انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ولید بن ولیدؓ نام ونسب ولید نام ،سلسلہ نسب یہ ہے،ولید بن ولید بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمربن مخزوم القرشی، مشہور صحابی خالدبن ولیدؓ اورآپ ایک ہی ماں کے بطن سے تھے۔ (استیعاب:۲/۶۱۹) بدر کی شرکت اور گرفتاری بدر میں مسلمانوں کے مخالف مشرکین کے ساتھ لڑنے نکلے اور شکست کھا کر عبداللہ بن جحش کے ہاتھوں گرفتار ہوئے،دونوں بھائی خالد بن ولیدؓ اورہشام بن ولید چھڑانے کے لیے آئے،حضرت عبداللہ بن جحش نے چار ہزار زرفدیہ طلب کیا، خالدؓ کو اتنی بڑی رقم دینے میں تردد ہوا، ہشام نے کہا تم کو کیا لاگ ہوگی، تم تو ان کے بھائی ہو نہیں، اگر عبداللہ اس سے بھی زیادہ مانگیں تو بھی چھڑانا ہے،دوسری روایت یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے رہائی کے معاوضہ میں نقد کے بجائے ان کے والد کی زرہ،تلوار اورخود طلب کی، مجبوراً یہ قیمت بھی ادا کی اور گلو خلاصی کے بعد بھائیوں کے ساتھ گھر روانہ ہوگئے،ذوالحلیفہ پہنچ کر بھاگ آئے اورآنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوگئے،دوبارہ جب بھائی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا،جب تم کوا سلام ہی لانا تھا تو پھر فدیہ کے قبل کیوں نہ مسلمان ہوگئے، خواہ مخواہ والد کی نشانیاں بھی ضائع ہوئیں اور کوئی نتیجہ نہ نکلا، کہا اس وقت اس لیے اسلام نہیں لایا کہ میں بھی اپنے قبیلہ کے لوگوں کی طرح فدیہ دے کر آزاد ہونا چاہتا تھا، تاکہ قریش کو یہ طعنہ دینے کا موقع نہ ملے کہ ولید فدیہ کے ڈر سے مسلمان ہوگیا۔ قید محن اسلام لانے کے بعد مکہ لوٹ گئے،راستہ میں بھائیوں نے تو کوئی تعرض نہ کیا مگر مکہ پہنچ کر دوسرے بلا کشانِ اسلام کی طرح ان کو بھی قید کردیا اور عیاش بن ابی ربیعہؓ اورسلمہ بن ہشامؓ کے ساتھ طوق وسلاسل کی نگرانی میں دن کاٹنے لگے، بدر کے قبل آنحضرتﷺ عیاش اورسلمہ کے لیے دعا فرماتے تھے،بدر کے بعد جب ولید قید ہوئے تو ان کے لیے بھی دعافرمانے لگے۔ قید سے فرار عرصہ تک قید محن کی مصیبتیں جھیلتے رہے،ایک دن موقع پاکر نکل بھاگے اورسیدھے مدینہ پہنچے،آنحضرتﷺ نے عیاش اورسلمہ کا حال پوچھا ،عرض کیا ان پر بہت سختیاں ہورہی ہیں،ایک بیڑی میں دونوں کے پیر ڈال دیے گئے ہیں، فرمایا تم واپس جاؤ، وہاں کا لوہار اسلام قبول کرچکا ہے،اس کے یہاں ٹھہرو اورقریش کی آنکھ بچا کر خفیہ عیاش اورسلمہ کے پاس پہنچو اوران سے کہو کہ میں رسول اللہ ﷺ کا فرستادہ ہوں میرے ساتھ نکل چلو۔ ایک کارنامہ اس فرمان کے مطابق یہ مکہ پہنچے اور عیاش وسلمہ سے مل کر ان کو آنحضرتﷺ کا پیام سنادیا،یہ دونوں نکل کر ساتھ ہوگئے، قریش کو خبر ہوئی تو خالد بن ولید نے کچھ لوگوں کو لے کر تعاقب کیا، مگر ناکام رہے اوریہ مختصر قافلہ بخیر وخوبی مدینہ پہنچ گیا۔ (ابن سعد جزء۴،ق۱،:۹۷،۹۸،واستیعاب ترجمہ ولید بن ولید) عمرۃ القضا اورخالد کا اسلام عمرۃ القضا میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب تھے خالد اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے،اس لیے کہیں روپوش ہوگئے تھے؛کہ آنحضرتﷺ اورصحابہؓ کا سامنا نہ ہو، آپ نے ولیدؓ سے فرمایا اگر خالد میرے پاس آئے تو میں ان کا اعزاز واکرام کرتا، مجھ کو سخت تعجب ہے کہ ان کے ایسے زیرک ودانا شخص کے دل میں ابھی تک اسلام کا اثر نہیں ہوا؛چنانچہ ولید نے خالدؓ کو خط لکھا، اس خط سے انکا دل اسلام کی طرف مائل ہوگیا اوریہ میلان آئندہ چل کر اسلام کی شکل میں ظاہر ہوا۔ (اسد الغابہ:۵/۹۳) وفات وفات کے متعلق دو روایتیں ہیں،ایک یہ کہ جب سلمہ اورہشام کو چھڑاکر واپس ہورہے تھے تو مدینہ سے کچھ فاصلہ پر اس قسم کے صدمات پہنچے کہ مدینہ آتے آتے انتقال کر گئے ؛لیکن ارباب سیر کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ عمرۃ القضا میں موجود تھے،علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔ والصحیح انہ شھد مع رسول اللہ ﷺ عمرۃ القضاۃ اور عمرۃ القضا ۵ھ کے آخر میں ہوا اوراس روایت کی رو سے ان کا انتقال عمرۃ القضا سے دو سال پہلے ۵ھ میں ماننا پڑے گا؛کیونکہ ۲ھ کے آخر میں ایمان لائے اوراسلام کے بعد ہی بھائیوں نے قید کردیا، جس کی مدت زیادہ سے زیادہ دوسال ہوگی،رہائی کے بعد فوراً حضرت سلمہؓ اورہشامؓ کو چھڑانے گئے یہ کل مدت ۵ھ سے آگے نہیں بڑھتی ،دو سال حالت کفر کے ،ڈیڑھ سال قید کے اور زیادہ سے زیادہ دوچار مہینہ سلمہؓ اورہشام کے چھڑانے وغیرہ میں صرف ہوئے ہوں گے،ان سب کی مجموعی مدت ۵ھ سے آگے نہیں بڑہتی، اس لیے یہ روایت قطعا غلط ہے؛البتہ عمرۃ القضا کے بعد زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہے اوریہ مسلم ہے کہ ۸ھ کے اندر ہی آپ کا انتقال ہوگیا تھا۔ (ابن سعد،جز۴،ق۱:۹۸) ماں کی بیقراری آپ کے انتقال کے وقت آپ کی ماں زندہ تھیں، ان کے دل پر قیامت گذر گئی ،یہ دل دوزصدمہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھا، اس لیے آنحضرتﷺ نے ان کو ماتم کرنے کی مخصوص اجازت دیدی تھی اور وہ نہایت دل دوز لہجہ میں یہ مرثیہ پڑہتی تھیں جس کا ایک شعریہ ہے۔ یا عین فابکی للولید بن الولید بن الغیرہ کان الولید بن الوالید فتی العشیرۃ اے آنکھو!اس ولید کی یاد پر اشکبار ہو، جوشجاعت اوربہادری میں اپنے باپ کے مثل خاندان کا ہیروتھا۔ آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا یہ نہ کہو ؛بلکہ قرآن کی یہ آیت تلاوت کرو۔ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ (ق:۱۹) اورموت کی بیہوشی ضرور آکر رہے گی اس وقت کہا جائے گا کہ یہ وہ ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔