انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** کسی قوم قبیلہ یا خاندان سے خلافت کا تعلق قرآن کریم میں صاف طور پر ارشاد الہی ہے کہ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ"(اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا،اور تمہارے کنبے اورقبیلے اس لئے بنائے کہ ایک دوسرے کی تمیز ہوسکے،اللہ کے نزدیک بہت بزرگ وہ ہے،جو بہت متقی ہے،اللہ خوب جاننے والا اور خبردار ہے) اسلام نے دنیا میں لوگوں کے خاندانی مفاخر اور قومی بڑائیوں اورفضیلتوں کو ہٹا کر ایک ہی قوم بنانی چاہی ہے ‘‘انما المومنون اخوۃ’’فرما کر تمام برادریوں کی ایک برادری اور تمام قوموں کی ایک قوم بنادی ہے اوراس قوم کا نام مسلمان یامومن قوم ہے۔ ساری دنیا میں قومیں اورخاندان تعلیم اسلام کے موافق اگر ہوسکتے ہیں،تو دو ہی ہوسکتے ہیں،ایک مومن ومسلم دوسرے کافر و مشرک،توحید کے دائرے میں داخل ہوکر تفریق قومی بے حقیقت سی ہوجاتی ہے،قوموں اور قبیلوں کی تفریق اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی کہ ہم ایک دوسرے میں تمیز کرنے اور ایک دوسرے کا پتہ دینے میں سہولت بہم پہنچا سکتے ہیں اور بس عزت وتکریم اور حکومت وبرتری خدائے تعالیٰ کی جانب سے ہمیشہ مستحق عزت اور مستحق کریم لوگوں کو عطا ہوا کرتے ہے خواہ وہ کسی قبیلے اور کسی قوم سےتعلق رکھتے ہوں استحقاق تکریم کے لئے تقویٰ اورایمان شرط ہے،حکومت وخلافت کے لئے بھی خدائے تعالیٰ نے علم صحت اور قوت جسمانی (کیونکہ صحیح عقل ہمیشہ صحیح جسموں میں ہوتی ہے) تقویٰ عدل،اصلاح وغیرہ شرائط کو ضروری قرار دیا ہے،کسی قوم قبیلےکی شرط ہرگز نہیں لگائی ،اسلام نے انصار کو مہاجرین کا بھائی بنایا،اسلام نے ابو جہل جیسے قریش کو باشندگانِ مدینہ کے نوجوانوں کا مقتول بنایا اسلام نے بلال حبشی کو اشرافِ عرب پر فضیلت دی اسلام نے اسامہ بن زید کو عمر فاروقؓ کا سردار اورمطاع بنادیا اسلام نے بادشاہ اور غلام کو پہلو بہ پہلو ایک صف میں کھڑا کیا۔ اسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرایا کہ اگر فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خدانخواستہ چوری کا ارتکاب ہوگا،اس کا ہاتھ بالکل اسی طرح کاٹا جائے گا جس طرح کسی دوسری چور عورت کا ،اسلام ہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرایا کہ لوگو ! اگر تمہارے اوپر کوئی ادنی حبشی غلام بھی حکمراں یا خلیفہ ہوجائے تو تم اس کی فرماں برداری کرو اسلام ہی نے حضرت عمر فاروقؓ سے اپنی زندگی کی آخری ساعتوں میں یہ کہلوایا کہ اگر آج ابو حذیفہ کا غلام سالم زندہ ہوتا تو میں اس کو اپنا جانشین بنادیتا، غرضیکہ اسلام نے خاندانی اور نسبی مفاخر کے بت کو پاش پاش اور ریزہ ریزہ کردیا یہ نہایت ہی عظیم اور گراں قدر خدمت تھی جو اسلام نے بنی نوع انسان کے لئے انجام دی اورآج اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب اور قوانین پر فخر حاصل ہے،کہ کسی سے بھی خاندانی فخر وتکبر کا مہیب بت اپنی جگہ سے نہ ہلایا گیا، لیکن اسلام نے اس کو ریزہ ریزہ کرکے اس کا غبار ہوا میں اڑادیا۔ کس قدر حیر ت اور تعجب کا مقام ہے کہ آج بہت سے مسلمان جو اسلام اور آئین اسلام کی پابندی کا دعویٰ کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اسلام نے حکم دیا تھا اورا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم اورمنشاء تھا کہ خلافت صرف قبائل قریش یا قبیلہ بنو ہاشم یا حضرت علی اور اولاد علی کے ساتھ مخصوص و مختص رہے اور دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کسی حالت میں بھی خلافت کا مستحق ہوسکے اگر ایسا ہوتاتو سب سے پہلے خدائے تعالیٰ قرآن مجید میں اس کی صاف طور پر ہدایت فرماتا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق صاف صاف احکام صادر فرماجاتےاگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید میں خدانے احکام نازل فرمادئے تھے ، اور وہ احکام چالاکی سے غاصبان خلافت نے چھپائے تو پھر خدائے تعالی نعوذ باللہ جھوٹا ٹھہرتا ہے،جس نے و وعدہ فرمایا تھا کہ "انا نزلنا علیک الذکر وانالہ لحا فظون" اور نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرض تبلیغ کو ہرگز ہر گزپورے طورپر اانجام نہیں دیا کہ حجۃ الوداع کے خطبے میں بھی اپنا جانشین اورخلافت کےبنو ہاشم میں مخصوص طور پر رہنے کی نسبت کچھ نہ فرمایا ؛حالانکہ اس خطبے کے آخر میں آپ نے سوالاکھ آدمیوں کے مجمع میں اپنی تبلیغ کے مکمل کردینے کا اعلان فرمایا اور لوگوں سے اس کی تصدیق چاہی پھر مرض الموت میں آپ نے ذرا ذرا سی باتوں کے متعلق بھی جن کو ضروری سمجھا وصیت فرمائی،اگر کسی کا ایک درہم یا دینار آپ پر قرض تھا تو اس کو ادا فرمایا؛ لیکن خلافت کے متعلق اس عظیم الشان قرضۂ خلافت کو ادانہ فرمایا۔ بات وہی ہے کہ آپ جانتے تھے کہ خلیفہ بنانے کا کام خدائے تعالی کا ہے اور اس کام کے لئے اس نے نبی کو مطلق تکلیف نہیں دی، ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے تعالیٰ سے علم پاکر اس بات کو ضرور معلوم کرلیا تھا کہ میرے بعد خدائے تعالی کس کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہے، اسی لئے آپ نے اپنی بیماری میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو نمازوں کی امامت کے لئے اپنا قائم مقام بنایا اور وصیت میں مہاجرین کو فرمایا کہ تم انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا،مہاجرین سے انصار کی اس طرح سفارش کرنا دلیل اس امر کی ہےکہ آپ کو علم ہوچکا تھا کہ میرے بعد خلافت انصار کو نہیں ؛بلکہ مہاجرین کو ملنے والی ہے،آپ نے یہ بھی فرمایا کہ الخلافت بعدی ثلاثون سنۃ ثم ملک بعد ذالک،پھر آپ نے خدائے تعالیٰ سے علم پاکر یہ بھی معلوم کرلیا کہ "الائمۃ من قریش"(امام قریش میں سے ہوں گے) یہ سب آپ کے پیش آئندہ واقعات کے متعلق پیش گوئیاں تھیں،احکام نہ تھے، اب اگرکوئی شخص ‘‘ الخلافۃ بعدی ثلاثون سنۃ ثم ملک بعد ذالک،(میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی،پھر سلطنت ہوجائے گی) کو حکم قرار دے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک مغالطہ ہوگا جو وہ لوگوں کو دینا چاہتا ہے نہ اصل حقیقت، یہی کیفیت ‘‘الائمۃ من قریش کی ہے ،اس میں کیا شک و شبہ ہے کہ اس زمانے میں قریش ہی کے اندر اعلیٰ قسم کا دماغ اور اعلیٰ درجے کا علم و تقویٰ موجود تھا اور ان صفات حسنہ میں ان کو دوسروں پر فضیلت تھی اور خدائے تعالیٰ نے ان کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا،پھر جب ان کی وہ حالت نہ رہی تو دوسرے لوگوں میں سے جو منصب خلافت کے بہترین معلوم ہوتے خدائے تعالیٰ نے ان کو خلافت وحکومت عطا فرمائی،بہر حال خلافت یا حکومت وسلطنت کسی خاندان کے لئے مخصوص نہیں ہے ،یہ خدائے تعالیٰ کا ایک انعام ہے اور ہمیشہ ان لوگوں کو ملتا ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کریں جب وہ نااہل و نالائق ہوجاتے ہیں،خدائے تعالیٰ ان سے انعام چھین لیتا ہے اور دوسروں کو عطا فرمادیتا ہے اوریہی الہی انصاف سے ہم کوتوقع ہونی چاہئے تھی۔