انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بیعت رضوان حضور ﷺ تک یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمانؓ کو مکہ میں قید کر لیا گیا ہے اور پھر افواہ پھیلی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے یہ خبر سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عثمانؓ کے خون کا قصاص لینافرض ہے ہم اس مقام سے اس وقت تک نہیں ٹل سکتے جب تک ان سے بدلہ نہ لے لیں،یہ کہہ کر آپ ﷺ نے وہیں ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ کر صحابہ ؓ سے جاں نثاری کی بیعت لینی شروع کی ، لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ موت کی بیعت تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بیعت کرنے والے کسی حالت میں بھی بھاگیں گے نہیں ، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: عثمان ؓ اللہ اور اس کے رسول کے کام پر گئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ اس فضیلت میں وہ بھی شریک ہوں ، یہ کہہ کر اپنے سیدھے ہاتھ کو عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا پھر اس کو اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا " یہ عثمان کی بیعت ہے " یہ ایک طرح کا اشارہ تھا کہ عثمانؓ زندہ ہیں؛ کیونکہ بیعت زندوں سے ہوتی ہے ، اس بیعت کے اہتمام کی دو توجہیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں کے عزم صمیم اور عہد واثق کی اطلاع اہل مکہ کوپہنچ جائے تا کہ وہ اگر حضرت عثمانؓ سے برائی کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں تو متنبہ ہو جائیں ، دوسری یہ کہ صلح پر آمادہ ہو جائیں، اسی بیعت کو " بیعت رضوان " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کے بارے میں سورہ فتح میں ارشاد ہوا : " یقینا اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب کہ وہ درخت کے نیچے آپﷺ سے بیعت کر رہے تھے ، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی، اور بہت سی غنیمتیں ہیں جنھیں وہ حاصل کریں گے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے " (سورہ ٔفتح : ۱۹) یہ بھی قرآن میں نازل ہوا : " جو لوگ آپﷺ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں ، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے " ( سورہ ٔ فتح : ۱۰) انہی کے بارے میں جگہ جگہ " رضی اللہ عنھم وَ رضو عنہ" کے الفاظ بھی نازل ہوئے یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اس بیعت کے طفیل صحابہ کرام کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی سند حاصل ہوئی، وہ دن اور قیامت تک جب کبھی بھی کسی بھی صحابی رسول کا نام لیا جائے گا تورضی اللہ عنہ کے الفاظ نام کے ساتھ استعمال کئے جائیں گے، (سیرت احمد مجتبیٰ )