انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت فروہ ؓبن مسیک نام ونسب فروہ نام، ابو سبرہ کنیت،نسب نامہ یہ ہے فروہ بن مسیک بن الحارث بن ذويد بن مالك بن منبه بن غطيف بن عبد الله بن ناجية بن مراد فروہ یمن کے باشندے اوراپنے قبیلہ کے معزز اورمقتدر لوگوں میں تھے،زمانہ جاہلیت میں ان کے قبیلہ مراد اور ھمدان کے درمیان نہایت خون ریز جنگ ہوئی تھی،جو "یوم دارم" کے نام سے موسوم ہے،اس جنگ میں قبیلہ مراد کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا،فروہ اس سے سخت متاثر ہوئے اوراس تاثر میں یہ اشعار کہے: فلو خلد الملوک اذاً خلدنا ولوبقی الکرام اذاً بقینا ترجمہ:اگر بادشاہ ہمیشہ رہنے والے ہوتے تو ہم بھی ہمیشہ رہتے اوراگر اچھے لوگ ہمیشہ باقی رہنے والے ہوتے تو ہم بھی باقی رہتے۔ اسلام اوراشاعتِ اسلام ۱۰ھ میں سلاطینِ کندہ کا دربار چھوڑ کر شہنشاہ کونینﷺ کے آستانہ پر حاضر ہوئے،آنحضرتﷺ نے پوچھا، فروہ میں نے سنا ہے کہ تم کو اپنی قوم کی شکست کا بڑا صدمہ ہے،عرض کی یا رسول اللہ وہ کون شخص ہے جس کی قوم مصیبت میں مبتلا ہوئی ہو اور اس کو اس سے تکلیف نہ پہنچی ہو،آپ نے فرمایا اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوا، بلکہ اس شکست نے اسلام میں تمہاری قوم کو فائدہ ہی پہنچایا،قبول اسلام کے بعدآنحضرتﷺ نے ان کو مراد ،زبید اورمذحج کا عامل بنایا، اورسعید بن العاص کو ان کا شریک کار مقرر فرمایا۔ (ابن سعد) چلتے وقت فروہ نے آنحضرتﷺ سے اجازت طلب کی کہ یا رسول اللہ میری قوم میں جو شخص قبول اسلام سے انکار کرے ،اس کا میں ان لوگوں کی مدد سے جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے،مقابلہ کرسکتا ہوں؟ آپ نے اجازت مرحمت فرمائی، یہ اجازت لیکر وطن لوٹ گئے،ان کی واپسی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے پوچھا غطیفی (فروہ) کہاں ہیں ،معلوم ہوا جاچکے، آپ نے فوراً آدمی دوڑاکر انہیں واپس بلوایا، اورہدایت فرمائی کہ تم اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دینا،جو لوگ آمادہ ہوں انہیں مسلمان بنانا اور جو انکار کریں ان کے بارہ میں میری دوسری ہدایت کا انتظار کرنا، (اسد الغابہ:۴/۱۸۰) اس ہدایت کے ساتھ اپنے وطن پہنچے اوراپنے قبیلہ کی رشد وہدایت میں مشغول ہوگئے۔ فتنۂ ارتداد حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب ارتداد کا فتنہ اٹھا، تو ان کے قبیلہ کا ایک مقتدر رئیس عمروبن معد یکرب بھی اس کا شکار ہوگیا،فروہ نے اس کی ہجو میں اشعار کہے۔ (اصابہ:۵/۲۰۹) فضل وکمال گو فروہ بالکل آخری زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے،تاہم حدیث کی کتابیں ان کی مرویات سےخالی نہیں،اور ابو داؤد اورترمذی میں ان کی روایتیں موجود ہیں،شعبی اور ابو سبرہ نخعی ان کے رواۃ میں ہیں۔ (تہذیب الکمال:۳۰۸)