انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فسق راوی اورمظنہ جہالت قرآن کریم میں ہے: "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَافَعَلْتُمْ نَادِمِينَ"۔ (الحجرات:۶) ترجمہ:اے ایمان والو! اگرکوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے توتحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہوکہ کسی قوم پر نادانی سے جاپڑا اور کل اپنے کیئے پر پچھتانے لگو۔ قرآن کریم کی اس آیت سے تین اہم باتیں معلوم ہوئیں: (۱)ایک یہ کہ فاسق کی روایت از خود حجت نہیں۔ (۲)دوسرے یہ کہ فاسق کی روایت کلیۃً واجب الرد بھی نہیں؛ بلکہ مزید لائقِ تحقیق ہے۔ (۳)تیسرے یہ کہ خبرِواحد قابلِ قبول ہے؛ بشرطیکہ اسے نقل کرنے والا فاسق نہ ہو، یہ تب اگرمفہوم مخالف کا اعتبار کیا جائے؛ اگرخبرِواحد معتبر نہ ہوتی تووجہ تبین صرف فسق نہ ہوتا، راوی کا ایک ہونا بھی مزید تائید کا محتاج ہوتا۔ اس آیت کی رُو سے کسی خبر کے بارے میں دوباتیں موجب جرح ہیں: (۱)راوی کا فسق (۲)صورتِ واقعہ سے بے خبری، جہاں راوی کی دیانت اور اصل بات کی یاد (حفظ وثبت) قائم ہو وہاں خبر جرح سے محفوظ اور قابلِ قبول سمجھی جائے گی، محدثین کرام کے نزدیک روایت کی تحقیق اور پڑتال کے انداز بہت ہیں؛ لیکن ان سب کا اجمال یہ ہے کہ حدیث روایت کرنے والا راوی مخلصانہ دیانت Sincere righteousness اور اچھی یادداشت Strong Memory رکھتا ہو، جہاں حافظہ کمزور ہوگا یادداشت مشتبہ ہوگی، روایت کمزور پڑتی جائے گی۔ آیتِ مذکورہ بالا اگرچہ ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے؛ لیکن اس کا حکم عام ہے اور حدیث قبول کرنے کے بارے میں محدثین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ فاسق کی روایت قابلِ قبول نہیں؛ مزیدتحقیق سے اسے قبول کرلیا جائے تویہ امردیگر ہے، حضرت امام مسلمؒ اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں: "أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ عَرَفَ التَّمْيِيزَ بَيْنَ صَحِيحِ الرِّوَايَاتِ وَسَقِيمِهَا..... وَأَنْ يَتَّقِيَ مِنْهَا مَاكَانَ مِنْهَا عَنْ أَهْلِ التُّهَمِ وَالْمُعَانِدِينَ مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الَّذِي قُلْنَا مِنْ هَذَا هُوَ اللَّازِمُ دُونَ مَاخَالَفَهُ قَوْلُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا﴾ ..... أَنَّ خَبَرَ الْفَاسِقِ سَاقِطٌ غَيْرُ مَقْبُولٍ"۔ (مقدمہ صحیح مسلم:۱/۶) ترجمہ: ہرایک کے ذمہ واجب ہے جوصحیح اور کمزور روایات میں فرق جان سکے کہ..... اور جوبات اہلِ تہمت اور معاند اہلِ بدعت سے مروی ہو اس سے بچے اور جس چیز کوہم نے اوروں کے موقف کے خلاف لازم ٹھہرایا ہے اس پر دلیل اللہ تبارک وتعالی کا یہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! اگرتمہارے پاس کوئی فاسق ایک روایت لے کر آئے تواس کی تحقیق کرلیا کرو..... بے شک فاسق کی خبرازخود ساقط اور غیرمقبول ہے۔ امام بخاریؒ "باب ماجاء فی اجازۃ الخبرالواحد الصدوق" میں لکھتے ہیں: "وقولہ تعالیٰ ان جاءکم فاسق بنبا فتبینوا وکیف بعث النبی امرأہ واحدًا بعد واحد"۔ (صحیح بخاری:۹/۱۰۷) ترجمہ: اورقول خداوندی ہے؛ اگرتمہارے پاس کوئی فاسق ایک خبرلے کر آئے تواسے تحقیق کرلیا کرو اور حضورﷺ نے اپنے امیرکس طرح ایک کے بعد ایک بھیجے۔ نوٹ:ایک شخص کی روایت اگرلائقِ قبول نہ ہوتی توحضورﷺ کبھی ایک ایک شخص کواپنے احکام دے کر کہیں نہ بھیجتے اور نہ ایک فاسق کی خبر پر مزید تحقیق کی ضرورت سمجھی جاتی، شیعہ محدثین نے بھی حدیث کے بارے میں اس آیت سے استدلال کیا ہے، ملاتقی مجلسی (۱۰۷۰ھ) "من لایحضرہ الفقیہہ” کی شرح "لوامع صاحبقرانی المسمّٰی بہ شرح الفقیہ” میں لکھتے ہیں: "اس سے واضح ہے کہ شخص واحد کی خبراس کے فاسق ہونے کے باوجود بھی معتبر اور حجت ہونے کی شان رکھتی ہے؛ بشرطیکہ تحقیق میں آجائے اور حجت بھی ایسے اہم معاملات میں جن کے بگڑ جانے کی صورت میں ندامت اُٹھانی پڑے جوکسی اہم اور بڑے ہی معاملہ کی شان ہوتی ہے، حاصل یہ نکلا کہ شخص واحد کی خبر بھی قرآنی اُصول پر قابلِ رد یاغیر معتبر نہیں؛ بلکہ تبیین وتحقیق کے بعدمعتبر اور بڑے بڑے معاملات میں حجت ہوتی ہے، جس پر دیانتًا معاملہ کا فیصلہ ہوجاتا ہے، روکا اگرگیا ہے توقبل ازتحقیق اس پر عمل کرنے سے نہ کہ مطلقاً؛ ورنہ یوں کہا جاتاکہ فاسق اگرکوئی خبرلائے توہرگزاس کی بات کا اعتبار مت کرو؛ ورنہ یہ کہ تحقیق کے بعد اسے مان لو اور معتبر سمجھو؛ پس تحقیق کی شرط اس لیے لگائی کہ خبردہندہ اور روایت کنندہ کے فسق وفجور سے اس کی خبر میں جوبےاعتباری کی گنجائش پیدا ہوگئی تھی وہ ختم ہوجائے اور خبرقابلِ اعتبار ہو جائے؛ مگرخبربہرحال وہ ایک ہی کی رہے گی، اس لیے صاف ثابت ہوا کہ ایک کی روایت معتبر اور معاملات میں حجت ہے، اب اگر خبردینے والا فرد فاسق بھی نہ ہو؛ بلکہ غیرمجروح ہو جیسے رَجُل یَّسْعٰی کی خبر تووہ بلاتبیین بھی اس اُصول سے قابلِ قبول بن سکتی ہے اور اگرراوی غیرمجروح ہونے کے ساتھ عادل ومتقی متدین اور امین ہو، جیسے ملائکہ وانبیاء اور صلحاء تواس اُصول پر اس کی بلاواسطہ خبرکومعتبر ماننے کے لیے قطعا تبیین وتحقیق کی ضرورت نہیں رہنی چاہیے؛ لیکن اگروسائط کی وجہ سے اس پر بھی تحقیق وتبیین کرلی جائے توپھر تویہ خبربطریق اولیٰ واجب الاعتبار بن جائے گی؛ مگربہرصورت رہے گی خبر فرد ہی؛ اس لیے خبرفرد جسے خبرغریب بھی کہتے ہیں قرآن کی رو سے معتبر اور حجت ثابت ہوگئی؛ گواس کی حجیت درجۂ ظن ہی کی حد تک ہوکر ظنیات بھی شرعاً حجت اور معاملات میں قانوناً مؤثر ہوتے ہیں؛ کیونکہ ظنیات کے معنی وہمیات کے نہیں؛ بلکہ صرف اس کے ہیں کہ خبر پر وثوق واعتماد کے ساتھ جانب مخالف کا احتمال بھی باقی رہے نہ یہ کہ اصل خبر بے اعتبار اور قابلِ رد ہوجائے؛ البتہ اس کے ساتھ اس راوی واحد کی جوثقہ اور عادل ہے تحقیق بھی کرلی جاے، یعنی اس خبر کے متابعات، مؤیدات اور شواہد وقرائن بھی فراہم ہوجائیں توپھراس خبرفرد سے ظن اس حد تک بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یقین کی سرحد سے جاملے اور ایسی خبراگرقطعیت کے ساتھ درجۂ یقین تک نہ پہنچے گی توشبۂ یقین تک ضرور پہنچ جائے گی، جس کا نام اصطلاح میں غلبۂ ظن ہے؛ سوایسی خبراصول وآئین کی رو سے نہ رد کی جاسکتی ہے نہ غیرمعتبر ٹھہرائی جاسکتی؛ بلکہ بعد تبیین اُسے معتبر قرار دیتا ہے توایک ثقہ اور عال کی خبر کواس قرآنی اصول کی روشنی میں کیسے ردکیا جاسکتا ہے؟ اس لیے خبر فرد اور اس کی حجیت کا ثبوت آیاتِ بالا سے بہت کافی وضاحت کے ساتھ ہوجاتا ہے"۔ (مقدمہ فضل الباری:۱/۹۶)