انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت اسعدؓ بن زرارہ نام ونسب اسعد نام، ابو امامہ کنیت ،خیر لقب،قبیلہ خزرج سے تھے اور بخارا کے خاندان سے وابستہ تھے،نسب نامہ یہ ہے،اسعدؓ بن زرارہ بن عبید بن ثعلبہ بن غنم بن مالک ابن نجار بن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج۔ بعثت نبویﷺ سے قبل اگرچہ جزیرہ عرب پورا خطہ کفر و ظلمت کا نشیمن تھا ،تاہم چند نفوس اپنی فطرت سلیمہ کے اقتضاء سے توحید کے قاتل ہوگئے تھے،حضرت اسعدؓ بن زرارہؓ بھی انہی لوگوں میں تھے۔ (طبقات،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۴۶) اسلام اسی زمانہ میں مکہ سے اسلام کی صدا بلند ہوئی، اسعد بن زرارہؓ اور ذکو ان بن عبد قیس نے جو عتبہ بن ربیعہ کے پاس مکہ آئے تھے، ان سے آنحضرتﷺ کے حالات بیان کئے۔ انہیں سن کر ذکوان نے اسعدؓ سے کہا دونک!ھذادینک یعنی تم کو جس چیز کی تلاش تھی وہ موجود ہے،اب اس کو اختیار کرلو، چنانچہ حضرت اسعدؓ اُٹھ کر بارگاہ نبوتﷺ میں حاضر ہوئے اور توحید کے ساتھ رسالت کا بھی اقرار کیا۔ (اسد الغابہ:۱/۷۱) مکہ سے ایمان واسلام کا جو جذبہ ساتھ لائے تھے وہ مدینہ آکر ظاہر ہوا چنانچہ اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ سب سے پہلے ابو الہیثم سے ملے اوراپنے ایمان لانے کا تذکرہ کیا، ابو الہیثم بولے کہ تمہارے ساتھ میں بھی آنحضرت ﷺ کی رسالت کا اقرار کرتا ہوں۔ (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۴۶) اس بنا پر انصار میں جو شخص سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہوئے وہ حضرت اسعدؓ بن زرارہؓ ہیں،بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عقبہ اولیٰ میں ۶ آدمیوں کے ساتھ مسلمان ہوئے تھے، بہر حال عقبہ اولیٰ کے دوسرے سال ۱۲ آدمیوں کے ساتھ مکہ آئے اور تیسرے سال عقبہ کبیرہ کی بیعت میں شرکت کی کہتے ہیں کہ اسعدؓ نے سب سے پہلے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا، اس بیعت میں آنحضرتﷺ نے ان کو بنو نجار کا نقیب تجویز فرمایا،حضرت اسعدؓ نقیبوں میں سن وصال کے لحاظ سے سب سے چھوٹے تھے۔ لیکن اس صغر سنی کے باوجود جوش ایمان شباب پر تھا، حرہ بنی بیاضہ میں جس کو نقیع الخضمات بھی کہتے ہیں، باجماعت نماز کا انتظام کیا اور چالیس آدمیوں کے ساتھ جمعہ ادا فرمایا۔ (اسد الغابہ:۱/۷۱) حضرت کعبؓ بن مالک جو اصحاب عقبہ میں تھے، جمعہ کی اذان سنتے تو حضرت اسعدؓ کے لئے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے، (اصابہ:۱/۳۲) کہ اس کار خیر کی بنیاد اسی خیر مجسم کے مبارک ہاتھوں سے پڑی تھی، سچ ہے من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بھا الی یوم لقیامۃ۔ اسی زمانہ میں آنحضرتﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو داعی اسلام بنا کر مدینہ روانہ فرمایا، تو اسعدؓ بن زرارہ نے ان کو اپنے گھر میں مہمان اتارا۔ (طبقات :۳/۴۸۳) ہجرت نبویﷺ کے بعد اگرچہ وحی اسلام کا مامن حضرت ابو ایوبؓ کا کاشانہ تھا لیکن آنحضرتﷺ کی اونٹنی اسعدؓ بن زرارہ کی مہمان تھی۔ (طبقات ،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۶۰) مسجد نبویﷺ کی تعمیر کے لئے جو جگہ تجویز ہوئی تھی وہ زمین سہل اورسہیل نامی دو یتیموں کی ملک تھی، جو اسعدؓ بن زرارہ کی نگرانی میں تربیت پاتے تھے،(بخاری:۱/۵۵۵) آنحضرتﷺ نے ان کے مربی سے زمین کی قیمت دریافت کی تو یتیموں نے عرض کیا کہ ہم صرف خدا سے اس کی قیمت چاہتے ہیں،لیکن چونکہ آنحضرتﷺ کو بلا قیمت لینا منظور نہ تھا اس لئے حضرت ابو بکرؓ سے اس کے دام دلوائے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اسعدؓ بن زرارہ نے ان یتیموں کو اپنا ایک باغ جو بنی بیاضہ میں تھا، اس زمین کے معاوضہ میں دیا تھا۔ (زرقانی:۱/۴۴۴) وفات ابھی مسجد نبوی کی عمارت تیار ہو رہی تھی، کہ شوال ۱ھ میں پیغام اجل آیا، حلق میں ایک درداٹھا جس کو ذبحہ کہتے ہیں، آنحضرتﷺ عیادت کو تشریف لے گئے اور دستِ مبارک سے سر کو داغا،لیکن یہ درد پیغام اجل تھا، اس لئے روح جسم سے پرواز کر گئی ،آنحضرتﷺ کو سخت رنج ہوا، فرمایا کیا کہوں؟ یہ کیسی موت ہوئی، اب یہودیوں کو کہنے کا موقع ہے کہ پیغمبر تھے تو اپنے دوست کو اچھا کیوں نہ کردیا، حالانکہ ظاہر ہے کہ میں قضا کا کیا علاج کرسکتا ہوں، یہ واقعہ غزوۂ بدر سے قبل کا ہے۔ جنازہ کی نماز آنحضرتﷺ نے پڑھائی، اور بقیع میں لے جاکر دفن کیا، کہتے ہیں کہ ہجرت کے بعد یہ پہلی موت تھی، یہ بھی خیال ہے کہ آنحضرتﷺ نے سب سے پہلی نماز جنازہ انہی کی پڑھی تھی اور انصار کے خیال کے مطابق بقیع میں سب سے پیشتر دفن ہونے والے مسلمان یہی تھے۔ (مسند ابن حنبل:۴/۱۳۸، اسدالغابہ،جلد۴) چونکہ اسعدؓ بنو نجار کے نقیب تھے، اس لئے ان کی وفات پر اس خاندان کے چند ارکان آنحضرتﷺ کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ ان کی جگہ پر کسی کو نقیب تجویز فرمایا جائے ،ارشاد ہوا کہ تم لوگ میرے ماموں ہو، اس لئے میں خود تمہارا نقیب ہوں آنحضرتﷺ کا نقیب بننا بنو نجار کے لئے ایسا لازوال شرف تھا جس پر وہ ہمیشہ فخرو ناز کیا کرتے تھے۔ (اسد الغابہ:/۷۲) اولاد حضرت اسعدؓ نے دو لڑکیاں چھوڑیں اورآنحضرتﷺ سے ان کے متعلق وصیت کی،چنانچہ آپ نے ان کا ہمیشہ خیال رکھا اور دونوں کو سونے کی بالیاں جن میں موتی پڑے ہوئے تھے پہنائیں۔ (اصابہ:۱/۳۳)