انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان بایزید ثانی سلطان بایزید ثانی کی تخت نشینی کا حال اوپر بیان ہوچکا ہے، اس سلطان نے ۸۸۶ھ میں تخت نشین ہوکر ۹۱۸ھ تک یعنی ۳۲ سال حکومت کی، اس کو تخت نشیں ہوتے ہی اپنے بھائی جمشید کا مقابلہ کرنا پڑا، دو مرتبہ جمشید سے لڑائی ہوئی اور دونوں مرتبہ یزید کامیاب ہوا لیکن یہ کامیاب سلطنت عثمانیہ کے لئے کچھ مفید ثابت نہیں ہوئی، جمشید کا عیسائیوں کی قید اور قبضہ میں چلا جانا باعث اس کا ہوا کہ بایزید ثانی کو ملک اٹلی اورروڈس پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی، ادھر مصر کی مملوکی سلطنت سے تعلقات کشیدہ ہوگئے،شہزادہ جمشید چونکہ اول مصر ہی کی سلطنت میں پناہ گزیں ہوا تھا اورجمشید کے متعلقین آخر تک مصر میں موجود تھے لہذا مملوکیوں نے ایشیائے کوچک کے جنوبی و مشرقی حصہ پر حملہ آوری کا سلسلہ جاری کردیا اور ۸۹۰ ھ میں بایزید کی فوج کو شکست فاش دے کر بعض سرحدی مقامات پر قبضہ کرلیا،آخر بایزید نے مملوکیوں سے متواتر شکستیں کھانے کے بعد صلح کی اوراس صلح میں بایزید کا دب جانا اس طرح ثابت ہوا کہ اس نے وہ قلعے اور وہ شہر جن پر مملوکی قبضہ کرچکے تھے انہیں کے قبضے میں رہنے دیئے مگر یہ اقرار مملوکیوں سے ضرور لے لیا کہ اس نو مفتوحہ علاقے کی تمام آمدنی حرمین شریفین کی خدمت گزاری میں صرف کی جائے گی سلطان بایزید کے پاس احمد قیدوق ایک نہایت قیمتی اور تجربہ کار سپہ سالار تھا اگر بایزید چاہتا تو اس سے خوب کام لے سکتا تھا،مگر اس نے اس جوہر قابل سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، احمد قیدوق فوج میں بہت ہر دل عزیز تھا اوربایزید ثانی کو اس کی غلط کاریوں پر نصیحت کرتا رہتا تھا،وہ اپنی صاف بیانی اورفاش گفتاری میں کسی شاہی سطوت اورسلطانی رعب کی مطلق پرواہ نہ کرتا تھا حقیقتاً ایسا نصیحت گرجو محبت کی وجہ سے غلطیوں پر تنبیہ کرے بہت ہی غنیمت ہوتا ہے،لیکن بایزید زیادہ برداشت نہ کرسکا، ۸۹۵ھ میں بایزید ثانی نے جان نثاری فوج کے بڑھے ہوئے زور کو توڑنا چاہا اور اس فوج کے خلاف سخت احکام صادر کرنے پر آمادہ ہوا ،فوج میں چونکہ پہلے ہی سے شورش برپا تھی احمد قیدوق نے بایزید کو برسردربار سمجھا یا کہ آپ اس زمانہ میں جب کہ ہر طرف ہم کو فوج سے کام لینے کی ضرورت ہے فوج کو بددل اور افسردہ خاطر نہ کریں،اس کام کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی رکھیں ورنہ پھر اندیشہ ہے کہ مشکلات پر قابو پانا دشوار ہوگا اوراپنی سلطنت کا بچانا آپ کے لئے آسان نہ رہے گا، بظاہر بایزید نے احمد قیدوق کی بات کو مان لیا، مگر اس کو احمد قیدوق کا اس طرح دخل در معقولات ہونا سخت گراں گزرا، اس نے چند روز کے بعد احمد قیدوق کا اس طرح دخل در معقولات ہونا سخت گراں گزرا، اس نے چند روز کے بعد احمد قیدوق کے قتل کا ارادہ کیا ؛چنانچہ احمد قیدوق کو اسی لئے گرفتار کرلیا گیا،فوج نے اپنے ہر دل عزیز سردار کے قتل کی خبرسُن کر ایوانِ سلطانی کا محاصرہ کرلیا اورسلطان کو دھمکی دی کہ اگر ہمارے سردار احمد قیدوق کو قتل کردیا گیا ہے،جاں نثاری فوج کے سپرد کردیا اوربظاہر اس کی عزت وتکریم بھی کی مگر چند ہی روز کے بعد تمام جان نثاری فوج کو کسی مہم کے بہانے سے دور دراز کے سرحدی مقام پر بھیج کر اور دارالسلطنت کو فوج سے خالی پاکر احمد قیدوق کو قتل کردیا، اس سردار کا قتل ہونا سلطنت عثمانیہ کے لئے نہایت مضر ثابت ہوا۔ ۸۹۶ ھ میں سلطنت عثمانیہ اورسلطنتِ روس کے درمیان تعلقات قائم ہوئے،یعنی زارِ ماسکو نے اپنا سفیر مناسب تحفہ وہدایا کے ساتھ سلطان کی خدمت میں قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا، اس سفیر کے ساتھ دربارِ قسطنطنیہ میں معمولی برتاؤ ہوا اوروہ چند روزرہ کر ماسکو کی جانب رخصت ہوا،سلطان بایزید کے عہد حکومت میں سلطنتِ عثمانیہ کی بحری طاقت میں بہت ترقی ہوئی،سلطان کی توجہ بحری طاقت کے بڑھانے کی طرف اس لئے زیادہ منعطف ہوئی کہ اس کو شہزادہ جمشید کی طرف سے اندیشہ تھا کہ روڈس واٹلی و فرانس کی حکومتیں مل کر بحری حملہ کی تیاری پر آمادہ ہوں گی، ایک طرف اس نے ان سلطنتوں اوردوسری عیسائی حکومتوں سے صلح قائم کر رکھی اوردوسری طرف ان کے حملہ سے محفوظ رہنے کی تدابیر سے بھی غافل نہ رہا اور اپنی بحیر طاقت کو بڑھانے میں مصروف رہا۔ جس زمانے میں جمشید عیسائیوں کے قبضے میں پہنچ چکا تھا، اندلس کے مسلمانوں یعنی شاہ غرناطہ نے سلطان بایزید سے امداد طلب کی کہ بحری فوج اورجنگی بیڑے سے ہماری مدد کی جائے،بایزید اندلسی مسلمانوں کی درخواست پر ان کو بہت بڑی مدد دے سکتا تھا لیکن وہ محض اس وجہ سے کہ کہیں پوپ اوردوسرے عیسائی سلاطین جمشید کو آزاد کرکے میرے مقابلے پر کھڑا نہ کردیں متامل رہا اورجیسی چاہئے تھی ویسی مدد اندلس والوں کی نہ کرسکا بایزید کی یہ کوتاہی ضرور قابلِ شکایت اورموجب افسوس ہے تاہم ہم کو یہ بات بھی فراموش نہ کرنی چاہئے کہ اس نے ایک معمولی سابیڑہ جس میں چند جنگی جہاز شامل تھے اپنے امیر البحر کمال نامی کی قیادت میں اسپین کی طرف روانہ کیا تھا،اس بیڑہ نے ساحل اسپین پر پہنچ کر عیسائیوں کا تھوڑا سا نقصان کیا مگر کوئی ایسا کار نمایاں انجام نہ دے سکا جس سے اسپین کے مسلمانوں کوکوئی قابل تذکرہ امداد پہنچتی،جب جمشید کا کام تمام ہوگیا اوربایزید کو اس کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہ رہا تو اس نے اُن جزیروں اوران ساحلی مقاموں پر جویونان اوراٹلی کے درمیان ریاست وینس کے تصرف میں تھے قبضہ کرنے کی کوشش کی اور وینس کے ساتھ بحری لڑائیوں کا سلسلہ جاری م ہوا، ۵۰۵ھ میں وینس کی بحری طاقت کو ترکی کی بیڑے نے شکست فاش دی اور تمام جزیرے اس کے قبضے سے چھین لئے ۹۰۶ھ میں وینس،پوپ روما،،اسپین،اورفرانس کے متحد بیڑہ سے عثمانیہ بیڑہ کا مقابلہ ہوا،ان مذکورہ عیسائی طاقتوں نے عثمانیہ بحری طاقت کی ترقی دیکھ کر آپس میں اتفاق کرکے یہ فیصلہ کیا کہ بحر روم سے ترکی اثر کو بالکل فنا کردینا چاہئے،ترکی بیڑہ کا افسر یعنی امیر البحر کمال تھا جو سلطان بایزید کا غلام تھا، اس بحری لڑائی میں کمال نے وہ کمال دکھایا کہ متحدہ عیسائی بیڑے کو شکست فاش دی،بہت سے جہازوں کو غرق بعض کو گرفتار کیا اورباقی فرار ہونے پر مجبور ہوئے،اس بحری معرکہ کے بعد کمال کی بہت شہرت ہوگئی اور بحر روم میں ترکی بیڑے کی دھاک بیٹھ گئی،مگر افسوس ہے کہ ترکی بیڑے کی فتح نمیاں سے چند سال پہلے یعنی ۸۹۷ھ میں اندلس سے اسلامی حکومت کا نام ونشان مٹ چکا تھا، بایزید ثانی کی ہنگری اور پولینڈ والوں سےب ھی متعدد لڑائیاں ہوئٰں،مگر وہ کچھ زیادہ مشہور اور قابلِ تذکرہ نہیں ہیں نتیجہ ان لڑائیوں کا یہ ہوا کہ پولینڈ والوں نے سلطان سے صلح کرلی اور پولینڈ کے بعض شہروں پر جو سرحد پر واقع تھے ترکوں نے قبضہ کرلیا،چونکہ سلطان بایزید ثانی صلح کی جانب زیادہ مائل تھا،لہذ سلطنتِ عثمانیہ کی وسعت اور شوقکت میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا،سلطان محمد خاں فاتح کے زمانے میں اس قدر دھاک عیسائیوں کے دل پر بیغھ گئی تھی کہ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے اس صلح پسند طرز عمل کو بہت غنیمت سمجھا اورخود حملہ آوری کی جرأت نہ کرسکے،سلطان بایزید ثانی کی ہم زیادہ مذمت بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کے عہدِ حکومت میں بحری طاقت سلطنت عثمانیہ کی بہت بڑھ گئی تھی اوربض جزیرے اور ساحلی مقامات ترکوں کے قبضے میں آگئے جنہوں نے اس کی تلافی کردی جو بری معرکآرائیوں کے کم اور بلا نتیجہ ہونے کے سبب ظاہر ہوئی، سلطان بایزید ثانی نے کوئی ایسا عظیم الشان کام بھی نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ خاص طور پر مدح و ستائش کا حق دار سمجھا جائے،اس کی نسب مشہور ہے کہ صلح جو اورنیک طینت شخص تھا، لیکن عام طورپر کند ذہن اور سست مزاج لوگوں کی نسبت ایسا ہی مشہور ہوجایا کرتا ہے۔ جس سال سلطان بایزید ثانی تخت نشین ہوا ہے اسی سال مولانا عبدالرحمن جامی نے اپنی کتاب سلسلہ التذہب کو تصنیف کرکے سلطان بایزید کے نام پر معنون کیا مولانا جامی اسی بادشاہ کے زمانے میں ۱۸ محرم ۹۸۹ھ کو فوت ہوکر ہرات میں مدفون ہوئے،اسی سال کولمبس نے امریکہ دریافت کیا حالانکہ اس سے پہلے مسلمانانِ اندلس امریکہ دریافت کرچکے تھے مگر یہ شہرت کولمبس ہی کے حصے کی تھی، بایزید ثانی کے زمانے میں ۹۰۳ھ میں پُرتگال کے بادشاہ عما نویل نے اپنے دارسلطنت سے بس واسکوڈی گاما کو تین جہاز دے کر ہندوستان کو تلاش کرنے کے لئے روانہ کیا، وہ ۲۰ رمضان ۹۰۳ھ کو مالایار کے بندرگاہ قندرینہ علاقہ کالی کٹ میں پہنچ کر لنگر انداز ہوا، اسی سلطان کےعہدِ حکومت یعنی ۹۰۶ ھ میں اسمعیل صفوی بانی خاندان صفویہ چودہ سال کی عمر میں ایران کے تخت پر بیٹھا ‘‘مذہب ناحق’’ اس کی تاریخ جلوس ہے ،سلطان بایزید خاں ثانی کا ہم عصر ہندوستان میں سکندر لودی تھا مگر سلطان سکندر لودی بایزید ثانی سے تین سال پیشتر یعنی ۹۱۵ ھ میں قوت ہوگیاتھا، ۲۹ شعبان ۹۱۶ھ کو شیبانی خان بادشاہ ترکستان اسمعیل صفوی بادشاہ ایران کے مقابلہ میں مارا گیا اوراس سے ایکماہ بعد سلطان محمود بیکر بادشاہ گجرات احمدآباد میں فوت ہوا، سلطان بایزید خاں ثانی کا ۳۲ سالہ عہدِ حکومت چونکہ اہم اوردلچسپ واقعات سے خالی تھا لہذا دوسرے ملکوں کے واقعات جو اس کے زمانہ میں ہوئے قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے لکھ دیئے گئے ہیں،اسی سلسلہ میں سلطان بایزید ثانی کے عہد کا ایک اور واقعہ بھی قابلِ تذکرہ ہے جس سے اس زمانے کے عیسائیوں کی سنگ دلی اور نامردی پر تیز روشنی پڑتی ہے اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ ہنگری کے ساتھ بھی سلطان بایزید کی فوجوں کی معرکہ آرائی ہوئی تھی،ان لڑائیوں کے سلسلے میں ایک مرتبہ سلطان بایزید ثانی کا ایک سپہ سالار مسمی غازی مصطفی کے بھائی کولو ہے کی سیخ سے چھید کر درآنحا لیکہ وہ زندہ تھا نرم آنج پر رکھ کر کباب کی طرح بُھنوایا، سب سے بڑھ کر قابل تعریف بات یہ تھی کہ غازی مصطفیٰ کو شیخ کے پھیرتے رہنے اوراپنے بھائی کو خود اپنے ہاتھ سے کباب بنانے پر مجبور کیا گیا تھا، اس کے بعد غازی مصطفی کے تمام دانت توڑ کر اور انواع واقسام کی اذیتیں پہنچا کر اورفدیہ لے کر چھوڑا، چند برس بعد وہی ہنگری سردار جس نے یہ ظلم وستم روارکھا تھا غازی مصفطی کے قبضے میں آگیا تو غازی مصطفی نے اس کو قتل کردیا مگر اور کسی قسم کا عذاب نہیں پہنچایا ،اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ عیسائیوں کی قساوتِ قلبی کس حد تک پہنچی ہوئی تھی اور ترکوں میں کس قدر شرافت اورپابندی مذہب موجود تھی۔ سلطان بایزید ثانی کے آخر عہدِ حکومت میں کچھ اندرونی بد نظمی اورپیچیدگی پیدا ہوئی، یہ پیچدیدگی ولی عہدی کے مسئلہ کی وجہ سے تھی جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ سلطان بایزید ثانی کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سے پانچ تو چھوٹی عمر میں فوت ہوگئے تین بیٹے جوان ہوئے جن کے نام احمد، قرقود اورسلیم ہیں ان میں قرقودسب سے بڑا اورسلیم سب سے چھوٹا تھا سلطان بایزید منجھلے بیٹے ایشیائے کوچک میں عامل وفرماں روا تھے،علاقہ طرابزون کی حکومت سلیم سے تعلق رکھتی تھی،سلیم اپنے دونوں بھائیوں سے زیادہ بہادر و جفاکش اورسلیم الفطرت تھا، اس کی بہادری وجفا کشی کے سبب تمام فوج اورفوجی سردار سلیم کو سب پر ترجیح دیتے تھے، اسمعیل صفوی شاہ ایران نے ایران پر قابض و متسلط ہوکر شیعوں کے گروہ ایشیائے کوچک یعنی عثمانیہ سلطنت میں پھیلادیئے تھے کہ وہ لوگ کو شیعت کی تعلیم دے کر شاہ ایران کے ہمدرد معاون بنائیں، اس تدبیر کا اثر خاطر خواہ اثر پذیر ہوا اورایشیائے کوچک میں واقعہ پسند لوگ شاہ ایران کی شہ پاکر قزاقی و غارت گری پر مستعد ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے،اس بدامنی وغارت گری کے فرو کرنے کے لئے قرقود احمد نے جو ایشیائے کوچک کے غالب حصوں پر حکمراں تھے فوجیں استعمال کیں اور غارت گر گروہوں سے بار بار لڑائیاں ہوئیں، رفتہ رفتہ ان قزاقوں اور باغیوں کی ٹولیاں شاہ قلی نام کے ایک شخص کی قیادت میں مجتمع ومنتظم ہوکر ایک زبردست فوج کی شکل میں تبدیل ہوگئیں، شاہ قلی ایران کے بادشاہ اسمعیل صفوی کا مریدوہوا خواہ تھا،اس نے سلطنت عثمانیہ کو مشکلات میں مبتلا کرنے کی کوشش میں کوئی کوتاہی نہ کی،بالآخر جب قسطنطنیہ میں ایشیائے کوچک کی بدامنی کے حالات مشہور ہوئے تو سلطان بایزید اس امر پر مجبور ہوا کہ اپنے وزیر اعظم کو فوج دے کر مقابلے کے لئے بھیجے؛چنانچہ وزیر اعظم نے پہنچ کر مقام سریمشک پر شاہ قلی (جس کو ترک شیطان قلی کہتے تھے) کا مقابلہ کیا،سخت خوں ریز جنگ ہوئی اورلڑائی میں سلطانی وزیراعظم اورشاہ قلی دونوں مارے گئے یہ واقعہ ۹۱۷ھ میں وقوع پذیر ہوا، اس بغاوت اوربد نظمی کا اثر اسی علاقے میں زیادہ تھا جو قرقود اور احمد کے زیر حکومت تھا۔ سلیم جس صوبے کا حاکم تھا اس صوبہ یعنی طرابزون کے علاقے میں باغیوں کو بدامنی پھیلانے کا کوئی موقع نہیں ملا جوذلیل اس بات کی تھی کہ حلیم بہت مستعد اورمآل اندیش تھا،سلیم نے اپنے علاقہ میں امن وامان قائم رکھنے کےلئے زائد فوج بھرتی کرلی تھی اور جب باغیوں کی طرف سے اس کواطمینان حاصل ہوا تو اس نے اس فوج کو لے کر سرکیشیا کے علاقے پر حملہ کیا اور فتوحات حاصل کیں،یہ خبر سن کر بایزید ثانی نے قسطنطنیہ سے امتناعی حکم جاری کیا کہ تم غیر علاقے پر حملہ آور ہوکر اپنے دائرہ حکومت کو وسعت نہ دو سلیم نے لکھا کہ اگر مجھ کو اس طرف فتوحات حاصل کرنے کی اجازت نہیںہے تو یہاں سے تبدیل کرکے یورپی صوبے کی حکومت پر نامزد فرمادیجئے تاکہ اس طرح عیسائیوں پر جہاد کرنے کا موقع ملے،میں خاموش بیٹھنا اورمیدان جنگ سے جدارہنا پسند نہیں کرتا،یہی وہ زمانہ تھا کہ سلطان بایزید ثانی احإ کو اپنی جانشینی اور قائم مقامی پر نامزد کرنے اورولی عہد بنانے کا ارادہ کرچکا تھا،سلطان کے اس ارادے سے مطلع ہوکر جان نثاری فوج اوردوسرے فوجی افسروں نے مخالفت کا اظہار کیا،ان میں سے بعض تو قرقود کو اس لئے ترجیح دیتے تھے کہ وہ بڑا بیٹا ہے اوربعض سلیم کو اس لئے ولی عہدی کا مستھق جانتے تھے کہ وہ بہادر اورمآل اندیش ہے اس کشمکش کی احمد اورقرقو دکواطلاع ہوئی تو وہ بجائے خود اس فکر میں مبتلا ہوئے کہ کس طرح تختِ حکومت حاصل کیا جائے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تینوں بھائی الگ الگ اپنی طاقتوں کے بڑھانے اورایک دوسرے کی مخالفت کرنے پر آمادہ ہوگئے،سلطان بایزید ثانی نے اراکین سلطنتِ اورخودلیم کی خواہش کے موافق سلیم کو ایک یوروپی صوبے موسومۂ سمندر اپرنامزد کردیا سلطان بایزید کے بیٹے چونکہ آپس میں مصروف مسابقت ہوچکے تھے،لہذا سلیم نے بھی اپنے بھائیوں کے خلاف سلطنت کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ضروری سمجھی اور وہ اراکین سلطنت اور فوج کے سرداروں کے ایما پر یوروپ میں داخل ہوکر ایڈریانوپل پر قابض ہوگیا،سلیم کے ایڈریا نوپل آنے کی خبر سن کر بایزید مقابلہ کے لئے روانہ ہوا، جب سلطان بایزید مقابلے پر پہنچ گیا تو سلیم کی ہمراہی فوج کےبہت سے آدمی اس کا ساتھ چھوڑ کر سلطان کی فوج میں شامل ہوگئے،بایزید کی فوج نے سلیم کو شکست دی اور وہ مشکل جان بچا کر اورساحل سمندر پر پہنچ کر بذریعہ جہاز اپنے خسرخان کریمیا کے پاس چلا گیا اوروہاں تاتاریوں اور ترکوں کی فوجیں فراہم کرنی شروع کیں۔ ادھر ایشیائے کوچک میں احمد نے فوجیں فراہم کرکے قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے اوربایزید کو تختِ سلطنت سے اتار دینے کی تیاری کرلی تھی ،سلطان بایزید اپنے چھوٹے بیٹے سلیم کو ایڈریانوپل سے بھگا کر قسطنطنیہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ احمد حملہ آور ہونے والا ہے، یہ حالات دیکھ بریزبہت گھبرایا اور اراکینِ سلطنت مین چہمی گوئیاں ہونے لگیں کہ سلطان واقعی اس قابل نہیں رہا کہ تخت حکومت پرقائم رہے، اراکین سلطنت کے مشورہے سے یا خود ہی بایزید نے سلیم کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنی فوج لے کر قسطنطنیہ چلے آؤ ،احمد کے حملے کو روکنے میں سلطانی فوج کے شریک ہوجاؤ سلیم اس حکم کے پہنچنے سے بہت خوش ہوا اور تین چار ہزار آدمی ہمراہ لے کر نہایت سخت مقامات اوردروں کو طے کرتا ہوا بحیرہ اسود کے کنارے کنارے چل کر ایڈریانوپل اور وہاں سے قسطنطنیہ کی جانب روانہ ہوا،سلیم کے اس طرح پہنچنے کی خبر سن بایزید نے اس کے پاس حکم بھیجا کہ اب تمہاری ضرورت نہیں ہے تم کو چاہئے کہ جہاں تک پہنچ چکے ہو وہیں سے واپس ہوکر صوبہ سمندرا کی طرف چلے جاؤ جس پر تم نامزد کئے گئے ہو،ادھر سے اراکین سلطنت اورفوجی افسروں کے پیغام پہنچے کہ اب آپ ہر گز واپس نہ ہوں ؛بلکہ سیدھے قسطنطنیہ چلے آئیں، اس سے بہتر موقع پھر کھبی آپ کے ہاتھ نہ آئے گا؛چنانچہ سلیم قسطنطنیہ پہینچ گیا،سلیم کے قسطنطنیہ پہنچتے ہی تمام رعایا ا راکین سلطنت اورسپہ سالارانِ افواج نے اس کا استقبال کیا اورقصر سلطانی کے دروازے پر پہنچ کر سب نے بایزید ثانی کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ دربار عام میں ہماری درخواست سُن لیں؛چنانچہ بایزید ثانی نے تخت پر بیٹھ کر دربار ِ عام منعقد کیا اراکین سلطنت،علماء وفقہا، رعایا کے وکلاء فوج کے سردار سب نے مل کر عرض کیا کہ ہمارا سلطان اب بوڑھا،ضعیف اور ناتوان ہوگیا ہے ہم سب کی خواہش یہ ہے کہ سلطان اپنے بیٹے سلیم کے حق میں تختِ سلطنت کوچھوڑدے،بایزید اس درخواست کو سنتے ہی بلا تامل فرمایا کہ میں نے تم سب کی درخواست کو منظور کرلیا اور میں سلیم کے حق میں تخت سے دست بردار ہوتا ہوں، یہ کہہ کر تخت سے اتر آیا سلیم نے فوراً آگے بڑھ کر بادشاہ کے شانہ کو بوسہ دیا،بایزید نے اس کو مناسب نصیحتیں کیں اورپالکی میں سوار ہوکر چلا ،سلیم پالکی کا پایہ پکڑ ے ساتھ ساتھ چلا ،بایزید اپنی خواہش کے مطابق شہر ڈیموٹیکا میں رہنے اور قیام کرنے کے ارادے سے قسطنطنیہ کو چھوڑ کر روانہ ہوا کہ بقیہ ایام زندگی اس شہر میں عبادت وخاموشی کی حالت میں گزاردے،سلیم شہر کے دروازے تک بطریق شہر ڈیموٹیکا میں رہنے اورقیام کرنے کے ارادے سے قسطنطنیہ کو چھوڑ کر روانہ ہوا کہ بقیہ ایام زندگی اسی شہر میں عبادت وخاموشی کی حالت میں گزار دے،سلیم شہر کے دروازے تک بطریق شہر ڈیموٹیکا میں رہنے اورقیام کرنے کے ارادے سے قسطنطنیہ کوچھوڑ کر روانہ ہوا کہ بقیہ ایام زندگی اسی شہر میں عبادت وخاموشی کی حالت میں گزاردے،سلیم شہر کے دروازے تک بطریق مشایعت پیدل آیا اورباپ سے رخصت ہوکر واپس ہوا، اور تخت سلطنت پر جلوس کیا بایزید ابھی شہر ڈیموٹیکا تک نہ پہنچا تھا کہ راستے ہی میں فوت ہوگیا،سلطان بایزید نے اپنی وفات کے وقت تین بیٹے اور نو پوتے چھوڑے، ان پوتوں میں سلیم کا اکلوتا بیٹا سلیمان بھی شامل تھا،بایزید نے ۲۵ اپریل ۱۵۱۲ء مطابق ۹۱۰ھ میں تخت سلطنت کو چھوڑا اور ۲۹ ، اپریل ۱۵۱۲ء کو فوت ہوا،سلطان سلیم ان بایزید ثانی نے قسطنطنیہ میں تخت سلطنت پر جلوس کیا۔