انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عیسائی مقبوضات کی تفصیل اب عیسائی مقبوضات کا حال سنو،سب سے قریب جنوبی مشرقی ساحل کے متصل ایک پہاڑی علاقہ ابن حفصون کے قبضے میں تھا،جو عیسائی ہوگیا تھا اور اس کے رفیق سب عیسائی لوگ ہی باقی رہےگئے تھے،لہذا یہ ایک عیسائی ریاست تھی جو ابن حفصون کی تجربہ کاری کے سبب ایک زبرست عیسائی طاقت سمجھی جاتی تھی،مگر اس سے صلح ہوگئی تھی طلیطلہ ایک نہایت مضبوط مقام تھا جس کا فتح کرنا آسان کام نہ تھا ،یہاں سلطان عبداللہ کے زمانے میں خود مختار ریاست قائم ہوگئی تھی اور اب اس کا دربار قرطبہ سے کوئی رسمی تعلق باقی نہ رہا تھا،یہ ریاست ملک اندلس کے وسط میں واقع تھی اور ایک زبردسی عیسائی طاقت تھی ،برشلونہ:یہاں عرصہ دراز سے عیسائی حکومت قائم تھی،اربونیہ:میں بھی ایک مستقل عیسائی سلطنت قائم ہوچکی تھی ،نوار، اربونیہ کے متصل ہی ایک زبردست ریاست فرانسیسیوں نے قائم کرلی تھی ،ایسٹریاس کی ریاست اب ایک زبردست سلطنت کی شکل میں تبدیل ہوکر اندلس کے میدانوں میں دوردور تک پھیل گئی تھی جس کے ماتحت جلیقیہ ،لبون اور قسطلہ کی تین زبردست عیسائی ریاستیں تھیں۔ ان کے علاوہ ساحل بحر ظلمات پر پرتگال کے علاقے میں کئی کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں عیسائیوں نے قائم کرلی تھیں جو ریاست جلیقیہ کے ماتحت سمجھی جاتی تھیں یہ وہ عیسائی مقبوضات تھے جو جزیرہ نمائے اندلس کے حدود میں تھے باقی جنوبی ومشرقی فرانس اور مغربی فرانس اور شمالی فرانس کی عیسائی سلطنتیں ان کے علئاوہ تھیں جو سلطنت اسلامیہ اندلس کی مخالفت پر کمر بستہ تھیں سلطنت اسلامیہ کی حدود کا ایک کونہ جو شمال کی جانب نکلا ہوا تھا وہ صرف سرقسطہ کا ضلع تھا جہاں مسلمان عامل حکمران تھا مگر اس کے تعلقات عیسائیوں سے دوستانہ تھے اور اس لیے قابل اعتراض نہ تھے کہ سلطان عبداللہ اور الفانسو سوم بادشاہ ایسٹریاس سے دوستانہ صلح نامہ ہوگیا تھا جو اب تک قائم تھا اور اب کسی فریق نے اس کی خلاف ورزی میں اقدام نہیں کیا تھا۔ سلطان عبدالرحمن ثالث نے چند ہی سال میں تمام باغیوں سے فراغت حاصل کرکے طلیطلہ پر فوج کشی کی ،فوج کشی سے پہلے سلطان نے اہل طلیطلہ کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارے لیے اب مناسب یہی ہے کہ اطاعت وفرماں برداری سے انحراف نہ کرو اور ہواخواہاں سلطنت کے زمرہ میں شامل ہوجاؤ اہل طلیطلہ نے اس پیغام سلطان کا سختی کے ساتھ انکاری جواب دیا اور جس قدر وہ مقابلہ کے لیے تیاری کرسکتے تھے کی اور اردگرد سے عیسائی فوجوں کو بلایا برشلونہ نوار اورایسٹریاس سے امداد طلب کی پادری لوگوں نے ہر جگہ عیسائیوں کوطلیطلہ کے بچانے کے لیے جوش دلایا آخر سلطان عبدالرحمن ثالث بڑی احتیاط اور ماآل اندیشی سے ساتھ طلیطلہ کی جاب بڑھا جنگ وپیکار اور معرکہ آرائیوں کا سلسلہ جاری ہوا قریباً سال بھر کی کوشش وکشمکش کے بعد سسلطان نے طلیطل کو فتح کرلیا مفتوحین کے ساتھ نرمی ملاطفت اور عفو درگزر کابرتاؤ کیا اور چند مہینے طلیطلہ میں رہ کر اور وہاں کے تمام ضروری انتظامات سے فارغ ہوکر قرطبہ کی جانب واپس آیا۔ فتح طلیطلہ کا اثر عیسائی سلاطین پر یہ ہوا کہ انہوں نے اسلامی مقبوضات پر حملہ کرکے کئی شہروں کو تباہ وبرباد کردیا ،سلطان نے احمد بن اسحاق وزیرالسلطنت کو اس طرف روانہ کیا اس نے ریاست لیون پر حملہ کیا اور عیسائیوں کو متعدد شکستیں دےکر پیچھے ہٹایا آخر ایک لڑائی میں وزیر سلسلطنت امحد بن اسحاق شہید ہوا سلطان نے اپنے خادم بدر کو بھیجا بدر کے مقابلہ پر ریاست نوار لیون وغیرہ کی متفقہ فوجیں آئیں اور معرکہ کارزار گرم ہوا بدر نے شکست دےکر سب کوبھگادیا اس کے بعد ہی سلطان عبدالرحمن ثالث خود فوج لےکر عیسائیوں کی بد عہدی اور سرکشی کی سزا دینے پہنچا اور فتح کرتا ہوا حدود فرانس میں داخل ہوا نوار واربونیہ کی ریاستوں نے اظہار اطاعت کرکے سلطان کو واپس کیا اور سلطان کے واپس ہوتے ہی تمام شمالی عیسائیوں نے آپس میں مسلم کشی کے لیے اتحاد واتفاق کے عہود کی تجدید کی یہ ۳۱۳ھ مے واقعات ہیں ،ابی سلطان عبدالرحمن بلاد شمالی ہی میں مصروف قتال تھا کہ اس کے پاس عمر بن حفصون کے مرنے کی خبر پہنچی عمر بن حفصون اپنی تجربہ کاری وہوشیاری کے اعتبار سے بہت بڑا آدمی بن گیا تھا اس کی طرف س ہمیشہ خطرہ رہتا تھا سلطان نے واپس قرطبہ پہنچ کر اس کی ریاست کو ضبط کرنا اور براہ راست مقبوضات سلطانی میں شامل کرنا مناسب نہ سمجھ کر عمر بن حفصون کے بیٹے جعفر کو وائیٔ ریاست بنادیا آخر ۳۱۱۵ھ میں یہ ریاست معدوم ہوکر تمام علاقہ مسبوضات سلطانی میں شامل ہوا ۔ ادطر سلطان عبادلرحمن ثالث اپنے آبائی ملک کو باغیوں کے قبضے سے واپس لینے میں کامیاب ہوا ادھر شمال وجنوب دونوں جانب اس کے لیے قدرتی طور پر بہتری کے سامان پیدا ہوئے ،عبدالرحمن ثالث کو شمال کی جانب عیسائیوں کے حملے کا اندیشہ تھا کیونکہ وہ بحر روم سے بحر ظلمات تک جزیرہ نما کے تمام شمالی حصہ پر قابض ومتصرف تھے اور اب بجائے عباسیوں کے عبیدیین کی طرف سے ان کی ہمت افزائی ہورہی تھی ان کے دلوں پر مسلمانوں کی وہ ہیبت ابطاری نہ رہی تھی جو طارق وموسی کی آمد کے وقت طاری ہوئی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اب پہلے کی طرح بہادر وباہمت نہ رہے تھے اور عیاسئیوں نے بہت کچھ بہادری جفا کشی میں ترقی کرلی تھی لہذا شمالی خطرہ نہ تھا جنوب کی جانب عبیدیین کی طاقت بہت زبردست ہوگئی تھی اور وہ براعظم افریقہ کے تمام شمالی حصے پر مستولی ہوکر مراقش کی حکومت اور ادریسییہ کا نام ونشان گم کرنے اور اندلس کی فتح کاعزم رکھتے تھے ،سلطان عبدالرحمن ثالث کو بیک وقت دونوں جانب سے اطینان حاصل ہوگیا تفصیل اس اجمال کی یہ کہ: