار کیا، حضرت حرامؓ نے خون منہ اور سینہ پر مَلتے ہوئے نعرہ لگایا اللہ اکبر ! قسم ہے رب کعبہ کی کہ میں کامیاب ہوا،وہ شہید ہو گئے تو عامر نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو دوسرے صحابہ کو شہید کرنے پر ابھارا، اصحاب صفہ سے ان کا سخت مقابلہ ہوا اور سب شہید ہوئے، ان میں صرف کعبؓ بن زید سخت زخمی حالت میں بچے جنھیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا، عمرو بن امیہ کو عامر نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام کو آزاد کرنے کی منت مانی تھی ، اس لئے میں تجھے اس کی طرف سے آزاد کرتا ہوں،عمروبن امیہ ضمری مدینہ لوٹ رہے تھے تو انہیں راستہ میں بنی عامر کے دو آدمی ملے، انہوں نے موقع پاکر انہیں قتل کر دیا،یہ دونوں آنحضرت ﷺ کے امان یافتہ تھے، مدینہ پہنچ کر جب انھوں نے حضور ﷺ سے یہ بات کہی تو آپﷺ نے دو آدمیوں کے قتل کو نا پسند کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہمارے معاہد تھے، ان کی دِیت ادا کرنی ہوگی، اصحاب صُفّہ کی شہادت کا حضور ﷺ کو بے حد صدمہ پہنچا ، اس دن سے روزانہ نماز فجر میں ان قاتلوں کے لئے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد قنوت پڑھی،یہ دعا جو دراصل بد دعا تھی اس طرح تھی! " اے اللہ! مضر پر اپنی گرفت مضبوط کر دے، اے اللہ ! یوسف کے قحط کی طرح ان پر قحط نازل فرما، اے اللہ ! بنی لحیان، عضل وقارہ، رعل، عصیَّہ اور ذکوان کی گرفت کر کہ انھوں نے تیری اور تیرے رسول کی نافرمانی کی، مسلسل ایک مہینہ بلکہ دوسری روایت کی بموجب چالیس دن تک نماز فجر میں آپﷺ کا یہ عمل رہا، پھر آپﷺ نے یہ قنوت پڑھنا ترک کر دیا۔ (شاہ مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ) ابو براء اس واقعہ پر بہت شرمندہ تھا اوراسی غم میں مر گیا، اس کے بیٹے ربیعہ نے عامر بن مالک سے خون نا حق کا بدلہ لینا چاہا، بھری مجلس میں نیزہ مارا لیکن ضرب کاری نہ تھی، کچھ دنوں بعد بستی میں طاعون کی وبا پھیل گئی اور سب ہلاک ہو گئے، عامر بن مالک گھوڑے پر سوار تھا، اسی حالت میں مر گیا۔ یہ دونوں واقعات یعنی واقعہ رجیع اورحادثۂ بیر معونہ ایک ساتھ پیش آئے، ان حادثات کے متعلق ابن اسحاق اور ابن سعد دونوں متفق ہیں کہ دونوں سریئے صفر ۴ ہجری میں ہوئے، ابن ہشام نے پہلے رجیع کو پھر بیرمعونہ کو لکھا ہے اور ابن سعد نے اس کے برعکس پہلے بیر معونہ پھر رجیع کو لکھاہے ، مدینہ منورہ میں ایک ہی دن دونوں کی خبر پہنچی، (۷۸) اٹھتر مجاہدین اسلام کا بے دردانہ قتل کوئی معمولی واقعہ نہ تھا، مدینہ منورہ میں ایک سرے سے دوسرے تک کہرام مچ گیا۔ (سیرت ابن ہشام)