انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت قاسم بن معنؒ نام ونسب قاسم نام،ابو عبداللہ کنیت اوروالدہ کا اسم گرامی معن تھا،شجرہ نسب یہ ہے:قاسم بن معن بن عبد الرحمن بن عبداللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب بن شمخ بن فاد بن مخزوم بن صاہلہ بن کاہل بن الحرث بن تمیم بن سعد بن ہذیل بن بدر کہ بن الیاس بن مضر بن نذار بن معد بن عدنان (معجم الادباء:۶/۲۰۰) نسبا ہذلی اورمسعودی کہلاتے ہیں۔ خاندان اوروطن مخزنِ علم کوفہ کو ان کی وطنیت کا شرف حاصل ہے ان کے جدِّ امجد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی شخصیت آسمان صحابیت کا وہ کوکبِ تاباں تھی جس پر پوری اسلامی تاریخ فخر کرتی ہے ،وہ نہ صرف قرآن وحدیث اور اصول و فرائض وغیرہ علوم میں یگانہ زمانہ تھے ؛بلکہ فقہ میں ایک مستقبل مکتب فکر کے بانی بھی تھے جس کی اساس پر بعد میں فقہ حنفی کا فلک رفعت محل تعمیر ہوا،قاضی قاسم نے اپنی اس آبائی علمی وراثت سے حصہ وافر پایا تھا۔ شیوخ جن ائمہ وعلماء کے فیضانِ صحبت نے قاضی قاسم کو چشمک زن آفتاب بنانے میں حصہ لیا،ان میں نمایاں یہ نام ہیں،ہشام بن عروہ،عاصم الاحول،سلیمان التیمی، منصور ابن المعتمر، یحییٰ بن سعید، امام اعمش ،طلحہ بن یحییٰ،داؤد بن ابی ہند محمد بن عمرو۔ (تہذیب التہذیب۸/۳۳۸) تلامذہ خود ان کے دامنِ فیض سے وابستہ رہنے والے اساطین علم میں عبدالرحمن بن مہدی، ابو نعیم ،عبداللہ بن الولید،علی بن نصر اورمعانی بن سلیمان کے نام لائقِ ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۸/۳۳۸) فضل وکمال علمی اعتبار سے ان کا مقام نہایت بلند تھا،جملہ علوم وفنون پر انہیں یکساں قدرت حاصل تھی،حدیث وفقہ،تاریخ ورجال ،زبان وادب میں ان کا عبور مسلم خیال کیا جاتا تھا، امام ابو حاتمؒ بیان کرتے ہیں: کان من اروی الناس للحدیث والشعر واعلمھم بالفقہ والعربیۃ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۷) وہ حدیث فقہ اورعربیت کے بہت بڑے واقف کار تھے۔ ابن ناصر الدین کہتےہیں: کان اماماً علامۃ ثقۃ قاضی الکوفۃ (شذرات الذہب:۱/۲۸۶) وہ امام ،علامہ،ثقہ اورکوفہ کے قاضی تھے۔ علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: کان ثقۃ عالماً بالحدیث والفقہ والشعر وایام الناس (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۷) وہ ثقہ،حدیث وفقہ اورشعر وتاریخ کے عالم تھے۔ حافظ ذہبی نے الامام العلامۃ اورخزرجی نے احد الاعلام لکھ کر ان کے علم وفضل کا اعتراف کیا ہے، (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۷ وخلاصہ تذہیب:۳۱۴)امام وکیعؒ فرماتے ہیں کہ تنوع اورتفنن فی العلوم میں ان کی نظیر شاید وباید ہی مل سکتی ہے (فہرست ابن ندیم :۱۰۳ واخبار القضاۃ:۳/۱۷۵) علامہ یاقوت حموی لکھتے ہیں: ان القاسم من المحدثین والفقھا والزھاد والثقات ولم یکن بالکوفۃ فی عصرہ نظیرہ ولا احد یخالفہ فی شی یقولہ (فہرست ابن ندیم :۱۰۳،واخبار القضاۃ:۳/۱۷۵) بلاشبہ قاسم بن معن محدثین فقہاء زہاد اورثقات کے زمرہ میں شمار کیے جاتے ہیں اور کوفہ میں اس زمانے میں ان کی کوئی نظر نہ تھی اور نہ ان کے قول کی مخالفت کرنے والا کوئی شخص تھا۔ ثقاہت ائمہ جرح وتعدیل نے متفقہ طور پر ان کے عدول اورثقہ ہونے کی شہادت دی ہے،امام احمد ابو حاتم اورابن حبان وغیرہ برملا ان کی توثیق کرتے ہیں،مزید برآں امام ابوداؤد اورامام ترمذی نے اپنی تصانیف میں ان کی مرویات کی تخریج کی ہے۔ (تہذیب التہذیب:۸/۳۳۸) فقہ حنفی کی اتباع اگرچہ قاضی قاسم اپنے تبحر وکمال علم کی بنا پر امامت واجتہاد کے منصب جلیل پر فائز تھے،لیکن چونکہ انہوں نے ایک عرصہ تک امام ابو حنیفہ کی ہم نشینی کا شرف حاصل کیا تھا اور وہ ان کی علمی ژرف بینی ونکتہ رسی سے بے حد متاثر تھے،اس لیے بیشتر امور میں ان ہی کے مسلک کی اتباع کرتے اوراسی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے(معجم الادباء:۶/۲۰۰)ایک بار کسی نے ان سے دریافت کیا کہ آپ خود کو امام ابو حنیفہ کے غلاموں میں شمار کرانا پسند کریں گے،برجستہ فرمایا: ماجلس الناس الیٰ احد انفع من مجالسۃ ابی حنیفۃ (اخبار القضاۃ: ) امام ابو حنیفہؒ کی صحبت سے زیادہ نفع بخش کسی اور کی مجلس نہیں۔ عہدہ قضا فقہ وافتاء میں غیر معمولی مہارت کے باعث کوفہ کے عہدۂ قضا پر بھی ایک طویل عرصہ تک مامور رہے،ان کے جدِّ امجد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی کامل دس سال تک کوفہ کے قاضی اور افسر خزانہ رہ چکے تھےجب قاضی شریک نخعی کی معزولی کے بعد یہ آبائی وراثت قاضی قاسم کے ہاتھوں میں منتقل ہوئی تو انہوں نے اس فرض کو ایسی شان وشکوہ اوراحتیاط وانصاف کے ساتھ انجام دیا کہ حضرت ابن مسعودؓ کے زمانہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ خلیفہ منصور کے زمانہ میں اس عہدہ کی ذمہ داریاں سنبھالیں اورپھر ہارون الرشید کے عہد تک برابر اس پر مامور رہے۔ ایثار وتبرع استغناء اور بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ اپنے طویل زمانہ قضا میں کبھی مشاہرہ اوراجرت لینا پسند نہ فرمایا اورتاحیات تبرعاً یہ خدمت انجام دیتے رہے، علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: ولی قضاء الکوفۃ ولم یرتزق علیہ شیئاً حتیٰ مات (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۷) وہ کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے اورزندگی بھر اس کا مشاہرہ نہیں لیا۔ جب ان کی خدمت میں تنخواہ پیش کی جاتی تو اس کو فوراً مستحقین میں تقسیم کردیتے اوراس میں سے ایک حبہ بھی اپنے استعمال میں نہ لاتے،یزید بن یحییٰ کہتے ہیں۔ کان القاسم یقسم ارزاقہ اذا جاء تہ ولا یستحل ان یاخذ رزقا (اخبار القضاۃ:۳/۱۷۷) امام قاسم کے پاس جب تنخواہ آتی تو اس کو تقسیم کردیتے تھے اور کوئی مشاہرہ لینا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ حالتِ مرض میں فرض کی ادائیگی اس تبرع وبے نیازی کے باوجود منصب قضا کی منصبی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سرمو کوتاہی نہ کرتے یہاں تک کہ شدید علالت ونقاہت کی حالت میں بھی مجلسِ عدالت منعقد کرتے اورپوری حاضر دماغی کے ساتھ عدالتی فیصلے نافذ کرتے، ابن کناسہ بیان کرتے ہیں کہ قاسم سخت بیماری کے عالم میں بھی عدالت میں بیٹھتے تھے۔ (ایضاً:۳/۱۷۸) عالی ظرفی فطری شرافت،نرم خوئی،اوربلند ظرفی ان کی شخصیت کے خاص جوہر تھے،اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ذیل کا واقعہ کافی ہے۔ ایک شخص نے اپنے مکان کا چھجہ اتنا نیچا لگوارکھا تھا کہ اس سے راہ گیروں کو دقت پیش آتی تھی،لوگوں نے اس معاملہ کو قاضی قاسم کی بارگاہِ عدل وانصاف میں پیش کیا، قاضی موصوف نے اس کے انہدام کا فیصلہ صادر کیا، اس پر مالکِ مکان نے بغیر کسی رعایت کے قاضی سے کہا کہ پھر آپ نے کیوں اپنے مکان میں سر راہ روزن کھلوار کھے ہیں؟ فرمایا:"اس سے کسی راہگیر کو زحمت نہیں ہوتی اورنہ سواریوں کی آمد ورفت میں کوئی رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے،اس کے بعد فوراً اپنے بعض خدام کو حکم دیا کہ وہ جاکر پہلے ان کے مکان کے روزن بند کردیں اورپھر بعد میں اس شخص کے چھجہ کو منہدم کریں،تاکہ پھر آئندہ کوئی شخص اس معاملہ میں انہیں شرمندہ نہ کرسکے۔ (اخبار القضاۃ:۳/۱۸۲) خلیفہ کے نزدیک قدر ومنزلت ان کے علم وفضل اورایثار وقربانی سے خلیفہ ہارون الرشید بے حد متاثر تھا،بعض مفسد قاضی قاسم کے خلاف برابر ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے، اورخلیفہ کو ان کے خلاف برانگیختہ کرنے کی کوشش کرتے،لیکن وہ کسی کی بات پر کان نہ دہرتا۔ ایک بار ہارون حیرہ گیا اورچالیس دن تک وہاں مقیم رہا،لیکن قاضی قاسم بن معن اس سے ملنے نہ آئے،اس پر وزیر فضل نے خلیفہ سے کہا کہ "حضور آپ چالیس دن سے یہاں آئے ہوئے ہیں، اس عرصہ میں تمام شرفا اورقضاۃ آپ کے دربار میں حاضر ہوئے،مگر آپ نے خیال نہ فرمایا کہ قاسم بن معن ابھی تک نہیں آئے،یہ سن کر خلیفہ نے نہایت ترش لب ولہجہ میں جواب دیا: ما اعرفنی ای شئی ما ذا ترید؟ ترید ان اعزلہ لا واللہ لا اعزلہ (اخبار القضاۃ:۳/۱۸۰) مجھے معلوم نہیں تم کیا چاہتے ہو؟کیا تمہارا خیال ہے کہ میں قاسم کو معزول کردوں نہیں بخدا میں ایسا نہیں کرسکتا۔ کسائی کا اعتراف فقہ وحدیث کے ساتھ نحو میں بھی غیر معمولی مقام حاصل تھا،کسائی جو علم نحو کی مہارت میں آفاقی شہرت کا حامل ہے،قاضی قاسم کے فضل وتقدم کا معترف ہے اوربایں ہمہ فنی مہارت وتبحر علم کے ان کے سامنے زنوائے تلمذ تہ کرنے کو مایہ صد افتخارسمجھتا تھا،ایک بار کسی نے اس سے پوچھا کہ تم علم،نسب اورفضل میں ان سے مقدم ہو،پھر تم ان سے نحو کیوں حاصل کرتے ہو، اس نے برجستہ کہا، قاسم بن معن میں تین خوبیاں ایسی ہیں،جن میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ الحفظ لما یسمع العلم بما یعی والصدق فیما یؤوی (اخبار القضاۃ:۳/۱۸۱) جو کچھ سنتے ہیں اس کو یاد رکھنےکی حیرت انگیز قوت ،علم اورصدق۔ وفات ۱۷۵ھ میں خلیفہ ہارون الرشید کے ہمراہ مقام رقہ کی طرف روانہ ہوئے درمیان میں مقام راس عین پہنچ کر پیغام اجل آگیا اورمحبوبِ حقیقی سے جاملے، احمد بن کامل نے ان کا سنہ وفات ۱۸۸ بتلایا ہے،لیکن بقول مرز بانی اول الذکر ہی اصح ہے۔ (معجم البلدان:۶/۲۰۰) تصنیفات قاضی قاسم نے کئی کتابیں بھی یاد گار چھوڑی ہیں،لغت میں"کتاب النوادر"حدیث میں "غریب المصنف" اوراس کے علاوہ فن نحو میں بھی کچھ کتابیں ہیں (الاعلام :۲/۷۸۶ وفہرست ابن ندیم:۱۱۳) لیکن ان کے کسی نسخہ کے وجود کا علم نہیں ہے۔