انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ترک ومغول وتاتار،ایک شبہ کا ازالہ تاریخ پڑھنے والے طالب علم کو تاریخی کتابوں کے مطالعہ میں سب سے بڑی دقّت یہ پیش آتی ہے کہ وہ ترک ،مغل، تاتار،ترکمان،قراتا تار وغیرہ قوموں میں نہ امتیاز کرسکتا ہے نہ ان کی تفریق اوراصلیت سے واقف ہوسکتا ہے،وہ کبھی تاریخ میں پڑھتا ہے کہ سلجوقی لوگ مثلاً الپ ارسلان وطغرل بیگ ترک تھے،پھر وہ چنگیز خاں کی نسبت پڑھتا ہے کہ وہ مغل تھا،دوسری جگہ اسی کی نسبت پڑھتا ہے کہ وہ ترک تھا پھر چنگیز خاں کے فتنہ کو وہ فتنۂ تاتار کے نام سے موسوم دیکھ کر قیاس کرتا ہے کہ مغل، ترک اور تاتار ایک ہی قوم کا نام ہے،لیکن آگے چل کر وہ مغلوں اور ترکوں کی مخالفت اور لڑائیوں کا حال پڑھتا ہے جس سے یقین ہوتا ہے کہ مغل اور ترک دو الگ الگ قومیں ہیں،پھروہ ہندوستان کے مغلوں کی تاریخ پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے،پھر دیکھتا ہے کہ مغلوں کو مرزا کہا جاتا ہے اوراُن کے نام کے ساتھ بیگ کا خطاب ضرور ہوتا ہے،دوسری دوسری طرف تیموربایزید کو برسرِ پیکار دیکھتا ہے،مگر ایران کے بادشاہوں کے نام تاریخ میں پڑھتا ہے تو وہاں بھی مرزا کا لفظ اُن کےساتھ ہوتا ہے ،دوسری طرف ترکان عثمانی کے یہاں بھی بک یا بے یا بیگ کا خطاب موجود پایا جاتا ہے،یورپی مورخین کبھی کبھی ہندوستان کی سلطنتِ مغلیہ کو ترکی سلطنت کے نام سے یاد کرتے ہیں، غرض مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترکوں اور مغلوں کی تفریق کے متعلق ایک بیان اس جگہ درج کیا جائے تاکہ تاریخ کے مطالعہ کرنے والے کو معاملات اورواقعات کے سمجھنے میں آئندہ آسانی ہو۔