انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آفتاب وماہتاب غارِ ثور میں رات کی تاریکی میں دونوں محب ومحبوب غار ثور کے قریب پہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر چھوڑ کر پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس غار میں داخل ہوئے،اس کو اندر سے صاف کیا،اس کے اندر جہاں جہاں سوراخ تھے ان کو ٹٹول ٹٹول کر اُن میں اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر رکھے، اس طرح تمام روزن بند کرکے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر لے گئے، یہ دونوں آفتاب وماہتاب کامل تین دن اور تین رات غار میں چھپے رہے،قریش کے بڑے بڑے سردار انعامی اشتہار مشتہر کرکے خود بھی سراغ رسانوں کو ہمراہ لے کر نقشِ قدم کا سراغ لیتے ہوئے غار ثور کے منھ تک پہنچ گئے،اُن کے ہمرا ہی سراغ رسانوں نے کہا کہ بس اس سے آگے سراغ نہیں چلتا،یا محمد یہیں کسی جگہ پوشیدہ ہے یا یہاں سے آسمان پر اُڑگیا ہے،کسی نے کہا کہ اس غار کے اندر بھی تو جاکر دیکھو،دوسرا بولا: ایسے تاریک اور خطرناک غار میں انسان داخل نہیں ہوسکتا،ہم اسے مدت سے اسی طرح دیکھتے آئے ہیں،تیسرے نے کہا:دیکھو، اس کے منھ پر مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے،اگر کوئی شخص اس کے اندر داخل ہوتا تو یہ جالا سلامت نہیں رہ سکتا تھا، چوتھے نے کہا: وہ دیکھو کبوتر اُڑا ہے اورانڈے نظر آرہے ہیں جن کو بیٹھا ہوا سہ رہا تھا،اس کے بعد سب کو اطمینان ہوگیا اور اس غار کی طرف کوئی نہ بڑھا۔ یہ کفار غار کے اس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ اندر سے اُن کے پاؤں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکرؓ کو نظر آرہے تھے اور ان کی باتیں کرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی،ایسی خطرناک حالت میں حضرت ابوبکرصدیقؓ نے کہا حضور !کفار تو یہ پہنچ گئے،آپ صلی اللہ نے فرمایا:' لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا'(مطلق خوف نہ کر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے) پھر فرمایا:وما ظنک باثنین اللہ ثالثھا (تونے ان دونوں کو کیا سمجھا ہے جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے) کفار اپنی تلاش و جستجو میں غائب وخاسر اورنامراد ہوکر واپس چلے گئے،رفتہ رفتہ تین دن کے بعد تھک کر اورمایوس ہوکر بیٹھ رہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن ابی بکرؓ کو پہلے ہی سے ہدایت کردی تھی کہ کفار کے تمام حالات اوردن بھر کی تمام کاروائیوں سے رات کے وقت اگر مطلع کردیا کریں، اسی طرح اپنے غلام عامر بن فہیرہؓ کو حکم دے دیا تھا کہ بکریوں کا ریوڑ دن بھر ادھر ادھر چراتے پھرا کریں اوررات کے وقت اس ریوڑ کو غار ثور کے قریب چراتے ہوئے لے آیا کریں ،اسماء بنت ابی بکرؓ کے سپرد یہ خدمت تھی کہ کھانا تیار کرکے رات کے وقت احتیاط کے ساتھ غار نشینوں کو پہنچادیا کریں ، عبداللہ ؓ اوراسماء دونوں بھائی بہن اپنے اپنے فرائض انجام دے کر واپس چلے جاتے تو عامر بن فہیرہؓ بکریوں کا دودھ دُوہ کر اور غار نشینوں کو پلا کر بکریوں کا ریوڑ کچھ رات گئے لےکر مکہ میں داخل ہوتے اوراس طرح عبداللہ اور اسماءؓ کے قدموں کے نشان ریوڑ سے مٹ جاتے،جب یہ معلوم ہوگیا کہ مکہ والوں کا جوش وخروش سرد پڑگیا تو عبداللہ بن ابی بکرؓ، اسماء بنت ابی بکرؓ، عامر بن فہیرہؓ کی انتہائی راز داری کی چاہے داد نہ دو،کیونکہ ان سب کے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے نہایت قوی اور قریبی تعلقات تھے؛ لیکن عبداللہ بن اریقط مسلمان بھی نہ تھا محض ایک اجیر تھا اس شخص کی رازداری ضبط و تحمل اور پاس عہد کا تصور کرنے سے اہل عرب کی حمیت اور قومی شرافت کی بے اختیار داد دینی پڑتی ہے،عبداللہ بن اریقط دونوں اونٹنیاں اورایک اپنا اونٹ لے کر غارِ ثور کے نزدیک دامنِ ثورمیں رات کے وقت یہ ماہ ربیع الاول کی چاندنی رات تھی آپہنچا،حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ بھی سفر کے لئے ستو اور کھانا اغیرہ لے کر آگئیں۔ حضرت ابوبکر صدیق اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غارثور سے نکلے،ایک اونٹنی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اس اونٹنی کا نام القصوا تھا،دوسری پر حضرت ابو صدیق ؓ اوران کے خادم عامر بن فہیرہؓ دونوں سوار ہوئے، عبداللہ بن اریقط جو دلیل راہ تھا اُونٹ پر سوار اوریہ چار آدمیوں کا مختصر قافلہ مدینہ کی طرف عام راستے سے بچتا ہوا روانہ ہوا؛کیونکہ ابھی تک تعاقب کا اندیشہ باقی تھا،روانگی کے قبل ایک قابل تذکرہ واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ جو گھر سے ستو کا تھیلا لائیں،اس کےلٹکانے کا تسمہ بھول آئیں، جب یہ تھیلا اونٹ کے کجاوے سے باندھ کر لٹکانا چاہا تو کوئی تسمہ ڈوری اس وقت موجو د نہ تھی،حضرت اسماء نے فوراً اپنا نطاق(کمرسے باندھنے کی ڈوری یا کمر بند) نکال کر آدھا تو اپنی کمر سے باندھا اورآدھا کاٹ کر اس سے ستو کا تھیلا لٹکایا،اس بروقت وبامحل تدبیر کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئےاور ان کو ذات النطاقین کہا؛چنانچہ بعد میں حضرت اسماء ذات النطاقین کے لقب سے مشہور ہوئیں ،یہی حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ ہیں جن کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ تھے،ایک یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ روانگی کے وقت اپنا تمام زر نقد جو پانچ چھ ہزار درھم تھے لے کر روانہ ہوئے، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے باپ ابو قحافہ جو ابھی تک کفر کی حالت میں تھے اور نابینا تھے گھر میں آئے اور اپنی دونوں پوتیوں سے کہا کہ ابو بکرؓ خود بھی چلا گیا اور سارا مال وزر بھی لے گیا، حضرت اسماءؓ بولیں:داداجان: وہ ہمارے لئے بہت روپیہ چھوڑ گئے یہ کہہ کر انہوں نے ایک کپڑے میں بہت سے سنگریزے لپیٹ کر اُس جگہ لے جارکھے جہاں روپیہ کی تھیلی رکھی رہتی تھی اور دادا کا ہاتھ پکڑ کرلے گئیں،انہوں نے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھ لیا اورسمجھا کہ روپیہ موجود ہے،پوتیوں سے کہا کہ اب ابوبکرؓ کے جانے کا کوئی غم نہیں ہے۔