انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عامر بن ربیعہؓ نام،نسب عامرنام،ابو عبداللہ کنیت اوروالد کا نام ربیعہؓ تھا،پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عامر ابن ربیعہ بن کعب مالک بن ربیعہ بن عامربن سعد بن عبداللہ بن الحارث بن رفیدہ بن عنزبن وائل۔ ان کے سلسلہ نسب میں سخت اختلاف ہے تاہم اربابِ سیر عام طور پر ان کو عنزی لکھتے ہیں عنزوائل کے لڑکے اوربکروتغلب کے بھائی تھے جن کی خونریز معرکہ آرائیاں اب تک زبان زد خاص وعام ہیں۔ (اسد الغابہ:۳ /۸۰) ان کا خاندان حضرت عمرؓ کے والد خطاب کا حلیف تھا جنہوں نے فرطِ محبت سے حضرت عامرؓ کو متبنیٰ کرلیا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے عامر بن الخطاب کے نام سے مشہور تھے؛ لیکن جب قرآن شریف نے ہر ایک کو اپنے اصلی آباء واجداد کی طرف انتساب کا حکم دیا تو اس زمانہ سے حضرت عامرؓ بھی خطاب کے بجائے اپنی نسبی والد ربیعہ کی نسبت سے زبان زد ہوئے۔ (طبقات ابن سعد قسم ۱جز ۳:۲۸۱) اس حلیفانہ تعلق کے باعث حضرت عامرؓ اورحضرت عمرفاروقؓ میں بھی آخر وقت تک نہایت دوستانہ تعلقات قائم رہے، حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کا سفر کیا تو یہ ہمرکاب تھے اسی طرح جس سال حضرت عثمانؓ کو اپنا جانشین کرکے حج کے لیے تشریف لے گئے تو اس سفر میں بھی ان کو اپنا رفیق بنایا۔ (اصابہ: جلد ۲/۳۴۶) اسلام حضرت عامربن ربیعہؓ ان خوش نصیب بزرگوں میں ہیں جنہوں نے ابتدا ہی میں داعیِ توحید ﷺ کو لبیک کہا تھا، اس وقت تک آنحضرت ﷺ ارقم بن ابی الارقمؓ کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئےتھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ۳:۲۸۱) ہجرت شرک وتوحید کی کشاکش اورکفار کے دست تظلم نے ان کو بھی مکہ میں چین سے رہنے نہ دیا، دو دفعہ اپنی زوجہ محترمہ حضرت لیلیٰ بنت ابی حشمہ ؓ کو ساتھ لے کر امن و اطمینان کی تلاش میں ملک حبش تشریف لے گئے، پھر وہاں سے واپس آکر سرزمین یثرب کی راہ لی،ان کا بیان ہے کہ اس وقت تک صرف حضرت ابو سلمہ ؓ بن عبدالاسد مدینہ پہنچے تھے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ان سے پہلے چند اور حضرات بھی پہنچ چکے تھے، البتہ ان کی بیوی حضرت لیلی بنت حشمہؓ کو عورتوں میں اولیت کاشرف حاصل ہے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ۳:۲۸۲) غزوات بدر،احد،خندق اورتمام دوسرے غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مہمات میں بھی شریک ہوئے اور نہایت جفاکشی وجان کاہی سے اعلاء کلمتہ اللہ کا فرض انجام دیا، اپنے صاحبزادہ حضرت عبداللہ بن عامرؓ سے اکثر فخر ومباہات کے ساتھ ان شاندار کارناموں کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے، ایک روز اثنائے گفتگو میں بولے کہ "رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کو مہمات پر بھیجتے تھے اور عسرت وناداری کے باعث سامانِ رسد میں صرف تھوڑی سی کھجوریں ساتھ کردیتے جو پہلے ایک ایک مٹھی سب کو ملتی تھی، اس کے بعد کم ہوتے ہوتے صرف ایک ایک کھجور کی نوبت آجاتی تھی، حضرت عبداللہ ؓ نے متعجب ہوکر پوچھا، ایک ایک کھجور سے کس طرح کام چلتا ہوگا؟ فرمایا جانِ پدر ایسا نہ کہو بسا اوقات جب کھجوریں ختم ہوجاتی تھیں تو ہم لوگ اس ایک کھجور کے لیے بھی ترس جاتے تھے۔ (مسند ابن حنبل جلد ۳ :۴۴۶) شورش سے کنارہ کشی اوروفات حضرت عثمانؓ کے آخری عہد خلافت میں جب فتنہ وفساد کا بازار گرم ہوا تو حضرت عامر بن ربیعہؓ نے غایت تقویٰ کے باعث عزلت نشینی اختیار کرلی، دن رات روزہ ،نماز اوردرود وظائف میں مشغول رہتے، ایک رات دیر تک مصروفِ عبادت رہے، یہاں تک کہ اسی حالت میں آنکھ لگ گئی تو خواب میں بشارت ہوئی اُٹھ خدا سے دعاکر کہ وہ تجھے اس فتنہ سے بچائے،جس سے اس نے اپنے دوسرے نیک بندوں کو محفوظ رکھا ہے، حضرت عامرؓ اسی وقت اُٹھ بیٹھے اور دوگانہ ادا کرکے نہایت خشوع وخضوع سے بارگاہِ رب الحاجات میں دست بدعا ہوئے، غرض اس بشارت غیبی نے ان کی گوشہ نشینی کو پہلے سے زیادہ سخت کردیا اوراس کے بعد ان کو کسی نے گھر سے باہر نکلتے بھی نہ دیکھا، یہاں تک کہ اسی حالت میں بیمار ہوئے اور حضرت عثمانؓ کی شہادت کے چنددنوں بعد وفات پائی، عزلت نشینی کے باعث لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ کب بیمار ہوئے ؟ اورکب وفات پائی،یکایک جنازہ پر نظر پڑی تو سب متحیررہ گئے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ۳:۲۸۲) اخلاق قدامت ایمان اوررسولِ خدا ﷺ کے شرفِ صحبت نے ان کو اخلاقِ کریمانہ سے آراستہ کردیا تھا، گذشتہ بالامختصر واقعات سے ان کی جفاکشی ،تقویٰ اورزہد کا اندازہ ہوا ہوگا۔