انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگ یرموک حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایک تجربہ کارسپہ سالار کی حیثیت سے تمام حالات کا معائنہ کیا ایک رات اُن کو محسوس ہوا کہ صبح رومی لشکر متفقہ طور پر حملہ آور ہوگا،انہوں نے رات ہی کے وقت تمام لشکر اسلام کو جس کی تعداد چالیس ہزار سے چھیالیس ہزار تک بیان کی گئی ہے،بہت سے چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کرکے ہر ایک دستہ پر ایک ایک تجربہ کار بہادر شخص کو افسر مقرر کیا،اورچیدہ چیدہ بہادروں کا ایک مختصر دستہ اپنی رفاقت کے لئے مخصوص کرکے نہدیت عمدگی کے ساتھ ہر ایک افسر کو اُس کے فرائض اور مناسب ہدایت سمجھادیں،رومی لشکر کی جانب سے اول چالیس ہزار سواروں کے ایک لشکر نے حملہ کیا،حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنے مٹھی بھر رفیقوں کے ساتھ آگے بڑھ کر اس لشکر کو بھگادیا،اس کے بعد جربہ بن زیدؓ رومی سردار آگے بڑھ کر آیا اور خالد بن ولیدؓ کو کچھ باتیں کرنے کے لئے طلب کیا حضرت خالد بن ولیدؓ اُس کے پاس گئے اُس نے خالد بن ولیدؓ سے اسلام کے متعلق کچھ سوالات کئے،حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس کو نہایت خوبی سے اسلام کی حقیقت سمجھائی، وہ اسی وقت مسلمان ہوکر تنہا خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ اسلامی لشکر میں چلے آئے اورپھر مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوکر رومی لشکر پر حملہ آور ہوئے،اسی لڑائی میں جرجہ بن زیدؓ نہایت بہادری کے ساتھ لڑکر شہید ہوئے۔ دونوں طرف سے سخت حملہ شروع ہوا،اسلامی سرداروں کی حیرت انگیز بہادری نے باوجود مسلمانوں کی کمی کے کسی لشکری کے دل میں ہمت ہارنے اور بددل ہونے کے خیال تک کو بھی نہیں آنے دیا،جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ عورتوں نے بھی جو اسلامی لشکر کے ساتھ تھیں لڑنے اور کفار کے قتل کرنے میں حصہ لیا ،ابو سفیان رجز پڑھ پڑھ کر دلوں میں جو ش اورلڑائی کی امنگ پیدا کررہے تھے،حضرت عکرمہؓ نے بلند آواز سے کہا کہ کون ہے جو میرے ہاتھ پر موت کے لئے بیعت کرے،اسی وقت ضرار بن ازور اور دوسرے چار سو آدمیوں نے بیعت کی کہ یا تو ہم شہید ہوجائیں گے یا فتح مند ہوکر میدان سے واپس آئیں گے اس کے بعد یہ جماعت رومی لشکر میں بھوکے شیروں کی طرح گھس گئی،حضرت مقداد بلند آواز سے سورہ انفال کی تلاوت فرما کر غازیانِ اسلام کے دلوں میں شوقِ شہادت پیدا کررہے تھے، حضرت خالد بن ولیدؓ ،ابو عبیدہؓ بن جراح،شرجیل بن حسنہؓ ،یزید بن ابی سفیانؓ، ابودرداءؓ، عمرو بن عاصؓ، حارث ؓ ،ضرارؓ، ضرجہ بن زیدؓ،وغیرہ بہادر ان اسلام نے وہ کارہائے نمایاں کئے کہ چشم فلک نے آج تک نہ دیکھے تھے،صبح سے شام تک شمشیر وخنجر اورتیروسنان کا استعمال بڑٰی تیزی اورسرگرمی سے جاری رہا،ظہر و عصر کی نمازیں غازیان اسلام نے محض اشاروں سے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے پڑھیں دن ختم ہوگیا مگر لڑائی ختم نہ ہوئی۔ بالآخر رومی دن بھر کی صعوبت کشی سے افسردہ ومضمحل ہوکر مسلمانوں کے مقابلہ پر جم نہ سکے ،پیچھے ہٹے اور ہٹتے ہٹتے دامن کوہ میں پہنچے ؛لیکن مسلمان ان کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے اور دھکیلتے ہوئے گئے،جب پیچھے ہٹنے اور بھاگنے کی جگہ نہ ملی تو ادھر ادھر کو پھوٹ پھوٹ کر ان کا سیلاب نکلا،مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا ،بہت سے پانی میں ڈوب کر بہت سے خندق میں گرکر ہلاک ہوئے ،ایک لاکھ تیس ہزار رومی لقمہ اجل ہوئے باقی اپنی جان بچاکر بھاگ نکلے ،ان مفرورین میں سوار زیادہ تھے پیدل قریباً سب مارےگئے ۔ لڑائی تمام دن تمام رات جاری رہ کر اگلے دن صبح کے وقت مسلمانوں کی فتح کی شکل میں ختم ہوئی اور رومی سپاہیوں سے میدان بالکل خالی نظر آیا ،رومیوں کا سپہ سالار اعظم تزارق برادر ہرقل بھی ماراگیا اوربھی کئی سردار مارےگئے ،مسلمانوں کے تین ہزار بہادر شہید ہوئے ،ان تین ہزار میں جرجہ بن زید نومسلم،عکرمہ بن ابی جہل، عمرو بن عکرمہ،سلمہ بن ہشام،عمرو بن سعید، ہشام بن العاص،ھبار بن سفیان،طفیل بن عمرو وغیرہ شہداء خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں،جنگ یرموک ربیع الاول،یا ربیع الثانی۱۳ھ میں بیان کی جاتی ہے ،مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا،جنگ یرموک یقیناً جمادی الثانی کی آخر تاریخوں میں ہوئی ہے،رومی لشکر کے یرموک میں آنے سے پہلے مسلمانوں نے بصری وغیرہ مقامات فتح کیے تھے ،وفات صدیقی تک فتح یرموک کی خبر مدینہ نہیں پہنچی تھی ،یہ غیر ممکن تھا کہ فتح یرموک کی خبر دوڈھائی مہینے تک مدینہ میں نہ پہنچتی۔