انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پانچواں الزام پانچواں الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ امیر معاویہؓ کا طرز حکومت نہایت جابرانہ تھا، لیکن عمومی حیثیت سے یہ الزام بھی صحیح نہیں،اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے کسی قدر تفصیل کی ضرورت ہے،امیر معاویہؓ کے زمانہ میں انقلاب پسندوں پر جوان کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے،بیشک سختیاں ہوئیں، لیکن امن پسند رعایا کے ساتھ ان کا طرز حکومت نہایت مشفقانہ تھا؛بلکہ حکومت کے ہوا خواہوں پر ہمیشہ ان کا اکرام برستا تھا امیر معاویہؓ بڑے مدبر اورعاقبت اندیش فرماں روا تھےاس لئے وہ کسی جماعت پر بلاوجہ ناروا ظلم کرہی نہیں سکتے تھے، رعایا پر نرمی اورسختی کے بارہ میں ان کا یہ اصول تھا: وقال سعيد بن العاص: سمعت معاوية يوماً يقول: لا أضع سيفي حيث يكفيني سوطي، ولا أضع سوطي حيث يكفيني لساني، ولو أن بيني وبين الناس شعرة ما انقطعت. قيل: وكيف، يا أمير المؤمنين؟ قال: كانوا إذا مدوها خليتها، وإذا خلوها مددتها. وكان إذا بلغه عن رجل ما يكره قطع لسانه بالإعطاء (تاریخ الیعقوبی،باب وفاۃ الحسن بن علی:۱/۲۰۴) سعید بن العاص بیان کرتے ہیں کہ امیر معاویہؓ کہتے تھے کہ جہاں میرا کوڑا کام دیتا ہے وہاں تلوار کام میں نہیں لاتا اورجہاں زبان کام دیتی ہے وہاں کوڑا کام میں نہیں لاتااگر میرے اورلوگوں کے درمیان بال برابر بھی رشتہ قائم ہوتو میں اس کو نہ توڑوں، لوگوں نے پوچھا امیر المومنین یہ کس طرح؟ جواب دیا :جب وہ لوگ اس کو کھینچیں تو میں ڈھیل دیدوں اورجب وہ ڈھیل دیں تو میں کھینچ لوں اورجب کسی آدمی کی کوئی ناگوار بات معلوم ہوتی تھی تو انعام واکرام کے ذریعے سے اس کی زبان بند کردیتے تھے۔ یہ صرف الفاظ ہی نہیں ہیں ؛بلکہ تاریخ اس کی صداقت پر لفظ بہ لفظ شاہد ہے کہ وہ حد درجہ حلیم المزاج تھےاورجب تک پانی سر سے اونچا نہ ہوجاتا تھا اس وقت تک وہ ضبط وتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے علامہ ابن طقطقی لکھتے ہیں کہ امیر معاویہ حلم کے موقع پر حلم سے اورسختی کے موقع پر سختی سے کام لیتے تھے، لیکن حلم کا پہلو غالب تھا، ایسی حالت میں امیر پر ظلم و ستم کا الزام لگانا کس حد تک صحیح ہے تاریخ سے ایک مثال بھی ان کے حلم کے خلاف نہیں پیش کی جاسکتی تھی۔ اس الزام کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امیر معاویہؓ کی ذات نہیں ؛بلکہ ان کے عمال اورحکام جابر تھے، تو کلمہ کی صورت میں یہ بھی صحیح نہیں ،یہ الزام بھی پولٹیکل اختلافات نے تراشا ہے ورنہ جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے عام دنیاوی فرمانرواؤں کی طرح ان کے عمال بھی کچھ فطرتاً سخت گیر اور جو رپسند تھے اورکچھ نرم دل اور متحمل مزاج تھے، سخت گیر عمال کی سختیاں ان کی طبعی سرشت کا نتیجہ تھیں،ان سے امیر کے طرز جہا نبانی کو کوئی تعلق نہیں،لیکن ان کی سختیاں بھی ان ہی لوگوں تک محدود تھیں، جو بنی امیہ کی حکومت مٹانا چاہتے تھے ،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے بعض بعض عمال کی سختیاں ناجائز حدود تک پہنچ جاتی تھیں،لیکن ایک دنیاوی حکومت کے لئے یہ کوئی بڑا الزام نہیں ہے، امیر معاویہؓ کے تمام عمال پر فرداً فردا ًبحث بہت طویل ہوجائے گی، اس لئے اس موقع پر مثالاً محض چند مشہور عمال کے طرز حکومت کے حالات پیش کئے جاتے ہیں، اس سے کچھ نہ کچھ ان کے عمال کے طرز حکومت کا اندازہ ہوجائے گا ،امیر کے عاملوں میں مغیرہ بن شعبہ، زیاد بن ابی سفیان ،عمرو بن العاص اوربسر بن ابی ارطاۃ زیادہ پولٹیکل تھے، اس لئے یہی لوگ مورد طعن بھی ہیں ۔ مغیرہ بن شعبہ کا حال یہ ہے کہ وہ پہلے حضرت علیؓ کے طرفدار تھے،مگر آپ نے ان کے خیر خواہانہ اورمفید مشوروں کو مسترد کردیا، اس لئے وہ امیر معاویہؓ کے ساتھ ہوگئے اوراسی لئے وہ بدنام ہیں ورنہ ان کے مظالم کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی مغیرہؓ حتی الامکان امیر معاویہؓ کے مخالفوں کے ساتھ بھی سختی نہ کرتے تھے اورسختی کے بجائے افہام و تفہیم سے کام لیتے تھے،خارجی جناب امیر کی طرح امیر معاویہؓ کے بھی دشمن تھے جب انہوں نے امیر کے حدود سلطنت میں سر اٹھایا تو مغیرہ نے جارحانہ کاروائی سے پہلے حسب ذیل تقریر کی: "لوگو! میں ہمیشہ تمہاری عافیت مد نظر رکھتا ہوں اورمصیبتوں کو تم سے روکتا ہوں مجھ کو خطرہ ہے کہ اس طرز عمل سے احمق بدآ موزنہ ہوجائیں ہاں اچھے اورحلیم اشخاص سے مجھے یہ امید نہیں ہے ،خدا کی قسم! مجھ کو خطرہ ہے کہ میں جاہل احمقوں کے ساتھ سنجیدہ بھلے اور ناکردہ گناہ آدمیوں کے مواخذہ پر مجبورنہ ہوجاؤں، اس لئے تم لوگ اس عام مصیبت کے آنے سے پہلے اپنے احمق لوگوں کو روکو" مغیرہ سے زیادہ جفا کار اور ستم شعار زیادہ کو سمجھا جاتا ہے اس کی جفاکاری اس حد تک کہ انقلاب پسندوں کے ساتھ اس کاظلم اعتدال سے زیادہ بڑھ جاتا تھا، ورنہ عام رعایا کے ساتھ اس کا طرز عمل بھی مشفقانہ تھا، اس کا اندازہ اس تقریر سے کیا جاسکتا ہے جو اس نے بصرہ کی گورنری کے تقرر کے وقت کی تھی: علامہ دنیوری لکھتے ہیں کہ جب زیاد بصرہ پہنچا تو جامع مسجد میں حمد وثنأ کے بعد حسب ذیل تقریر کی: "میرے اورقوم کے درمیان کینہ تھا لیکن آج میں نے اس کو اپنے پاؤں کے نیچے دبادیا، میں کسی سے محض عداوت کی بنا پر مواخذہ نہ کروں گا اورنہ کسی کی پردہ پوشی کروں گا تاآنکہ وہ خود میرے سامنے بے نقاب ہوجائے، بے نقاب ہونے کے بعد بھی میں اس کو نظر انداز کروں گا، تم میں سے جو محسن ہو اس کو اپنے احسان میں زیادتی کرنی چاہیے اورجو برا ہو اس کو اپنی برائیاں دور کرنی چاہیے ،خدا تم لوگوں پر رحم کرے تم لوگ اپنی اطاعت اورفرمانبرداری سے میری مدد کرو۔ (اخبار الطوال:۲۳۳) لیکن زیاد کی جفاکاری کا الزام امیر معاویہؓ کے سر منڈھنا صحیح نہیں ہے، اس نے جو زیادتیاں کیں وہ اس کی جبلی درشتی طبع کا نتیجہ تھیں؛چنانچہ جب وہ حضرت علیؓ کا طرفدار تھا اس وقت علی الاعلان امیر معاویہؓ کو نہایت سخت وسست کہتا تھا، جنگ صفین کے زمانہ میں یہ حضرت علیؓ کی جانب سے فارس کا حاکم تھا، امیر معاویہؓ نے اس کواپنے ساتھ ملانے کے لئے ڈرایا دھمکایا، اس کے جواب میں اس نے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کی کہ لوگو! نفاق کا سرچشمہ اورجگر خوار کا بچہ مجھ کو دھمکاتا ہے،میرے اوراس کے درمیان میں رسول اللہ ﷺ کے ابن عم اوران کے نوے ہزار ہتھیار بند شیعہ ہیں اگر اس نے کوئی بدارادہ کیا تو تلوار اس کا فیصلہ کرے گی (اخبار الطوال) تاہم امیر معاویہؓ کو چونکہ اس کی درشت خونی کا علم تھا اس لئے انہوں نے اس کی اصلاح اور تلافی کی یہ صورت اختیار کی کہ زیاد کو خاص طور سے یہ ہدایت کی تھی کہ تمام لوگوں کے ساتھ ایک ہی قسم کی سیاست نہ برتنا چاہیے، نہ نرمی کرنا چاہیے کہ لوگ سرکش ہوجائیں اورنہ اتنی سختی کہ ان کی جان پر بن جائے، اس لئے تم سختی کے لئے رہو اورمجھے نرمی اورلطف وکرم کے لئے چھوڑ دو تاکہ خوفزدہ لوگوں کے لئے امید کا ایک دروازہ کھلا رہے۔ اسی طرح عمرو بن العاصؓ کی پولیٹیکل چالوں سے قطع نظر کرکے ان کو جفا کار کی صورت میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے اوراس کی ایک مثال بھی نہیں پیش کی جاسکتی۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بسر بن ابی ارطاۃ وغیرہ بعض عمال یقیناً جفا کار تھے جنہوں نے بے شبہ مظالم کئے، لیکن ان بعض مثالوں سے علی الاطلاق سب پر یکساں حکم لگادینا صحیح نہیں ہے؛بلکہ عام حکمرانوں کی طرح امیر کے عمال بھی کچھ عدل پرور اور نرم خو تھے اورکچھ سنگ دل اور جفا پیشہ،اگر ایک طرف بسر بن ابی ارطاۃ اورزیاد تھے تو دوسری طرف ان کے بالمقابل عبداللہ بن عامر بھی تھے جو اپنی طبعی نرمی کی وجہ سے شورش پسندوں پر بھی سختی نہ کرتے تھے، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بغاوت پسند ان کے قابو میں نہ آتے تھے اورملک میں بدامنی پھیلاتے تھے ،علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ: "۴۱ھ میں عبداللہ بن عامر والی بصرہ معزول کردیئے گئے کیونکہ وہ نہایت حلیم الطبع کریم النفس اورنرم خو تھے اور مفسد اوراحمقوں پر بھی سختی نہ کرتے تھے اس لئے بصرہ کی فضا خراب ہوگئی تھی،انہوں نے زیاد سے اس کی شکایت کی،زیاد نے تلوار بے نیام کرنے کا حکم دیا، عبداللہ نے جواب دیا کہ میں اپنا نفس خراب کرکے ان کی اصلاح کرنا پسند نہیں کرتا۔" اتنی مثالیں غالباً امیر معاویہؓ کی "جابرانہ حکومت" کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہوں گی لیکن ابھی یہ بحث ختم نہیں ہوتی؛بلکہ امیر معاویہؓ کے ظلم و ستم اورعدل وانصاف کا صحیح فیصلہ کرنے کے لئے اس کی تحقیق ضروری ہے کہ ظالم عاملوں کے ساتھ امیر معاویہؓ کا طرزِ عمل کیا تھا، اوروہ ظالمانہ واقعات پیش آنے پر کیا صورت اختیار کرتے تھے اگر وہ مظالم کا تدارک کرتے تھے، تو پھر وہ ظالم حکمرانوں کی صف میں نہیں شمار کئے جاسکتے، یہ تسلیم ہے کہ امیر معاویہؓ کے زمانہ میں مظالم بھی ہوئے؛ لیکن انہوں نے ان کی پوری داد رسی کی۔ عبداللہ بن عمرو بن غیلان ان کی جانب سے بصرہ کا والی تھا، ایک مرتبہ یہ تقریر کررہا تھا، دوران تقریر میں ایک ضبی نے اس پر ایک کنکری کھینچ کر ماری ،عبداللہ نے اس کا ہاتھ کٹوادیا، اس واقعہ کے بعد جب عبداللہ امیر معاویہؓ کے پاس گیا، تو بنو ضبہ بھی شکایت لے کر پہنچے کہ عبداللہ نے ہمارے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ ڈالا ہے، امیر نے ان سے کہا اس کا قصاص تو نہیں لیا جاسکتا، البتہ میں ہاتھ کی دیت ادا کرتا ہوں؛چنانچہ ہاتھ کی دیت دی اورعبداللہ کو بصرہ سے معزول کردیا۔(ابن اثیر :۳/۴۱۶) امیر معاویہؓ کے عمال ظلم کر بھی نہیں سکتے تھے، کیونکہ معاویہؓ کو اس کے تدارک میں بڑا اہتمام تھا؛چنانچہ وہ روزانہ مظالم کی تحقیقات اورمظلوموں کی داد رسی کے لئے خانہ خدا میں بیٹھتے تھے اور بلا امتیاز ہر کس وناکس اپنی اپنی شکایتیں پیش کرتا تھا، امیر انہیں سن کر ان کا تدارک کرتے تھے،علامہ مسعودی امیر معاویہؓ کے شبانہ یوم کے معمولات کے سلسلہ میں لکھتے ہیں: ثم يخرج فيقول: يا غلام أخرج الكرسي، فيخرج إلى المسجد فيوضع فيسند ظهره إلى المقصورة ويجلس على الكرسي، ويقوم الأحْرَاسُ فيتقدم إليه الضعيف والأعرابي والصبي والمرأة ومن لا أحد له، فيقول: ظلمت، فيقول: أعِزُّوهُ، ويقول: عدي علي، فيقول: أبعثوا معه، ويقول: صنع بي، فيقول : انظروا في أمره، حتى إذا لم يبقى أحد دخل فجلس على السرير، ثم يقول: ائذنوا للناس على قدر منازلهم، ولا يشغلني أحد عن رد السلام، فيقال: كيف أصبح أمير المؤمنين أطال الله بقاءه؟ فيقول: بنعمة من اللهّ، فإذا استووا جلوساً قال: يا هؤلاء، إنما سميتم أشرافاً لأنكم شرفتم من دونكم بهذا المجلس، ارفعوا إلينا حوائج مَنْ لا يصل إلينا (مروج الذھب،باب من اخلاق معاویۃ وعاداتہ:۱/۳۶۱) پھر(معاویہ گھر سے) نکلتے اورغلام کو کرسی نکالنے کا حکم دیتے ؛چنانچہ مسجد میں کرسی نکالی جاتی اور معاویہ مقصورہ کی ٹیک لگا کر کرسی پر بیٹھ جاتے اور ان کے سامنے مقدمات وحادثات پیش ہوتے ،اس میں کمزور وناتواں دیہاتی، بچے ،عورتیں ،لاوارث سب پیش کئے جاتے،ان میں سے کوئی کہتا مجھ پر ظلم کیا گیا (معاویہ) حکم دیتے اس کو عزت دو (یعنی تدارک کرو) کوئی کہتا میرے اوپر زیادتی کی گئی (معاویہ) کہتے اس کے ساتھ کسی کو تحقیقات کیلئے بھیجو کوئی کہتا میرے ساتھ بدسلوک کی گئی (معاویہ حکم دیتے اس کے معاملہ کی تحقیقات کرو جب کوئی داد خواہ باقی نہ رہتا تو مجلس میں آکر تخت پر بیٹھتے اورحکم دیتے کہ لوگوں (اشراف) کو علی قدر مراتب آنے کی اجازت دو، پھر ان سے خطاب کرتے کہ تم لوگ اس لئے اشراف کہلاتے ہو کہ اس دربار میں اپنے سے کم رتبہ والوں پر تم کو شرف عطا کیا گیا ہے اس لئے جو لوگ ہمارے پاس تک نہیں پہنچ سکتے ان کی ضروریات ہم سے بیان کرو۔ داد رسی اورانسداد مظالم میں جس فرما نروا کا یہ اہتمام ہو، اس کے متعلق ظلم و ستم کا الزام لگانا کہاں کا انصاف اورکہاں کی صداقت ہے۔