انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافت اور فتوحات خلافت حضرت ابوبکر ؓ تریسٹھ سال کی عمر میں اواخرجمادی الثانی دوشنبہ کے روز وفات پائی اورحضرت عمرفاروق ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے،خلیفۂ سابق کے عہد میں مدعیان نبوت،مرتدین عرب اورمنکرین زکوٰۃ کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہوچکا تھا،یعنی ۱۲ھ میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اورحیرہ کے تمام اضلاع فتح ہوگئے،اسی طرح ۱۳ھ میں شام پر حملہ ہوا اوراسلامی فوجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں، ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت نے انتقال کیا،حضرت عمرؓ نے عنان حکومت ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔ فتوحات عراق سیرت صدیق ؓ میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ مذکور ہوچکا ہےکہ عراق پر حملےکے کیاوجوہ واسباب تھے اور کس طرح اس کی ابتداہوئی، یہاں سلسلہ کے لئے مختصراً اس قدر جان لینا چاہئے کہ خالدبن ولید بانقیا،کسکر،اورحیرہ کے اضلاع کو فتح کرچکے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے حکم سے مثنی بن حارثہ کو اپنا جانشین کرکے مہم شام کی اعانت کے لئے ان کو شام جانا پڑا،حضرت خالد بن ولید ؓ کا جانا تھا کہ عراق کی فتوحات دفعۃ رک گئیں۔ حضرت عمر ؓ مسند نشین خلافت ہوئے تو سب سے پہلے مہم عراق کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوئے،بیعت خلافت کے لئے عرب کے مختلف حصوں سے بے شمار آدمی آئے تھے، اس موقع کو غنیمت سمجھ کر مجمع عام میں آپ نے جہاد کا وعظ کیا؛لیکن چونکہ عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کاپایہ تخت ہے اور اس کا فتح ہونا نہایت دشوار ہےاس لئے ہر طرف سے صدائے برنخاست کا معاملہ رہا،حضرت عمر ؓ نے کئی دن تک وعظ کہا ؛لیکن کچھ اثر نہ ہوا،آخر چوتھے دن ایسی پر جوش تقریر کی کہ حاضرین کے دل دہل گئے مثنی شیبانی نے کہا کہ"مسلمانو! میں نے مجوسیوں کو آزمالیا ہے وہ مرد میدان نہیں ہیں، ہم نے عراق کے بڑے بڑے اضلاع فتح کرلئے ہیں اور عجمی اب ہمارا لوہامان گئے ہیں، اسی طرح قبیلہ ثقیف کے سردار ابوعبیدہ ثقفی نے جوش میں آکر کہا"انالھذا"یعنی اس کے لئے میں ہوں، ابو عبیدہ کی بیعت نے تمام حاضرین کو گرمادیا اورہرطرف سے آوازیں اٹھیں کہ ہم بھی حاضر ہیں، حضرت عمر ؓ نے مدینہ اور اس کے مضافات سے ایک ہزار اوردوسری روایت کے مطابق پانچ ہزار آدمی انتخاب کئے اور ابو عبید کو سپہ سالارمقرر کرکے روانہ کیا۔ حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایرانیوں کو بیدار کردیاتھا؛چنانچہ پوران وخت نے جوصغیر السن یزد گردشاہ ایران کی متولیہ تھی فرخ زاد گورنرخراسان کے بیٹے رستم کو جو نہایت شجاع اورمدبر تھا دربار میں طلب کرکے وزیر جنگ بنایا اور تمام اہل فارس کو اتحاد واتفاق پرآمادہ کیا،نیز مذہبی حمیت کا جوش دلا کر نئی روح پیدا کردی، اس طرح دولت کیانی نے پھر وہی قوت پیدا کرلی جو ہر مزپرویز کے زمانہ میں اس کو حاصل تھی۔ رستم نے ابو عبیدہ ؓ کے پہنچنے سے پہلے ہی اضلاع فرات میں غدرکرادیا اورجو مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں آچکے تھے وہ ان کے قبضہ سے نکل گئے،پوران وخت نے ایک اور زبردست فوج رستم کی اعانت کے لئے تیار کی اورنرسی وجابان کو سپہ سالار مقررکیا یہ دونوں دوراستوں سے روانہ ہوئے،جابان کی فوج نماز ق پہنچ کر ابوعبیدہ ؓ کی فوج سے برسرپیکار ہوئی اوربری طرح شکست کھا کر بھاگی،ایرانی فوج کے مشہور افسر جوشن شاہ اورمروان شاہ مارے گئے،جابان گرفتار ہوامگر اس حیلہ سے بچ گیا کہ جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ پہچانتا نہ تھا،جابان نے اس سے کہا کہ میں بڑھاپے میں تمہارے کس کام کاہوں،معاوضے میں دوغلام لے لو اور مجھے چھوڑ دو،اس نے منظور کرلیا، بعد کو معلوم ہوا کہ یہ جابان تھا،لوگوں نے غل مچایا کہ ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں چاہئے ؛لیکن ابو عبیدہ ؓ نے کہا کہ اسلام میں بدعہدی جائز نہیں۔ ابو عبیدہ ؓ نے جابان کو شکست دینے کے بعد سقاطیہ میں نرسی کی فوج گراں کو بھی شکست دی،اس کا اثریہ ہوا کہ قرب وجوار کے تمام رؤسا خود بخود مطیع ہوگئے،نرسی وجابان کی ہزیمت سن کر رستم نے مروان شاہ کو چارہزار کی جمعیت کے ساتھ ابو عبیدہ ؓ کے مقابلہ میں روانہ کیا،ابوعبیدہ ؓ نے فوجی افسروں کے شدید اختلاف کے باوجود فرات سے پاراترکر غنیم سے نبردآزمائی کی چونکہ اس پار کا میدان تنگ اورناہموار تھا،نیز عربی دلاورں کے لئے ایران کے کوہ پیکر ہاتھیوں سے یہ پہلا مقابلہ تھا، اسلئے مسلمانوں کو سخت ہزیمت ہوئی اورنوہزارفوج میں سے صرف تین ہزار باقی بچی۔ حضرت عمر کو اس شکست نے نہایت برافروختہ کیا،انہوں نے اپنے پرجوش خطبوں سے تمام قبائل عرب میں آگ لگادی،ان کے جوش کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ نمروتغلب کے سرداروں نے جو مذہباً عیسائی تھے اپنے قبائل کے مسلمانوں کے ساتھ شرکت کی اور کہا کہ آج عرب وعجم کا مقابلہ ہے،اس قومی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں،غرض حضرت عمرؓ ایک فوج گراں کے ساتھ جریر بجلی کو میدان رزم کی طرف روانہ کیا،یہاں مثنیٰ نے بھی سرحد کے عربی قبائل کو جوش دلا کر ایک زبردست فوج تیار کرلی تھی۔ پوران وخت نے ان تیاروں کا حال سنا تو اپنی فوج خاصہ میں سے بارہ ہزار جنگ آزمابہادر منتخب کرکے مہران بن مہرویہ کے ساتھ مجاہدین کے مقابلہ کے لئے روانہ کئے حیرہ کے قریب دونوں حریف صف آرا ہوئے،ایک شدید جنگ کے بعد عجمیوںمیں بھگدڑپڑگئی،مہران بن تغلب کے ایک نوجوان کے ہاتھ سے ماراگیا،مثنی نے پل کا راستہ روک دیا اور اتنے آدمیوں کو تہ تیغ کیا کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے، اس فتح کےبعد مسلمان عراق کے تمام علاقوں میں پھیل گئے۔ حیرہ کے کچھ فاصلہ پر جہاں آج بغدادآباد ہے وہاں اسی زمانہ میں بہت بڑا بازارلگتا تھا، مثنی نے عین بازار کے دن حملہ کیا بازاری جان بچاکر بھاگ گئے اور بیشمار دولت مسلمانوں کے ہاتھ آئی،اسی طرح قرب وجوار کے مقامات میں مسلمانوں کی پیشقدمی شروع ہوگئی،سورا،کسکر،صراۃاورفلالیح وغیرہ پراسلامی پھر یرالہرانے لگا، پایہ تخت ایران میں یہ خبریں پہنچیں توایران قوم میں بڑا جوش وخروش پیدا ہوگیا،حکومت کا نظام بالکل بدل دیا ،پوران وخت معزول کی گئی،یزد گردجوسولہ سالہ نوجوان اورخاندان کیانی کا تنہاوارث تھا تخت سلطنت پر بٹھادیا گیا،اعیان واکابرملک نے باہم متفق ومتحد ہوکر کام کرنے کا ارادہ کیا،تمام قلعے اورفوجی چھاؤنیوں کو مستحکم کردیا گیا،اسی کے ساتھ کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات میں بغاوت پھیلائی جائے،ان انتظامات سے سلطنت ایران میں نئی زندگی پیدا ہوگئی اورتمام مفتوحہ مقامات مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے،مثنی مجبور ہوکر عرب کی سرحد میں ہٹ آئے اورربیعہ اورمضر کے قبائل کو جواطراف عراق میں پھیلے ہوئے تھے،ایک تاریخ معین تک علم اسلامی کے نیچے جمع ہونے کے لئے طلب کیا،نیز دربار خلافت کو اہل فارس کی تیاریوں سے مفصل طورپر مطلع کیا۔ حضرت عمر ؓ نے ایرانیوں کی تیاریوں کا حال سن کر حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ کو جو بڑے رتبہ کے صحابی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے،بیس ہزار مجاہدین کے ساتھ مہم عراق کی تکمیل پر مامور کیا، اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس میں تقریباً سترہ صحابی تھے جو سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدرمیں جوہر شجاعت دکھاچکےتھے،تین سووہ تھے جو فتح مکہ میں موجود تھے اور سات سو ایسے تھے جو خود صحابی نہ تھے ؛لیکن ان کی اولاد ہونے کا فخر رکھتے تھے۔ حضرت سعدبن ابی وقاص نے شراف پہنچ کر پڑاؤ کیا،مثنی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مقام ذی قار میں اس عظیم الشان کمک کا انتظار کررہے تھے کہ اس اثناء میں ان کا انتقال ہوگیا، اس لئے ان کے بھائی مغنی شراف آکر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیئے تھے ان سے بیان کئے۔ حضرت عمر ؓ نے ایام جاہلیت میں نواح عراق کی سیاحت کی تھی اور وہ اس سرزمین کے چپہ چپہ سے واقف تھے اس لئے انہوں نے خاص طورپر ہدایت کردی تھی کہ فوج کا جہاں پڑاؤ ہووہاں کے مفصل حالات لکھ کر آپ کے پاس بھیجے جائیں؛چنانچہ سعد بن ابی وقاص ؓ نے اس مقام کا نقشہ،لشکر کا پھیلاؤ،فرودگاہ کی حالت اوررسد کی کیفیت سے ان کو اطلاع دی،اس کے جواب میں دربار خلافت سے ایک مفصل بیان آیا جس میں فوج کی نقل وحرکت حملہ کا بندوبست ،لشکر کی ترتیب اورفوج کی تقسیم کے متعلق ہدایتیں درج تھیں، اسی کے ساتھ حکم دیا گیا کہ شراف سے بڑھ کر قادسیہ کو میدان کا رزار قراردیں اوراس طرح مورچے جمائیں کہ فارس کی زمین سامنے ہو اورعرب کا پہاڑ حفاظت کا کام دے۔ حضرت سعد ؓ نے دربار خلافت کی ہدایت کے مطابق شراف سے بڑھ کر قادسیہ میں مورچہ جمایا اورنعمان بن مقرن کے ساتھ چودہ نامور اشخاص کو منتخب کر کے دربار ایران میں سفیر بنا کر بھیجا کہ شاہ ایران اوراس کے رفقاء کو اسلام کی ترغیب دیں ؛لیکن جو لوگ دولت وحکومت کے نشہ میں مخمور تھے،وہ خانہ بدوش عرب اوران کے مذہب کو کب خاطر میں لاتے چنانچہ سفارت گئی اورناکام واپس آئی۔ اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سے سکوت رہا،رستم ساٹھ ہزار کے فوج کے ساتھ ساباط میں پڑا تھا اوریزدگرد کی تاکید کے باوجود جنگ سے جی چرارہا تھا اور مسلمان آس پاس کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے اور رسد کے مویشی وغیرہ حاصل کرلاتے تھے جب اس حالت نے طول کھینچا مجبور ہوکر رستم کو مقابلہ کے لئے بڑھنا پڑا، اورایرانی فوجیں ساباط سے نکل کر قادسیہ کے میدان میں خیمہ زن ہوئیں۔ رستم قادسیہ میں پہنچ کر بھی جنگ کو ٹالنے کی کوشش کرتارہا اورمدتوں سفراء کی آمدورفت اورنامہ وپیام کا سلسلہ جاری رکھا ؛لیکن مسلمانوں کا آخری اور قطعی جواب یہ ہوتا تھا کہ اگر اسلام یا جزیہ منظور نہیں ہے تو تلوار سے فیصلہ ہوگا، رستم جب مصالحت کی تمام تدبیروں سے مایوس ہوگیا تو سخت برہم ہوا اورقسم کھا کر کہا"آفتاب کی قسم!اب میں تمام عربوں کو ویران کردوں گا۔" قادسیہ کی فیصلہ کن جنگ اورغضب ناک ہوکر فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا اور خود تمام رات جنگی تیاریوں میں مصروف رہا، صبح کے وقت قادسیہ کا میدان عجمی سپاہیوں سے آدمیوں کا جنگل نظر آنے لگا جس کے پیچھے پیچھے ہاتھیوں کے کالے کالے پہاڑ عجیب خوفناک سماں پیداکررہے تھے۔ دوسری طرف مجاہدین اسلام کا لشکرِجرارصف بستہ کھڑا تھا،اللہ اکبر کے نعروں سے جنگ شروع ہوئی،دن بھر ہنگامہ محشر برپارہا،شام کو جب تاریکی چھاگئی تو دونوں حریف اپنے اپنے خیموں میں واپس آئے،قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا اورعربی میں اس کو یوم الارماث کہتے ہیں۔ قادسیہ کی دوسری جنگ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے،اس معرکہ میں مہم شام کی چھ ہزار فوج عین جنگ کے وقت پہنچی اورحضرت عمر ؓ کے قاصد بھی جن کے ساتھ بیش قیمت تحائف تھے عین جنگ کے موقع پر پہنچے اورپکارکرکہا"امیر المومنین نے یہ انعام ان کے لئے بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کریں"اس نے مسلمانوں کے جوش وخروش کو اور بھی بھڑکادیا تمام دن جنگ ہوتی رہی شام تک مسلمان دوہزار اورایرانی دس ہزار مقتول ومجروح ہوئے ؛لیکن فتح وشکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔ تیسرا معرکہ یوم العماس کے نام سے مشہور ہے،اس میں مسلمانوں نے سب سے پہلے کوہ پیکر ہاتھیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی،کیونکہ ایرانیوں کے مقابلہ میں مجاہدین اسلام کو ہمیشہ اس کالی آندھی سے نقصان پہنچا تھا،اگرچہ قعقاع نے اونٹوں پر سیاہ جھول ڈال کر ہاتھی کا جواب ایجاد کرلیاتھا، تاہم یہ کالے دیو جس طرف جھک پڑتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی،حضرت سعدبن ابی وقاص نےضخم وسلم وغیرہ پارسی نومسلموں سے اس سیاہ بلا کے متعلق مشورہ طلب کیا، انہوں نے کہا کہ ان کی آنکھیں اورسونڈ بیکارکردیئے جائیں،سعد ؓ نے قعقاع ؓ ،جمال اورربیع کو اس خدمت پر مامور کیا،ان لوگوں نے ہاتھیوں کو نرغے میں لے لیا اور برچھے مار مار کر آنکھیں بیکار کردیں، قعقاع ؓ نے آگے بڑھ کر پیل سفید کی سونڈ پر ایسی تلوار ماری کہ مستک الگ ہوگئی، جھر جھری لے کر بھاگا، اس کا بھاگنا تھا کہ تمام ہاتھی اس کے پیچھے ہولئے، اس طرح دم کے دم میں یہ سیاہ بادل چھٹ گیا۔ اب بہادروں کو حوصلہ افزائی کا موقع ملا،دن بھر ہنگامہ کارزارگرم رہا،رات کے وقت بھی اس کا سلسلہ جاری رہااور اس زورکارن پڑاکہ نعروں کی گرج سے زمین دہل اٹھتی تھی، اسی مناسبت سے اس رات کو لیلۃ الہریر کہتے ہیں،رستم پامردی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا؛لیکن آخر میں زخموں سے چورہوکر بھاگ نکلا اور ایک نہر میں کود پڑاکہ تیر کر نکل جائے گا،بلال نامی ایک مسلمان سپاہی نے تعاقب کیا اور ٹانگیں پکڑ کر نہر سے باہر کھینچ لایا اور تلوار سے کام تمام کردیا، رستم کی زندگی کے ساتھ سلطنت ایران کی قسمت کا بھی فیصلہ ہوگیا،ایرانی سپاہیوں کے پاؤں اکھڑ گئے،مسلمانوں نے دورتک تعاقب کرکے ہزاروں لاشیں میدان میں بچھادیں۔ قادسیہ کے معرکوں نے خاندان کسریٰ کی قسمت کاآخری فیصلہ کردیا،درفش کاریانی ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہوگیا اور اسلامی حلم نہایت شان وشوکت کے ساتھ ایران کی سرزمین پر لہرانے لگا،مسلمانوں نے قادسیہ سے بڑھ کر آسانی کے ساتھ بابل،کوثی،بہرہ شیر اورخود نوشیروانی دارالحکومت مدائن پر قبضہ کرلیا،ایرانیوں نے مدائن سے نکل کر جلولاء کو اپنا فوجی مرکز قراردیا،اس دوران میں رستم کے بھائی خرندانے حسن تدبیر سے ایک زبردست فوج جمع کرلی، سعد نے ہاشم بن عتبہ کو جلولاء کی تسخیر پر مامور کیا، جلولاء چونکہ نہایت مستحکم مقام تھا، اس لئے مہینوں کے محاصرہ کے بعد مفتوح ہوا، یہاں سے قعقاع ؓ کی سپردگی میں ایک جمعیت حلوان کی طرف بڑھی اورخسرووشنوم کو شکست دے کر شہر پر قابض ہوگیا۔ قعقاع ؓ حلوان میں قیام کیا اور عام منادی کرادی کہ جو لوگ اسلام یا جزیہ قبول کر لیں گے وہ مامون ومحفوظ رہیں گے، اس منادی پر بہت سے امراء اوررؤسا برضاورغبت اسلام میں آگئے یہ عراق کی آخری فتح تھی، کیونکہ یہاں اس کی حد ختم ہوجاتی ہے۔ تسخیر عراق کے بعد حضرت عمر ؓ کی دلی خواہش تھی کہ جنگ کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ" کاش!ہمارے اورفارس کے درمیان آگ کا پہاڑ ہوتاکہ نہ وہ ہم پر حملہ کرسکتے نہ ہم ان پر چڑھ سکتے"لیکن ایرانیوں کو عراق سے نکل جانے کے بعد کسی طرح چین نہیں آتا تھا؛چنانچہ یزد گرد نے معرکہ جلول کےبعد مرو کو مرکزبناکر نئےسرے سے حکومت کے ٹھاٹھ لگائے اورتمام ملک میں فرامین ونقیب بھیج کر لوگوں کو عربوں کی مقاومت پر آمادہ کیا۔ یز گرد کے فرامین نے تمام ممالک میں آگ لگادی اورتقریبا ڈیڑھ لاکھ آدمیوں کا ٹڈی دل قم میں آکر مجتمع ہوا،یزدگردنے مروان شاہ کو سرلشکر مقرر کرکے نہادندکی طرف روانہ کیا، اس معرکہ میں درفش کاویانی جس کو عجم نہایت متبرک سمجھتے تھے،فال نیک کے خیال سے نکالاگیااورجب مروان شاہ روانہ ہوا تو یہ مبارک پھر یرا اس پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ ایرانیوں کی ان تیاریوں کا حال سن کر حضرت عمر ؓ نے نعمان بن مقرن کو تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس ایرانی طوفان کو آگے بڑھنے سے روکنے کا حکم دیا نہاوند کے قریب دونوں کی فوجیں سرگرم پیکار ہوئیں اوراس زورکا رن پڑا کہ قادسیہ کے بعد ایسی خونزیز جنگ کوئی نہیں ہوئی تھی، یہاں تک کہ اس جنگ میں خود اسلامی سپہ سالارنعمانی ؓ شہید ہوگئے،ان کے بعد ان کے بھائی نعیم بن مقرن نے علم ہاتھ میں لے کر بدستور جنگ جاری رکھی اوررات ہوتے ہوتے عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے،مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا،اس لڑائی میں تقریبا ًتین ہزار عجمی کھیت رہے،نتائج کے لحاظ سے مسلمانوں نے اس کا نام "فتح الفتوح" رکھا، فیروز جس کے ہاتھ سے حضرت عمر ؓ کی شہادت مقدر تھی،اسی لڑائی میں گرفتار ہواتھا۔ عام لشکر کشی واقعہ نہاوند کے بعد حضرت عمر ؓ کو خیال پیدا ہواکہ جب تک تخت کیانی کا وارث ایران کی سرزمین پر موجود ہے،بغاوت اورجنگ کا فتنہ فرونہ ہوگا، اس بنا پر عام لشکر کشی کا ارادہ کیا اوراپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار کرکے مشہور افسروں کو دیئے اور انہیں خاص خاص ممالک کی طرف روانہ کیا، چنانچہ ۲۱ھ میں یہ سب غازیان اسلام اپنے اپنے متعینہ ممالک کی طرف روانہ ہوگئے اور نہایت جوش وخروش سے حملہ کرکے تمام ممالک کو اسلام کازیرنگیں کردیااور صرف ڈیڑھ دو برس کے عرصہ میں کسریٰ کی حکومت نیست ونابود ہوگئی۔ خاندان کیانی کا آخری تاجدار ایران سے بھاگ کر خاقان کے دربار میں پہنچا،خاقان نے اس کی بڑی عزت وتوقیر کی اورایک فوج گراں کے ساتھ یزد گرد کو ہمراہ لے کر خراسان کی طرف بڑھااورخاقان نے احنف بن قیس کے مقابلہ میں صف آرائی کی ؛لیکن صفائی کے دوہی ہاتھ نے اس کے عزم واستقلال کو متزلز ل کردیا اور اس کے ذہن نشین ہوگیا کہ ایسے بہادروں کو چھیڑنامصلحت نہیں؛چنانچہ اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا اور اپنے حدود میں واپس چلا گیا۔ یزد گرد کوخاقان کے واپس جانے کی خبر ملی تو مایوس ہوکر خزانہ اورجواہرات ساتھ لئے ترکستان کا عزم کیا،درباریوں نے دیکھا کہ ملک کی دولت ہاتھ سے نکلی جاتی ہے تو روکا،اس نے نہ مانا تو مقابلہ کرکے تمام مال واسباب ایک ایک کرکے چھین لیا،یزد گردبے سروسامان خاقان کے پاس پہنچا اورخدا تعالی کی نافرمانی کے باعث مدتوں فرغانہ کی گلیوں میں خاک چھانتا رہا۔ "اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاءُoوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُo بِیَدِکَ الْخَیْرُ" "خدایا تو ہی ملکوں کا مالک ہے جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، جسکو چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے،ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔" احنف نے بارگاہِ خلافت میں نامۂ فتح روانہ کیا،حضرت عمر فاروق ؓ نے تمام آدمیوں کو جمع کرکے یہ مژدہ جانفزاسنایا اورایک مؤثر تقریر کی،آخر میں فرمایا کہ آج مجوسیوں کی سلطنت برباد ہوگئی اور اب وہ کسی طرح اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے؛لیکن اگر تم بھی صراط مستقیم پر قائم نہ رہے تو خدا تعالی تم سے بھی حکومت چھین کر دوسروں کو دے دیگا۔ فتوحاتِ شام ممالک شام میں سے اجنادین بصریٰ اور دوسرے چھوٹے چھوٹے مقامات عہد صدیقی میں فتح ہوچکے تھے،حضرت عمر ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے تو دمشق محاصرہ کی حالت میں تھا،خالد سیف اللہ ؓ نےرجب ۱۴ ھ میں اپنے حسن تدبیر سےاس کو مسخر کرلیا۔ رومی دمشق کی شکست سے سخت برہم ہوئے اور ہرطرف سے فوجیں جمع کرکے مقام بیسان میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے جمع ہوئے،مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل میں پڑاؤڈالا،عیسائیوں کی درخواست پر معاذ بن جبل ؓ سفیر بن کر گئے؛لیکن مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلی،آخر کار ذوقعدہ ۱۴ھ میں فحل کے میدان میں نہایت خونزیز معرکے پیش آئے،خصوصاً آخری معرکہ نہایت سخت تھا، بالآخریہ میدان بھی مسلمانوں کے ہاتھ رہا(طبری : ۲۱۵۸)غنیم کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمان اردن کے تمام شہر اورمقامات پر قابض ہوگئے،رعایا ذمی قراردی گئی اور ہرجگہ اعلان کردیا گیاکہ"مقتولین کی جان ومال، زمین،مکانات ،گرجے اور عبادت گاہیں سب محفوظ ہیں" دمشق اوراردن مفتوح ہوجانے کے بعد مسلمانوں نے حمص کا رخ کیا،راہ میں بعلبک ،حماۃ،شیراز اورمعرۃ النعمان فتح کرتے ہوئے حمص پہنچے اور اس کا محاصرہ کر لیا،حمص والوں نے ایک مدت تک مدافعت کرنے کے بعد مصالحت کرلی سپہ سالار اعظم ابو عبیدہ ؓ نے عبادہ ابن صامت کو وہاں متعین کرکے لاذقیہ کا رخ کیا اور ایک خاص تدبیر سے اس کے مستحکم قلعوں پر قبضہ کرلیا۔ حمص کی فتح کے بعد اسلامی فوجوں نے ہر قل کے پایہ تخت انطاکیہ کا رخ کیا ؛لیکن بارگاہ خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیاجائے، اس لئے فوجیں واپس آگئیں۔ (فتوح الشام ازدی،۱۳۱) میدان یرموک اور شام کی قسمت کا فیصلہ دمشق، حمص اورلاذقیہ کی پیہم اورمتواتر ہزیمتوں نے قیصر کوسخت برہم کردیا اوروہ نہایت جوش وخروش کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے اپنی شہنشاہی کا پورازورصرف کرنے پر آمادہ ہوگیااورانطاکیہ میں فوجوں کا ایک طوفان امنڈآیا،حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اس طوفان کو روکنے کے لئے افسروں کے مشورہ سے تمام ممالک مفتوحہ کو خالی کرکے دمشق میں اپنی قوت مجمتع کی اورذمیوں سے جو کچھ جزیہ وصول کیا گیا تھا سب واپس کردیا گیا، (کتاب الخراج قاضی ابو یوسف : ۲۱) کیونکہ اب مسلمان ان کی حفاظت کرنے سے مجبور تھے اس واقعہ کا عیسائیوں اوریہودیوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے تھے کہ خدا تم کو جلدواپس لائے۔ حضرت عمر ؓ کو مفتوحہ مقامات سے مسلمانوں کے ہٹ آنے کی خبر ملی تو پہلے وہ بہت رنجیدہ ہوئے ؛لیکن جب معلوم ہوا کہ تمام افسروں کی یہی رائے تھی تو فی الجملہ تسلی ہوگئی اور فرمایا خداکی اسی میں مصلحت ہوگی، سعید بن عامر ؓ کو ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدد کے لئے روانہ کیا اور قاصد کو ہدایت کی کہ خود ایک صف میں جاکر زبانی یہ پیغام پہنچانا: "الاعمر یقرئک الاسلام ویقول لکم یا اھل السلام اصدقوااللقاء وشدواعلیھم مثداللیوث ولیکونوااھون علیکم من الذر فاناقد علمنا انکم علیھم منصورون" ترجمہ: اے برادران اسلام! عمر ؓ نے بعد سلام کے تم کو یہ پیغام دیا ہے کہ پوری سرگرمی کے ساتھ جنگ کرو اوردشمنوں پر شیروں کی طرح اس طرح حملہ آور ہو کہ وہ تم کو چیونٹیوں سے زیادہ حقیر معلوم ہوں،ہم کو یقین کامل ہے کہ خدا کی نصرت تمہارے ساتھ ہے اورآخر فتح تمہارے ہاتھ ہے" اردن کی حدود میں یرموک کا میدان ضروریات جنگ کے لحاظ سے نہایت باموقع تھا، اس لئے ا س اہم معرکہ کے لئے اسی میدان کو منتخب کیاگیا، رومیوں کی تعداد دولاکھ تھی، اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف تیس بتیس ہزار تھی؛لیکن سب کے سب یگانۂ روزگارتھے، اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار ایسے بزرگ تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال مبارک دیکھا تھا، سو وہ تھے جو غزوہ بدر میں حضور خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہ چکے تھے،عام مجاہدین بھی ایسے قبائل سے تعلق رکھتے تھے جواپنی شجاعت اورسپہ گری میں نظیر نہیں رکھتے تھے۔ یرموک کا پہلا معرکہ بے نتیجہ رہا،پانچویں رجب ۱۵ھ کو دوسرا معرکہ پیش آیا،رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لی تھیں کہ بھاگنے کا خیال تک نہ آئے،ہزاروں پادری اوربشپ ہاتھوں میں صلیب لئے آگے آگے تھے اور حضرت عیسی کا نام لے کر جوش دلاتے تھے، اس جوش واہتمام کے ساتھ رومیوں نے حملہ کیا،فریقین میں بڑی خونریز جنگ ہوئی ؛لیکن انجام کار مسلمانوں کی ثابت قدمی اورپامردی کے آگے ان کے پاؤں اکھڑگئے، تقریباً ایک لاکھ عیسائی کھیت رہے اور مسلمان کل تین ہزار کام آئے،قیصر کو اس ہزیمت کی خبر ملی تو حسرت وافسوس کے ساتھ شام کو الوداع کہہ کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوگیا،(فتوح البلدان بلاذری،۱۴۳،واقعات کی تفصیل اذدی سے ملفوذہے)حضرت عمر نے مژدہ فتح سنا تو اسی وقت سجدہ میں گرکر خداکا شکر اداکیا۔ فتح یرموک کے بعد اسلامی فوجیں تمام اطراف ملک میں پھیل گئیں اور قنسرین ،انطاکیہ جومہ،سرمین،توزی،قورس،تل غرار،ولوک،رعیان وغیرہ چھوٹے چھوٹے مقامات نہایت آسانی کے ساتھ فتح ہوگئے۔ بیت المقدس فسلطین کی مہم پر حضرت عمروبن العاص ؓ مامور ہوئے تھے، انہوں نے نابلس،لد،عمواس،بیت جبرین وغیرہ پر قبضہ کرکے ۶ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا،اس اثناء میں حضرت ابو عبیدہ ؓ بھی اس مہم سے فارغ ہوکر ان سے مل گئے، بیت المقدس کے عیسائیوں نے کچھ دنوں کی مدافعت کے بعد مصالحت پر آمادگی ظاہر کی اور اپنے اطمینان کے لئے یہ خواہش ظاہر کی کہ امیر المومنین خود یہاں آکر اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں،حضرت عمر ؓ کو اس کی خبردی گئی،انہوں نے اکابر صحابہ ؓ سے مشورہ کرکے حضرت علی ؓ کو نائب مقررکیا اوررجب ۱۶ھ میں مدینہ سے روانہ ہوئے۔ (طبری : ۲۴۰۴) بیت المقدس کا سفر حضرت عمرؓ کا یہ سفر نہایت سادگی سے ہوا،مقام جابیہ میں افسروں نے استقبال کیا اوردیر تک قیام کرکے بیت المقدس کا معاہدہ صلح ترتیب دیا،پھر وہاں سے روانہ ہوکر بیت المقدس میں داخل ہوئے، پہلے مسجد میں تشریف لے گئے پھر عیسائیوں کے گرجا کی سیر کی،نماز کا وقت ہوا تو عیسائیوں نے گرجا میں نمازپڑھنے کی اجازت دی ؛لیکن حضرت عمرؓ نے اس خیال سے کہ آئندہ نسلیں اس کو حجت قراردے کر مسیحی معبدوں میں دست اندازی نہ کریں، باہر نکل کر نماز پڑھی،(فتوح البلدان بلاذری : ۱۴۷) بیت المقدس سے واپسی کے وقت حضرت عمر ؓ نے تمام ملک کا دورہ کیا،سرحدوں کا معائنہ کرکے ملک کی حفاظت کا انتظام کیا اوربخیر وخوبی مدینہ واپس تشریف لائے۔ متفرق معرکے اورفتوحات بیت المقدس کی فتح کے بعد بھی متفرق معرکہ پیش آئے، اہل جزیرہ کی مستعدی اورہر قل کی اعانت عیسائیوں نے دوبارہ حمص پر قبضہ کی کوشش کی ؛لیکن ناکام رہے،فلسطین کے اضلاع میں قیساریہ نہایت آباد اور پررونق شہرتھا، ۱۳ھ میں عمروبن العاص ؓ نے اس پر چڑھائی کی، ۱۸ ھ ء تک متواترحملوں کے باوجود فتح نہ ہوسکا، آخر ۱۸ ھ کے اخیر میں امیر معاویہ ؓ نے ایک یہودی کی مدد سے قلعہ پر قبضہ کرلیا اور شہر پر اسلامی پرچم لہرانے لگا،جزیرہ پر ۱۶ھ میں عبداللہ بن الغنم نے فوج کشی کی،تکریت کا ایک مہینہ تک محاصرہ رہا اورچوبیس دفعہ حملے ہوئے،آخر میں حسن تدبیر سے مسخر ہوا، باقی علاقوں کو عیاض بن غنم نے فتح کیا، اسی طرح ۱۶ھ میں مغیرہ بن شعبہ نے خوزستان پر حملہ کیا، ۱۷ ھ میں وہ معزول ہوئے اور ان کی جگہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ مقرر ہوئے، انہوں نے نئے سروسامان سے حملہ کیا اوراہواز،مناذر،سوس،رامہرز کوفتح کرتے ہوئے خوزستان کے صدر مقام شوسترکارخ کیا، یہ نہایت مستحکم اور قلعہ بند مقام تھا؛لیکن ایک شخص کی راہنمائی سے مسلمانوں نے تہ خانہ کی راہ سے گھس کر اس کو مسخر کرلیا، یہاں کا سردار ہر مزان گرفتار ہوکر مدینہ بھیجا گیا،وہاں پہنچ کر اس نے اسلام قبول کیا،(عقد الفرید ابن عبدربہ باب الکیدہ فی الحرب) حضرت عمر ؓ نہایت خوش ہوئے، خاص مدینہ میں رہنے کی جازت دی اور دوہزار سالانہ مقرر کردیا۔ فتوحات مصر حضرت عمر وبن العاص ؓ نے بہ اصرار فاروق اعظم ؓ سے اجازت لے کر چار ہزار فوج کے ساتھ مصر پر حملہ کیا اورفرما،بلیبس،ام ونین وغیرہ کو فتح کرتے ہوئے فسطاط کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا اورحضرت عمر ؓ کو امدادی فوج کے لئے لکھا، انہوں نے دس ہزار فوج اورچارافسر بھیجے، زبیر بن العوام ؓ، عبادہ بن صامت ؓ، مقدادبن عمر ؓ،سلمہ بن مخلد ؓ،حضرت عمر وبن العاص ؓ نےحضرت زبیرؓ کو ان رتبہ کےلحاظ سےافسربنایا سات مہینے کےبعد حضرت زبیر ؓ کی غیر معمولی شجاعت سے قلعہ مسخر ہوا اوروہاں سے فوجیں اسکندریہ کی طرف بڑھیں،مقام کربوں میں ایک سخت جنگ ہوئی،یہاں بھی عیسائیوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے اسکندریہ پہنچ کر دم لیا اورچند دنوں کے محاصرہ کے بعد اس کو بھی فتح کرلیا، حضرت عمر ؓ نے مژدۂ فتح سنا تو سجدہ میں گرپڑے اورخدا کا شکر اداکیا۔(مقریزی)فتح اسکندریہ کے بعد تمام مصر پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا اور بہت سے قبطی برضاو رغبت حلقہ بگوشہ اسلام ہوئے۔