انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فضائل اخلاق مسکین نوازی صحابہ کرامؓ اس قدر مسکین نواز تھے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کسی مسکین کی شرکت کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ (بخاری ،کتاب الاطعمہ،باب المومن یا کل فی معی واحد) ان کے سامنے جب دسترخوان چنا جاتا اوراتفاق سے کسی معزز شخص کا گذرہوجاتا تو ان کے اہل وعیال اس کو شریک طعام کرلیتے ، لیکن وہ خود اس کو نہ بلاتے، البتہ جب کوئی مسکین سامنے سے گذرتا تو اس کو ضرور شریک طعام کرتے اور کہتے کہ یہ لوگ اس کو بلاتے ہیں جس کو کھانے کی خواہش نہیں اوراس کو چھوڑدیتے ہیں جس کو کھانے کی خواہش ہے۔ ایک بار ان کو مچھلی کھانے کی خواہش ہوئی ،آپ کی بیوی صفیہ نے بڑے اہتمام سے لذیذ مچھلی تیار کی،ابھی دسترخوان چنا ہی گیا تھا کہ کانوں میں ایک مسکین کی صدا آئی فرمایا اس کو دے دو، بیوی کو عذر ہوا، لیکن وہ اسی پر اصرار کرتے رہے، بالآخر مسکین کو ایک دینار دے کر راضی کرلیا گیا۔ ایک بار لوگوں نے ان کی بیوی کو ملامت کی کہ تم اچھی طرح ان کی خدمت نہیں کرتیں ،بولیں کیا کروں ،ا ن کے لئے جب کھانا تیار کیا جاتا ہے تو کسی مسکین کو ضرور شریک کرلیتے ہیں؛ چنانچہ اس کے انسداد کے لئے جو فقراءومساکین ان کے راستے میں بیٹھتے تھے انہوں نے ان سے کہلا بھیجا کہ اب ان کے راستے میں نہ بیٹھو، وہ مسجد سے نماز پڑھ کے نکلے تو ان لوگوں کو گھر سے بلوا بھیجا،ان کی بیوی نے ان سے کہہ دیا تھا کہ بلانے پر بھی نہ آنا؛ چنانچہ وہ لوگ نہ آئے تو اس رات کو کھانا نہیں کھایا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) حضرت حارثہ بن النعمانؓ اندھے ہوگئے تھے، اس لیے اپنے مصلی سے دروازے تک ایک دھاگا باندھ رکھا تھا، جب کوئی مسکین آتا تو ٹوکری سے کچھ کھجوریں لے لیتے اور دھاگے کے سہارے سے دروازہ تک آکر اس کو دے دیتے،گھر کے لوگوں نے کہا ہم آپ کا یہ کام کرسکتے ہیں، بولے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسکین کو دینا بری جگہ پر گرنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ (اصابہ ،تذکرہ حضرت حارثہ بن النعمانؓ) ایک دن حضرت عائشہ ؓ روزے سے تھیں اورگھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا، اسی حالت میں ایک مسکین نے سوال کیا تو انہوں نے لونڈی سے کہا کہ وہ روٹی اس کو دے دو، اس نے کہا افطار کس چیز سے کی جئے گا، بولیں دے تو دو شام ہوئی تو کسی نے بکری کا گوشت بھجوادیا، لونڈی کو بلاکر کہا لے کھا یہ تیری روٹی سے بہتر ہے۔ (موطا مالک، کتاب الجامعہ، باب الترغیب فی الصدقہ) استعفاف صحابہ کرام اگرچہ مفلس اورنادار تھے؛ لیکن کسی کے سامنے دست سوال نہیں پھیلاتے تھے، ایک بار چند صحابہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کی ،شرائط بیعت میں ایک شرط یہ بھی تھی: لا تسالواالناس شیئا لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا ان میں بعض لوگوں نے اس شدت کے ساتھ اس کی پابندی کی کہ اگر راہ میں کوڑا بھی گرجاتا تھا تو کسی سے یہ نہیں کہتے تھے کہ اٹھاکردے دو۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب کراہیۃ المسئلۃ) حضرت ابوبکرؓ صدیق اونٹنی پر سوار ہوتے تھے اور ہاتھ سے لگام گرجاتی تھی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اُس کو اُٹھاتے تھے، لوگ کہتے کہ آپ نے ہم سے کیوں نہیں کہا ہم اُٹھادیتے ،فرماتے میرے حبیب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کسی سے کچھ نہ مانگ۔ (مسند ابن حنبل جلد ۱ :۱۱) ایک بارآپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص یہ ضمانت کرے کہ کسی سے سوال نہ کرے گا میں اس کے لئے جنت کی ضمانت کرتا ہوں ،آپ کے مولیٰ ثوبانؓ بولے میں یہ ضمانت کرتا ہوں ،چنانچہ اس کے بعد وہ کسی سے کچھ نہیں مانگتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ ،باب کراہیۃ المسئلۃ) ایک بار حضرت حکیم بن حزام ؓ نے آپ سے سوال کیا آپﷺ نے ان کا سوال پوراکیا،پھر مانگا پھر عنایت فرمایا، لیکن اس کے ساتھ یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اسے حکیم مال نہایت شیریں اورخوش رنگ چیز ہے جو شخص اس کو فیاض دلی کے ساتھ لیتا ہے،اس کو برکت نصیب ہوتی ہے جو شخص اس کو حرص و طمع کے ساتھ حاصل کرتا ہے اس کو برکت نصیب نہیں ہوتی اور وہ مثل اس آدمی کے ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے؛ لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا ،اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہرحال بہتر ہے، حضرت حکیم بن حزامؒ نے اسی وقت عہد کرلیا کہ اب تادم مرگ کسی سے کچھ نہ مانگوں گا اور اس عہد کو اس شدت کے ساتھ پورا کیا کہ حضرت ابوبکرؓ ان کو عطیہ دینے کے لئے طلب فرماتے تھے اور وہ انکار کردیتے تھے، حضرت عمرں نے اپنے زمانہ خلافت میں ان کو عطیہ دینا چاہا، مگر انہوں نے رد کردیا ،بالآخر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مسلمانو!گواہ رہنا میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں اوروہ قبول نہیں کرتے۔ (ترمذی، ابواب الزہدوبخاری ،کتاب الزکوٰۃ، باب الستعفاف عن المسئلہ) حضرت مالک بن سنانؓ سوال کو اس قدر موجب ننگ وعار سمجھتے تھے کہ ایک بار تین دن تک بھوکے رہے ؛لیکن کسی سے کچھ نہ مانگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو فرمایا کہ جس شخص کو عفیف المسالہ(کسی سے سوال نہ کرنے والا) شخص کا دیکھنا منظور ہو وہ مالک ؓ بن سنان کو دیکھ لے۔ ( اسدالغابہ، تذکرہ حضرت مالک بن سنانؓ) اصحاب صفہ اگرچہ ناداری کی وجہ سے بالکل دوسروں کے دست نگر تھے ،تاہم اپنے آپ کو رسوا کرکے سوال کرناان کی شان سے بالکل بعید تھا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ان کے اس مخصوص وصف امتیازی کو خاص طورپر سراہا ہے۔ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا جو شخص ان کی حالت سے ناواقف ہے وہ ان کی خودداری سے ان کو دولتمند سمجھتا ہے تم صرف ان کے بشرسے سے ان کو پہچان سکتے ہو وہ کسی سے گڑ گڑا کر کچھ نہیں مانگتے۔ لوگوں کے سامنے غیروں سے مانگناتو بڑی بات ہے صحابہ کرام ؓ کی غیرت اس کو بھی گوارا نہیں کرتی تھی کہ ماں باپ سے سب کے سامنے سوال کیا جائے،حضرت فاطمہ ؓ گھر کے کام کاج سے تنگ آئی تھیں، رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ لونڈی غلام آئے ،حاضر خدمت ہوئیں کہ آپ سے ایک غلام مانگیں،دیکھا کہ آپ سے کچھ لوگ باتیں کررہے ہیں، شرم کے مارے واپس آئیں۔ (ابوداؤد، کتاب الادب ،باب فی التسبیح عندالنوم) اگر کبھی سوال کا موقع بھی آتا تو صحابہ کرامؓ شرم وحیا سے علانیہ سوال نہیں کرتے تھے، بلکہ صرف حسن طلب سے کام لیتے تھے،حضرت ابوہریرۃؓ اصحاب صفہ میں تھے جن کا تمغہ امتیاز صرف فقروفاقہ تھا، ان کی حالت یہ تھی کہ بھوک کے مارے زمین پر پیٹ کے بل پڑے رہتے تھے پیٹ پر پتھرباندھ لیتے تھے، لیکن کسی سے علانیہ کچھ نہیں مانگتے تھے، ایک روز شاہراہ عام پر بیٹھ گئے، حضر ابوبکرؓ کا گذر ہوا تو ان سے ایک آیت پوچھی وہ گزر گئے اور کچھ توجہ نہ کی ،حضرت عمرؓ کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا؛ لیکن اس حسن طلب سے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ کوئی صاحب متوجہ ہوں اوراپنے ساتھ لے جاکر کھانا کھلائیں۔ (ترمذی، ابواب الزہد،صفحہ ،۸۰۴) ایثار فیاضی ایک اخلاقی وصف ہے؛ لیکن ایثار فیاضی کی اعلی ترین قسم ہے اوروہ صحابہ کرامؓ میں اس قدر پائی جاتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ حضرت عمرؓ کو عطیہ دیتے تھے ؛لیکن وہ یہ کہہ کر انکار کردیتے تھے کہ یہ اس کو دیجئے جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔ (بخاری ،کتاب الزکوۃ، باب من اعطاہ اللہ شیامن غیر مسئلۃ ولاشراف نفس وفی اموالہم حق للسائل والمحروم) ایک بار ایک فاقہ زدہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں حاضر ہوااس وقت آپ ﷺکے گھر میں پانی کے سوا کچھ نہ تھا، اس لیے آپ نے فرمایا، آج کی شب کون اس مہمان کا حق ضیافت ادا کرے گا، ایک انصاری یعنی ابو طلحہ ؓ نے کہا میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چنانچہ اس کو ساتھ لے کر گھر آئے بی بی سے پوچھا کچھ ہے، بولیں صرف بچوں کا کھانا ہے، بولے بچوں کو تو کسی طرح بہلاؤ، جب میں مہمان کو گھر لے آؤں تو چراغ بجھا دو اور میں اس پر یہ ظاہر کروں گا کہ ہم بھی ساتھ کھارہے ہیں، چنانچہ اُنھوں نے ایسا ہی کیا صبح کو آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمایا کہ رات خدا تمہارے اس حسن سلوک سے بہت خوش ہوا اوریہ آیت نازل فرمائی۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (مسلم ،کتاب الاشربہ ،باب اکرام الضیف وفضل ایثارہ) وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں گووہ خود تنگ دست ہوں حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کے پہلو میں اپنی قبر کے لئے مخصوص جگہ رکھی تھی؛لیکن جب حضرت عمرؓ نے ان سے درخواست کی توانہوں نے یہ تختہ جنت ان کو دے دیا اورفرمایا: کنت اریدہ لنفسی ولاوثرن بہ الیوم علی نفسی ۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب قضیۃ البیعہ) میں نے خود اپنے لئے اس کو محفوظ رکھا تھا؛ لیکن آج میں اپنے اوپر آپ کو ترجیح دیتی ہوں۔ ایک غزوہ میں حضرت عکرمہؓ حضرت حارث بن ہشامؓ ،حضرت سہیل بن عمروؓ زخم کھا کر زمین پر گرے اوراس حالت میں حضرت عکرمہؓ نے پانی مانگا، پانی آیا تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت سہیل ؓ پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں، بولے پہلے ان کو پلاؤ ،حضرت سہیل ؓ کے پاس پانی آیا تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت حارث بن ہشام ؓ کی نگاہ بھی پانی کی طرف ہے، بولے ان کو پلا آؤ، بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ کسی کے منہ میں پانی کا ایک قطرہ نہ گیا، اورسب نے تشنہ کامی کی حالت میں جان دی۔ (استیعاب، تذکرہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل) فیاضی اگرچہ صحابہ کرامؓ کے تمام اخلاقی محاسن نے اسلام کو تقویت دی؛ لیکن سب سے زیادہ اسلام کو صحابہ کی فیاضی سے رسوخ و ثبات حاصل ہوا، مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غربت کدہ تھا؛ لیکن انصار کی فیاضی نے آپ کو اپنی آنکھوں میں جگہ دی، مہاجرین کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا اوربعض شرائط کے ساتھ اپنی نخلستان کی پیداوار میں ان کو شریک کرلیا۔ (بخاری ،کتاب المزارعہ، باب اذا قال ا کفنی مؤنۃ التحل وغیرہ) حضرت سعد بن الربیعؓ نے جائیداد کے ساتھ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو اپنی ایک بی بی بھی دینا چاہی ؛لیکن انہوں نے شکریہ کے ساتھ انکار کردیا۔ (ایضا، کتاب المناقب ،باب کیف آخی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین اصحابہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان استغنانے اگرچہ انصار سے خدا کے گھر کے لیے بھی زمین مانگی تو قیمت دینا چاہی؛ لیکن انصار کی فیاضی نے اس کا معاوضہ صرف خدا سے لینا چاہا اورنہایت فراخ حوصلگی کے ساتھ کہا: لا نطلب ثمنہ الا الی اللہ (ابوداؤد، کتاب الصلوۃ ،باب فی بناء المسجد) ہم ان کی قیمت صرف خدا سے مانگتے ہیں۔ اسلام میں عمر ی ایک خاص قسم کا ہبہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص عمر بھر کے لئے کسی پر کوئی چیز ہبہ کردے ،مدینہ میں مہاجرین آئے تو انصار نے ہر قسم کی اعانت وامداد کے ساتھ مہاجرین کو بہت سی جائداد بطور عمری کے دینی چاہی ؛لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ (مسلم، کتاب الفرائض ،باب العمری) انصار میں حضرت سعد بن عبادہ فیاضی میں عام طورپر مشہور تھے، روزانہ ان کے قلعہ کے اوپر سے ایک آدمی پکارتا کہ جس کو گوشت اورچربی کی خواہش ہو وہ یہاں آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو زیادہ تر وہی کھانا تیار کروا کے بھیجتے تھے، اصحاب صفہ کی معاش کا زیادہ تر دارومدار ان ہی کی فیاضی پر تھا؛ چنانچہ جب شام ہوتی تو اورصحابہ ان میں سے ایک یا دو کولے جاتے ؛لیکن وہ اسی اسی آدمیوں کو لے جاکر کھانا کھلا تے۔ (اصابہ، تذکرہ حضرت سعد بن عبادہ) حضرت جعفر بن ابیؓ طالب بھی اصحاب صفہ کے ساتھ لطف و مدارات کے ساتھ ،پیش آتے تھے ،کیونکہ وہ مسکینوں کے ساتھ محبت رکھتے تھے، ان کے ساتھ بیٹھتے اُٹھتے تھے، اوران سے باتیں کرتے تھے، حضرت ابوہریرۃ بھی مساکین صفہ میں داخل تھے، اس لیے ان کو ان کی فیاضی کا خاص تجربہ تھا، وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ سے قرآن مجید کی وہ آیتیں پوچھا کرتا تھا جو مجھے ان سے زیادہ معلوم تھیں اوراس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کوئی کھانا کھلائے ؛چنانچہ جب حضرت جعفر بنؓ ابی طالب سے پوچھنے کا اتفاق ہوتا تو وہ پہلے گھر لے جاکر کھانا کھلاتے تھے اورپھر جواب دیتے تھے، بخاری کی روایت میں ہے کہ ہم لوگوں کو گھر میں لے جاکر سب کچھ کھلا دیتے، یہاں تک کہ گھی کا خالی پیالہ پھاڑڈالتے اورہم لوگ اس کو چاٹ لیتے تھے۔ (بخاری وترمذی ،کتاب المناقب ،جعفر بن ابی طالب) مہاجرین میں حضرت ابوبکرؓ نے آپ کے ساتھ ہجرت کی تو اپنا کل مال جس کی مقدار پانچ یا چھ ہزار تھی، نیک کاموں میں صرف کرنے کے لئے ساتھ لیتے گئے ،ان کے والد ابوقحافہ گھر میں آئے تو کہا، تم لوگوں کو مصیبت میں مبتلا کرکے چلا گیا ،حضرت اسماء ؓ نے ان کی تسکین کے لیے بہت سی کنکریاں جمع کرکے طاق میں رکھیں اوران کو ایک کپڑے سے ڈھانک کر کہا کہ ہاتھ سے ٹٹول لیجئے (وہ اندھے تھے) سب کچھ چھوڑگئے ہیں۔ (مسند ابن حنبل جلد،۶/صفحہ۳۵۰) مہاجرین میں حضرت عثمانؓ جس طرح بہت بڑے دولتمند تھے بہت بڑے فیاض تھی تھے عہد نبوت میں جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو آپ نے مسجد کو وسیع کرنا چاہا، مسجد کے متصل ایک قطعہ زمین تھا جس کی نسبت آپ نے فرمایا کون اس کو خرید کر خدکے حوالہ کرتا ہے؟ حضرت عثمانؓ نے اس کو بیس ہزار درہم پر خرید کر مسجد پر وقف کردیا،غزوہ ٔتبوک میں ایک متمدن سلطنت کا مقابلہ تھا اور صحابہ کرام کے پاس سامانِ جہاد بہت کم تھا، انہوں نے تنہا نہایت فیاضی کے ساتھ تمام سامان مہیا کیا۔ (نسائی، کتاب الجہاد، فضل من جہز غازیہ) غزوہ ٔتبوک کے زمانہ میں آپ کی خدمت میں ہر قل کا قاصد آیا، چونکہ آپ عموما ًقاصدوں سے لطف ومراعات کے ساتھ پیش آتے تھے، اس لئے آپ نے معذرت کی کہ ہم لوگ اس وقت سفر میں ہیں، اگر ممکن ہوا تو ہم تمہیں صلہ دیں گے، حضرت عثمانؓ نے سنا توپکارے کہ میں صلہ دوں گا، چنانچہ اپنے توشہ دان سے ایک حلہ صفوریہ نکال کر اس کو دیا، پھر آپﷺ نے فرمایاکہ،کون اس کو اپنا مہمان بنائے گا؟ ایک انصاری نے کہا میں اس کے لئے حاضر ہوں۔ (مسند ابن حنبل ،جلد ۳،صفحہ،۲۴۴) تقویت اسلام کے علاوہ ذاتی طورپر بھی صحابہ کرام کی فیاضیوں کا دربار عموما بہتا رہتا تھا ،حضرت مقدامؓ ایک صحابی تھے وہ چندرفقاء کے ساتھ حضرت امیر معاویہؓ کے دربار میں حاضر ہوئے اور انھوں نے صرف ان کو مالی عطیہ دیا؛لیکن انہوں نے اپنے تمام رفقاء پر برابر برابر تقسیم کردیا ،حضرت امیر معاویہؓ نے کہا کہ مقدام ایک فیاض شخص ہیں۔ (ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی جلود والنمور) حضرت قیس بن سعدؓ نہایت فیاض اوربہادر صحابی تھے، غزوات میں انصار کا عَلم ان ہی کے ہاتھ میں رہتا تھااوروہ اس عزت کو اپنی فیاضی سے قائم رکھتے تھے، ایک غزوہ میں وہ قرض لے کر فوج کو کھانا کھلاتے تھے ،حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ بھی اس فوج میں شریک تھے، دونوں بزرگوں نے مشورہ کیا کہ اگر ان کو اسی حال پر چھوڑدیا گیا تو اپنے باپ کا تمام سرمایہ برباد کردیں گے، اس لئے ان کو روکنا چاہا حضرت سعدؓ کو معلوم ہوا تو رسول اللہ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوکر کہا، کہ مجھ کو ابن قحافہ اورابن خطاب سے کون بچائے گا؟ میرے بیٹے کو یہ بخیل بنانا چاہتے ہیں (اسدالغابہ جلد،۴صفحہ ۲۱۵ ،تذکرہ حضرت قیس بن سعدؓ) ان کی فیاضی یہیں تک محدود نہ تھی، بلکہ ان کے پاس ایک پیالہ تھا وہ جہاں جاتے تھے اس میں ایک آدمی گوشت اور مالیدہ بھر کے لے چلتا تھا اورپکارتا جاتا تھا کہ" ھلمواالی للحم والثرید "یعنی آؤ اورگوشت اورمالیدہ کھاؤ، ایک بار ایک بڑھیا نے ان سے کہا کہ میرے گھر میں چوہے نہیں رہتے ،بولے کیا خوب کنایہ ہے،اس کا گھر روٹی، گوشت اورکھجور سے بھردو۔ (حسن الحاضرہ جلد اول ،صفحہ ۹۵) حضرت عدی حاتم طائی کے بیٹے تھے، ایک بار ان سے ایک شخص نے سودرہم مانگے تو بولے حاتم کے بیٹے سے صرف سودرہم مانگتا ہے خدا کی قسم نہ دوں گا۔ (مسلم ،کتاب الایمان، باب نذ رہ من یمینا فرای غیرہا خیر امتہا ان یاتی الذی ہو خیر ویکفر عن یمینہ) حضرت عائشہ اس قدر فیاض تھیں کہ جو کچھ ہاتھ میں آجاتا، اس کو صدقہ کردیتی تھیں ،حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ان کو روکنا چاہا تو اس قدر برہم ہوئیں کہ ان سے بات چیت کرنے کی قسم کھا لی۔ (بخاری ،کتاب المناقب، باب مناقب قریش) حضرت اسماءؓ بھی اسی درجہ کی فیاض تھیں ؛لیکن دونوں بہنوں کے طرز عمل میں اختلاف تھا، حضرت عائشہؓ کا معمول یہ تھا کہ جمع کرتی جاتی تھیں، جب معتدبہ سرمایا جمع ہوجاتا تھا تو اس کو تقسیم کردیتی تھیں؛ لیکن حضرت اسماء کل کے لئے کچھ نہ رکھ چھوڑتی تھیں، جو کچھ ملتا تھا روز کا روز صرف کردیا کرتی تھیں۔ (ادب المفرد ،باب السخاوۃ) ایک بار حضرت منکدر بن عبداللہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، بولیں کہ تمہارا کوئی لڑکا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، فرمایا اگر میرے پاس دس ہزار درہم ہوتے تو میں تم کو دے دیتی، حسن اتفاق سے شام ہی کو حضرت امیر معاویہ نے ان کے پاس روپے بھیجے بولیں کس قدر جلدی میری آزمائش ہوئی، فوراً ان کے پاس دس ہزار درہم بھجوادیئے انہوں نے اس رقم سے ایک لونڈی خرید لی اوراس سے ان کے متعدد بچے پیدا ہوئے۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ،منکدر بن عبداللہ ؓ) حضرت سعید بنؓ عاص کی فیاضی کا یہ حال تھا کہ اگر ان سے کوئی سائل سوال کرتا اوران کے پاس کچھ نہ ہوتا تو اس کو دستاویز لکھ دیتے کہ جب ہوگا تو دیا جائے گا، ہر جمعہ کو اپنے بھائی بند کو جمع کرتے، ان کو کھانا کھلاتے خلعت پہناتے اوران کے گھروں پر صلے بھیجتے، ہر جمعرات کو کوفہ(وہ کوفہ کے گورنرتھے) کی مسجد میں غلام کے ہاتھ اشرفیوں کے توڑے بھیجتے کہ نمازیوں کے آگے رکھ آئے، اس بنا پر اس دن مسجد میں نمازیوں کا اژدحام ہوجاتا ، مرتے وقت ان پر اسی ہزار اشرفیوں کا قرض تھا، بیٹے نے پوچھا یہ قرض کیوں کر ہوا، بولے کسی شریف کی حاجت روائی کی کسی حیادار آدمی کو اس کے سوال کرنے سے پہلے دے دیا، اسی میں یہ قرض ہوا۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت سعید بن العاصؓ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی فیاضی کا یہ حال تھا کہ ایک بار ان کے پاس بیس ہزار درہم سے زیادہ آئے ،انہوں نے اسی مجلس میں بیٹھے بیٹھے لوگوں کو دے دیا، یہاں تک کہ جب کل خرچ ہوچکا تو ایک شخص کو انہی میں سے قرض لے کر دے دیا، وہ اکثر روزے سے رہتے تھے؛ لیکن جب کوئی مہمان آجاتا تھا، تو وہ روزہ توڑ دیتے تھے کہ فیاضی کی وجہ سے کھانا کھلانا ان کو بہت پسند تھا، ان کے دسترخوان پر اس کثرت سے لوگ جمع ہوجاتے تھے کہ بعض لوگوں کو کھڑے کھڑے کھانا کھانے کا اتفاق ہوتا تھا، ایک بار ان کی خواہش سے مچھلی پکائی گئی، سامنے آئی تو ایک سائل آیا، انہوں نے اس کو اٹھاکر دے دیا، ایک بار بیمار پڑے لوگوں نے ان کے لئے ایک درہم پر پانچ انگور خریدے، سامنے سے سائل گزرا، انہوں نے اس کو دینا چاہا لوگوں نے کہا ہم اس کو دے دیں گے مگر نہ مانے بالآخر لوگوں نے اس کو دے کر بعد کو اس سے پھر خریدلیا۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) کف لسان حدیث شریف میں آیا ہے من وقاہ اللہ شراثنین والحج الجنہ ما بین لحیہ وما بین رجلیہ (موطا امام مالک) جس شخص کو خدانے دوچیزوں کی برائی سے محفوظ رکھا تو وہ جنت میں داخل ہوا یعنی زبان اور شرمگاہ اس لئے صحابہ کرام ؓ غیبت بدگوئی نکتہ چینی، فحاشی، گالی گلوچ اورلایعنی باتوں سے ،بہت احتراز کرتے تھے۔ حضرت حارث بن ہشامؓ نہایت کم سخن تھے، ایک بار انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کوئی ایسا عمل بتایے جس کا میں التزام کرلوں، آپ نے زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس کو قابو میں رکھو، وہ پہلے ہی سےکم سخن تھے، انہوں نے کہا کہ یہ تو نہایت آسان کام ہے؛ لیکن ان کا بیان ہے کہ جب میں نے اس پر عمل کرنا چاہا تو وہ نہایت دشوار معلوم ہوا۔ (استیعاب، تذکرہ حضرت حارث بن ہشامؓ بن مغیرہ) ایک بار حضرت عبدالرحمن بن حارثؓ نے حضرت عائشہ ؓ وحضرت ام سلمہؓ کی سند سے مروان کے سامنے ایک حدیث بیان کی اس سے پہلے حضرت ابوہریرۃؓ اس کے مخالف روایت کرچکے تھے، مروان نے اس کو قسم دلائی کہ ردوقدح کے ذریعہ سے ابوہریرہؓ کو جاکر دق کرو، لیکن انہوں نے اس کو ناپسند کیا۔ ایک روز اتفاق سے حضرت ابوہریرہ ؓ مل گئے، انہوں نے نہایت نرمی سے کہا میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اوراگر مروان نے قسم نہ دلائی ہو تو نہ کہتا، اس کے بعد حضرت عائشہؓ اورام سلمہؓ کی روایت بیان کی۔ (بخاری ،کتاب الصوم،بَاب الصَّائِمِ يُصْبِحُ جُنُبًا) ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن سلیمؓ کو چند نصیحتیں کیں، جن میں ایک یہ تھی کہ کسی کو برا بھلا نہ کہو وہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے انسان تو انسان اونٹ اور بکری کی نسبت بھی نامناسب الفاظ استعمال نہیں کئے۔ (استیعاب، حضرت جابر بن سلیمؓ) ایک بار حضرت شدادبن اوسؓ سفر میں تھے منزل پر اترے تو غلام سے کہا کہ چھری لاؤ اس سے کھیلیں، چونکہ یہ فعل عبث تھا، لوگوں نے اس پر نکتہ چینی کی،بولے کہ جب سے میں اسلام لایا بجز اس کلمہ کے جو بات کہتا تھا اس کو لگام اورمہار دونوں لگالیتا تھا سو تم لوگو میری اس بات کو نہ یاد کرو۔ (مسند ابن حنبل ،جلد ۴،صفحہ ۱۲۳) اگر صحابہ کرام کی زبان سے کوئی سخت لفظ نکل جاتا تھا تو اس پر ان کو سخت ندامت ہوتی تھی، ایک بار حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ربیعہ اسلمیؓ کو ایک سخت کلمہ کہہ دیا جس پر ان کو سخت ندامت ہوئی اورحضرت ربیعہؓ سے کہا کہ تم بھی مجھ کو ایسا ہی کلمہ کہو ؛تاکہ بدلہ ہوجائے، انہوں نے کہا میں ایسا نہیں کرسکتا،بولے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کروں گا، انہوں نے اب بھی انکار کیا معاملہ آپﷺ تک پہنچا تو آپ ﷺنے حضرت ربیعہؓ سے کہا کہ تم نے بہت اچھا کیا؛لیکن ابوبکرؓ کے لئے استغفار کرو، انہوں نے ان کے لئے دعا مغفرت مانگی تو وہ روتے ہوئے واپس آئے۔ (مسند ابن حنبل، جلد ۴،صفحہ ۵۸،۵۹) ایک بار حضرت عمرؓ اورحضرت ابوبکرؓ میں سخت کلامی ہوگئی، بعد کو حضرت ابوبکرؓ کو ندامت ہوئی اورحضرت عمرؓ سے معافی مانگی ،انہوں نے معافی سے انکار کیا تو گھبرائے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،آپﷺ نے تین بار فرمایا،خدا تمہاری مغفرت کرے اب حضرت عمرؓ کو بھی پشیمانی ہوئی، دوڑے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کے گھر آئے ان سے ملاقات نہ ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ کا چہرہ متغیر ہے، اس حالت میں دیکھ کر خود حضرت ابوبکرؓ کے دل میں خوف پیدا ہوا کہ مبادہ حضرت عمرؓ کے خلاف کوئی ناگوار بات نہ پیش آجائے اس لئے دوزانو ہو کر کہا یا رسول اللہ میں نے بڑا ظلم کیا۔ (بخاری ،کتاب المناقب، فضائل ابی بکرؓ ) حضرت ابوبکرؓ کو اپنی زبان پر قابو نہ تھا، اس لیے وہ ہمیشہ اس پر نادم رہتے تھے، اوراس کی اصلاح کرتے تھے، ایک بار حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ وہ اپنی زبان کھینچ رہے ہیں ،بولے خدا آپ کی مغفرت کرے اس فعل سے باز آیے بولے اسی نے تو مجھے تباہ کیا ہے۔ (موطا مالک، کتاب الجامع، باب ماجاء فیما یخاف من اللسان ) عیب پوشی ایک شخص ایک گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، ہم لوگ اس کو اپنی محفلوں کی گفتگو کا ذریعہ بنالیتے ہیں؛لیکن صحابہ کرام لوگوں کی برائیوں کو چھپاتے تھے اورنیکیوں کو نمایاں کرتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ ان کے عہد میں دنیا کے سیاہ چہرے پر عیب پوشی کی نورانی چادر پڑی ہوئی تھی، ایک دن حضرت عقبہ بن عامرؓ سے ان کے میر منشی نے کہا کہ میرے پڑوسی شراب پیتے ہیں میں نے ان کو منع کیا باز نہ آئے اب میں پولیس کو بلاتا ہوں ، انہوں نے کہا جانے دو، اس نے دوسری بار پھر یہی گذارش کی،بولے، جانے بھی دو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: من رای عورۃ فسترھا کان کمن احیی مؤدۃ ، (ابوداؤد، کتاب الادب، باب السرعلی المسلمؓ) جس نے عیوب پر پردہ ڈالا وہ اس شخص کے مثل ہے جس نے زندہ درگورلڑکی کو بچالیا۔ حضرت ابوبکرؓ کے پاس ایک آدمی آیا اورزنا کا اقرار کیا، بولے اور کسی سے کہا ہے؟ کہا نہیں فرمایا خدا کی بارگاہ میں تو بہ کرو، اوراس پر خدا کا پردہ ڈال لو، کیونکہ خدا بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے؛لیکن اس کو تسکین نہ ہوئی، حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ (موطا محمد، ابواب الحدود فی الزناوباب الاقرار بالزنا ) حضرت ابوبکرؓ فرماتے تھے کہ اگر میں چور کو پکڑتا تو میری سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی کہ خدا اس کے جرم پر پردہ ڈال دے۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ زبید بن الصلت) انتقام نہ لینا اگر دشمن کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو ہمارے لئے انتقام لینے کا اس سے بہتر کوئی موقع نہیں مل سکتا؛ لیکن صحابہ کرام کے دل میں خدا اوررسول کی محبت نے بغض وانتقام کی جگہ کب چھوڑی تھی۔ حضرت عائشہؓ اورحضرت زینب ؓ میں باہم نوک جھونک رہتی تھی، لیکن جب حضرت عائشہ پر اتہام لگایا گیا ،اوررسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ سے ان کی اخلاقی حالت دریافت فرمائی توبجائے اس کے کہ وہ انتقام لیتیں، بولیں کہ میں اپنے کان اورآنکھ کی پوری حفاظت کرتی ہوں مجھے ان کی نسبت بھلائی کے سوا کچھ معلوم نہیں ہے، حضرت عائشہؓ کو خود اعتراف ہے کہ: وھی التی تصامینی فعصمھا اللہ بالورع (بخاری، کتاب الشہادات، باب، تعدیل النساء بعضہن لبعضا) وہ اگرچہ میری حریف مقابل تھیں؛لیکن اللہ تعالی نے ان کو پرہیزگاری کی وجہ سے بچالیا انتقام توبڑی چیز ہے صحابہ کرام اپنے دشمنوں سے بغض رکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ حضرت معاویہ بن حدیج ؓ نے حضرت عائشہؓ کے بھائی محمد بن ابی بکرؓ کو قتل کردیا تھا،ایک بار وہ کسی فوج کے سپہ سالار تھے، حضرت عائشہ ؓ نے ایک شخص سے پوچھا کہ اس غزوہ میں معاویہ کا سلوک کیسا رہا؟ اس نے کہا ان میں کوئی عیب نہ تھا، سب لوگ ان کے مداح رہے، اگر کوئی اونٹ ضائع ہوجاتا تھا تو وہ اس کی جگہ دوسرا اونٹ دے دیتے تھے، اگر کوئی گھوڑا مرجاتا تھا تو وہ اس کی جگہ دوسرا گھوڑا دے دیتے تھے، اگر کوئی غلام بھاگ جاتا تھا ،تووہ اس کی جگہ دوسرا غلام دے دیتے تھے، حضرت عائشہؓ نے یہ سن کر کہا، استغفر اللہ، اگر میں ان سے اس بناپر دشمنی رکھوں کہ انہوں نے میرے بھائی کو قتل کیا، میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہے کہ، خداوندا جو شخص میری امت کے ساتھ نرمی کرے تو بھی اس کےساتھ نرمی کر اورجو ان پر سختی کرے تو بھی اس پر سختی کر۔ (اسدالغابہ ،تذکرہ حضرت معاویہؓ بن حدیج) حلم فیض تربیت نبوی نے صحابہ کرام کو نہایت نرم خو، حلیم اوربرد بار بنادیا تھا، ایک بار ایک شخص نے حضرت ابوبکر ؓکو برا بھلا کہا وہ خاموش رہے اس نے دوسری بار پھر کلمات ناشائستہ کہے وہ چپ رہے تیسری بار پھر ان کا اعادہ کیا تب اس کا جواب دیا؛لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی پسند نہ کیا۔ (ابوداؤد ،کتاب الادب، باب فی الانتصار) حضرت سلمان فارسیؓ مداین کے گورنر تھے؛لیکن حلم و برد باری کا یہ حال تھا کہ ایک بار راستے میں جارہے تھے ایک شخص بانس کا بوجھ لے جارہا تھا، اس سے ان کا بدن چھل گیا اس کے پاس پھر کے آئے اور اس کا شانہ ہلاکر کہا کہ جب تک نوجوانوں کی حکومت کا زمانہ نہ دیکھ لو،تمہیں موت نہ آئے (یعنی وہ میری طرح اس کے متحمل نہ ہوں گے) ۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت سلمان فارسیؓ) مہمان نوازی مہمان نوازی اہل عرب کے محاسن اخلاق کا نہایت نمایاں جزو تھی اوراسلام نے اس کو اور بھی نمایاں کردیا تھا، اس لیے صحابہ کرام کی زندگی میں مہمان نوازی کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بار وفد بنو منتفق حاضر ہوا،اتفاق سے آپ گھر میں موجود نہ تھے، لیکن حضرت عائشہ نے فورا خزیرہ(عرب کا ایک کھانا تھا) تیار کرنے کا حکم دیا اورمہمانوں کے سامنے ایک طبق میں کھجوریں رکھوادیں، آپﷺ تشریف لائے تو حسب معمول سب سے پہلے دریافت فرمایا کہ کچھ ضیافت کا سامان ہوا یا نہیں؟ ان لوگوں نے کہا یہ تو ہوچکا ۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ ،باب فی الاستنثاار) ایک بار ایک شخص حضرت ابوذرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے باصرارکھانامنگوایا اورکہا کہ کھاؤ میں روزہ سے ہوں۔ (ادب المفرد، باب من قدم الی ضیفہ طعاما فقام یصلی) ایک بار حضرت ابولدرداءؓ کی خدمت میں ایک شخص آیا، انہوں نے کہا کہ اگر آپ قیام کریں تو ہم آپ کے ناقہ کو چرنے کے لئے چھوڑدیں اوراگر جانا چاہیں تو اس کو چارہ کھلا دیں، وہ بولا کہ میں جانا چاہتا ہوں ،فرمایا تو میں آپ کو ایک زادراہ دیتا ہوں، اگر اس سے بہتر کوئی زادراہ ہوتا تو میں اس کو تمہارے ساتھ کردیتا، یہ کہہ کر ایک حدیث بیان کی۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۵،صفحہ ۶۹۱) آپ ﷺ کی خدمت میں وفد عبدالقیس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا، اپنے بھائیوں کی خاطر مدارت کرو، کیونکہ شکل میں صورت میں وضع میں اور اسلام میں وہ تم سے بہت کچھ مشابہ ہیں اور بلا جبرو اکراہ اسلام لائے ہیں، انصار نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا، صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئےتو آپ ﷺنے فرمایا، تمہارے بھائیوں نے تمہاری خاطر مدارات کیسی کی؟ بولے بڑے اچھے لوگ ہیں، ہمارے لیے نرم بچھونے بچھائے عمدہ کھانے کھلائے اوررات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے، آپ نہایت خوش ہوئے اورہر ایک نے جو کچھ پڑھا تھا اس کو سنا یا۔ (مسند ابن حنبل، جلد ۲،صفحہ ۲۳۴) ایک شخص مدینہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کے مہمان ہوئے اورانہوں نے جس طریقہ سے ان کی مہمان داری کی وہ اس کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ فلم اررجلا من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم اشد تعمیرا ولا اقوم علی ضیف منہ (ابوداؤد، کتاب النکاح ،باب مایکرہ من ذکر الرجل مایکون من اصابتہ اہلہ) میں نے صحابہ میں سے کسی کو ان سے زیادہ مستعدانہ طریقہ پر مہمانی کرنے والا اورمہمان کی خبر رکھنے والا نہیں پایا۔ حضرت ام شریکؓ نہایت دولتمند اورنہایت فیاض صحابیہ تھیں، انہوں نے اپنے مکان کو مہمان خانہ بنادیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو باہر سے مہمان آتے تھے وہ اکثر ان ہی کے مکان پر ٹھہرتے تھے۔ (نسائی، کتاب النکاح، باب الخطبہ فی النکاح) تحفظِ عزت حضرت محمد بن مسلمہؓ جب کعب ؓ بن اشرف کے قتل کو گئے اوراس سے قرض لینے کا بہانہ کیا تو اس نے اپنی غیر اخلاقی فطرت سے ان کی آل واولاد کو گرو ی کروانا چاہا، لیکن وہ بولے سبحان اللہ لوگ ہماری اولاد کو طعنہ دیں گے کہ دو وسق غلہ پر گروی تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، بَاب فِي الْعَدُوِّ يُؤْتَى عَلَى غِرَّةٍ وَيُتَشَبَّهُ بِهِمْ) حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جس روز شہید ہوئے اس روز اپنی والدہ حضرت اسماء ؓ کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے ان کو دیکھا تو بولیں بیٹا قتل کے خوف سے ہرگز کوئی ایسی شرط نہ قبول کرلینا جس میں تم کو ذلت برداشت کرنی پڑے ،خدا کی قسم عزت کے ساتھ تلوار کھا کر مرجانا اس سے بہتر ہے کہ ذلت کے ساتھ کوڑے کی مار برداشت کرلی جائے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ) شاعروں کی حوصلہ افزائی اگرچہ صحابہ کرام کے تقدس کے خلاف تھی ؛تاہم تحفظ عزت کے لئے وہ اس فرقہ کو بھی محروم نہیں کرتے تھے، ایک بار حضرت عمران بن حصین کی خدمت میں ایک شاعر آیا جس کو انہوں نے صلہ دیا، لوگوں نے کہا آپ شاعر کو انعام دیتے ہیں، بولے اپنی اپنی عزت کو قائم رکھتا ہوں۔ (ادب المفرد ،باب اعطاء الشاعر اذا خاف شرہ) صبر وثبات مردوں پر نوحہ وبکا کرنا، بال نوچنا ،کپڑے پھاڑڈالنا، مدتوں مرثیہ خوانی کرنا، عرب کا قومی شعار تھا، لیکن فیض تربیت نبوی نے صحابہ کرام کو صبر وثبات کا اس قدر خوگر بنادیا تھا کہ حضرت ابو طلحہؓ انصاری کا لڑکا بیمار ہوا اوروہ صبح کے وقت اس کو بیمار چھوڑکر باہر چلے گئے اوران کی عدم موجود گی میں لڑکا جان بحق تسلیم ہوگیا ان کی بی بی نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ ابو طلحہؓ سے نہ کہنا وہ شام کو پلٹے تو بی بی سے پوچھا کہ بچہ کیسا ہے ،بولیں پہلے سے زیادہ سکون کی حالت میں ہے یہ کہہ کر سامنے کھانا لائیں اورانہوں نے کھانا کھایا، اس کے بعد معمول سے زیادہ بن ٹھن کے سامنے آئیں،اوران کے ساتھ ہم بستر ہوئیں، صبح ہوئی تو استعارۃ کہا کہ اگر ایک قوم کسی کو کوئی چیز عاریۃ دے اورپھر اس کا مطالبہ کرلے تو کیا اس کو اس کے روک رکھنے کا حق حاصل ہے؟ بولے ،نہیں بولیں تو پھر اپنے بیٹے پر صبر کرو۔ (مسلم ،کتاب الاداب ،باب استحباب تحنیک المولودعندولادۃ وحملہ الی صالح یحنکہ وجواز تسمیۃ یوم ولادۃ واستحباب التسمیۃ یعید اللہ واب اسیم وسائر اسما لانبیاء علیہم السلام وکتاب الفضائل باب من اہل طلحۃ الانصاری) رسول اللہ ﷺ غزوہ احد سے واپس ہوئے تو تمام صحابیات اپنے اپنے اعزہ و اقارب کا حال پوچھنے آئیں، انہی میں حضرت حمنہ بنت ؓجحش بھی تھیں، وہ آئیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ حمنہ اپنے بھائی عبداللہ بن جحش کو صبر کرو، انہوں نے اناللہ پڑھا اوران کے لئے دعائے مغفرت کی پھر فرمایا کہ اپنے ماموں حمزہؓ بن عبدالمطلب کو بھی صبر کرو، انہوں نے اس پر بھی انا للہ پڑھا اوردعائے مغفرت کرکے خاموش ہورہیں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت حمنہ بنت جحش) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے صاحبزادے واقدنے انتقال کیا تو انہوں نے تجہیز وتکفین کے بعد بدووں کو بلایا اوران میں دوڑکر وائی اس پر حضرت نافع ؓ نے کہا کہ ابھی آپ واقد کو دفن کرکے آئے ہیں اور ابھی بدووں میں دوڑ کروارہے ہیں، فرمایا اے نافع جب مشیت ایزدی اپنا کام کرچکی تو اس کے نتائج کو کسی نہ کسی طرح بھلا ہی دینا چاہئے۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ واقد بن عبداللہ) حضرت عبداللہ بن زبیرؓکی جب حجاج سےجنگ ہوئی تو ان کی والدہ حضرت اسماءؓ بیمارتھیں وہ ان کے پاس آئے اورمزاج پرسی کے بعد بولے کہ مرنے میں آرام ہے،بولیں شاید تم کو میرے مرنے کی آرزو ہے؛ لیکن جب تک دوباتوں میں سے ایک نہ ہوجائے میں مرنا پسند نہ کروں گی، یا تم شہید ہو جاؤ اور میں تم کو صبر کرلوں یا فتح وظفر حاصل کرو کہ میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں،چنانچہ جب وہ شہید ہوچکے تو حجاج نے ان کو سولی پر لٹکادیا حضرت اسماؓ باوجود پیرانہ سالی کے یہ منظر دیکھنے آئیں اوربجائے اس کے کہ روتی پیٹتیں ،حجاج کی طرف مخاطب ہوکر کہا کیا اس سوار کے لئے ابھی تک وقت نہیں آیا کہ اپنے گھوڑے سے نیچے اتر آئے۔ (استیعاب ،تذکرہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ) حضرت عبداللہ بن عباسؓ ایک سفر میں تھے، اسی حالت میں اپنے بھائی حضرت قثم بن عباسؓ کے انتقال کی خبر سنی پہلے انا للہ پڑھا، پھر راستے سے ہٹ کر دورکعت نماز ادا کی نماز سے فارغ ہوکر اونٹ پر سوارہوئے اوریہ آیت پڑھی۔ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۰ وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ۔ (البقرة: ۴۵) (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت قثم بن عباسؓ) (مصیبت میں) صبر اورنماز کا سہارا پکڑونماز بجز خشوع وخضوع کرنے والوں کے سب پر گراں ہے۔ اسی صبر وثبات کا یہ نتیجہ تھا کہ جب کفارنے حضرت خبیبؓ کو شہید کرنا چاہا تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اورکہا کہ اگر تم کو یہ خیال نہ ہوتا کہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں تو ان رکعات کو اورطویل کرتا اس کے بعد یہ اشعار پڑھے۔ ولست ابالی حین اقتل مسلما علی ای شق کان للہ مصرعی جب میں مسلمان ہوکر مرتا ہوں تو اس کی کیا پروا کہ میرا دھڑ کس بل گرے گا وذلک فی ذات الالہ وان یشاع یبارک علی اوصال شلو ممزہ یہ مرنا توخدا کے لئے ہے اگروہ چاہے توان کئے ہوئے جوڑوں پر برکت نازل کرسکتا ہے (بخاری، کتاب الجہاد، باب قتل الاسیر) جرأت وشجاعت جرأت و شجاعت کا اظہار کبھی عقائد کے اظہار میں ہوتا ہے کبھی میدان جنگ میں اورکبھی ظالم بادشاہوں کے سامنے صحابہ کرام میں یہ اخلاقی جوہر موجود تھا اس لئے اس کا ظہور ان تمام موقعوں پر ہوتا تھا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نہایت قدیم الاسلام صحابی ہیں وہ مکہ میں آکر ایمان لائے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہدایت کی کہ اس وقت اپنے وطن کو واپس جاؤ اوراپنی قوم کو میری بعثت کی خبر کرو؛ لیکن انہوں نےنہایت پر جوش لہجے میں کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں کفار مکہ کے سامنے ہی کلمہ توحید کا اعلان کروں گا ،حالت یہ تھی کہ وہ غریب الوطن تھے، مکہ میں کوئی ان کا حامی و مددگار نہ تھا، لیکن باایں ہمہ وہ مسجد حرام میں آئے اوربآواز بلند کہا"اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ" اس آواز کا سننا تھا کہ کفار ٹوٹ پڑے اورسخت زدوکوب کی؛لیکن انہوں نے دوسرے دن پھر اسی جوش کے ساتھ خانہ کعبہ میں اس کلمے کا اعلان کیا، اورکفار نے پھر اسی طرح یورش کی۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب اسلام ابی ذرؓ) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ چھٹے مسلمان ہیں ان میں سے پہلے کوئی مسلمان مکہ میں علانیہ تلاوت قرآن کی جرأت نہیں کرسکتا تھا، لیکن وہ اسلام لائے تو ایک روز تمام صحابہ نے جمع ہوکر کہا کہ اب تک قریش نے قرآن مجید کو کسی کی زبان سے علانیہ نہیں سنا، اس کی جرأت کون کرسکتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا میں، صحابہ کرامؓ نے کہا کہ ہم کو تمہاری نسبت خوف ہے ہم ایسا آدمی چاہتے ہیں جس کا قبیلہ ہوتا کہ کفار حملہ کریں تو اس کی طرف سے مدافعت کرسکتے ،بولے مجھے جانے دو خدا میری حفاظت کرے گا، اُٹھے اور ٹھیک دوپہر میں آئے خانہ کعبہ میں قریش انجمن آراتھے ،مقام ابراہیم کے پاس پہنچ کر بآواز بلند کہا:"الرَّحْمَنُ ، عَلَّمَ الْقُرْآنَ"کفارنے سنا تو کہا کہ ابن عم عبید کیا کہتا ہے؟ غور کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی آیتیں ہیں، دفعۃ تمام کفار ٹوٹ پڑے اور زود کوب کرنے لگے، وہ پلٹے تو چہرے پر زخموں کے نشان دیکھ کر صحابہ نے کہا کہ ہم کو اسی کا تو ڈر تھا، بولے، خدا کے دشمن آج سے زیادہ مجھے کبھی کمزور نظر نہیں آئے، اگر کہو تو کل بھی اسی طرح ان کو علانیہ قرآن سناآؤں۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ) حضرت عمرؓ اسلام لائے تو پہلے اپنے ماموں کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹا یا، انہوں نے دروازہ کھولا تو کہا، تمہیں معلوم ہے کہ میں صابی ہوگیا، وہاں سے ایک سردار قریش کے پاس آئے اور وہاں بھی یہی گفتگو ہوئی وہاں سے نکلے تو ایک آدمی نے کہا کہ تم اپنے اسلام کا اعلان کرنا چاہتے ہو؟ بولے ،ہاں اس نے کہا تو اس کی صورت یہ ہے کہ جب کفار خانہ کعبہ میں حجر اسود کے پاس جمع ہوں تو تم وہاں جاؤ ان میں ایک آدمی جو افشائے راز میں بدنام ہے اس کے کان میں یہ راز کہہ دو وہ اعلان کردے گا، انہوں نے خانہ کعبہ میں جاکر اس کے کان میں کہا تو وہ بآواز بلند پکارا عمربن خطاب صابی ہوگیا، یہ سننا تھا کہ کفار دفعۃ ٹوٹ پڑے اورباہم زدو کوب ہونے لگی، بالآخر ان کے ماموں نے اپنی آستین سے اشارہ کیا کہ میں اپنے بھانجے کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں اب کفار رک گئے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت عمرؓ ) غزوات میں صحابہ کرام نے جس طرح داد شجاعت دی صحابیات کے بہادرانہ کارنامے اس سے بھی زیادہ حیر انگیز ہیں ، غزوہ حنین میں کفار نے اس زور وشور سے حملہ کیا تھا کہ میدان جنگ لرز اٹھاتھا ؛لیکن حضرت ام سلیمؓ کی شجاعت کا یہ حال تھا کہ ہاتھ میں خنجر لئے ہوئے منتظر تھیں کہ کوئی کافر سامنے آئے تو اس کا کام تمام کردیں ،چنانچہ حضرت ابوطلحہ ؓ نے ان کے ہاتھ میں خنجر دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ بولیں چاہتی ہوں کہ کوئی کافر قریب آئے تو پیٹ میں بھونک دوں۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی السلب یعطی القاتل) غزوۂ خندق میں رسول اللہ ﷺ نے تمام بیبیوں کو ایک قلعہ میں کردیا تھا، ایک یہودی آیا اورقلعہ کے گرد چکر لگانے لگا، حضرت صفیہ(حضوراکرمﷺکی پھوپی) نے دیکھا تو حضرت حسان ؓ سے کہا ممکن ہے کہ یہ پلٹ کر یہودیوں سے ہماری جاسوسی کرے ،جاؤ اوراسکو قتل کرو، بولے تمہیں تو یہ معلوم ہے کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں، اب حضرت صفیہؓ خود اتریں اورخیمہ کے ایک ستون سے اس کو ایسا مارا کہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب) تمام عرب حجاج کے ظلم و ستم سے کانپتا تھا، لیکن جب اس نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو پھانسی دی اوران کی والد ہ حضرت اسماؓ کو بلوا بھیجا تو انہوں نے آنے سے انکار کیا دوسری بار آدمی بھیجا کہ اگر اب کی نہ آئیں تو بال پکڑ واکر بلاؤں گا، انہوں نے پھر انکار کیا اورکہا کہ ان لوگوں کو بھیج دو جو بال پکڑ کر مجھے گھسیٹ لے جائیں،مجبوراً حجاج خود آیا اورکہا کہ دیکھا میں نے خدا کے دشمن کے ساتھ کیا کیا، بولیں ہاں دیکھا تم نے اس کی دنیا خراب کی اس نے تمہای آخرت کو برباد کیا، مجھے معلوم ہوا کہ تم اس کو ابن ذوالنطاقین کہتے تھے (دوٹپکوں والی عورت کا لڑکا) خدا کی قسم ذوالنطاقین میں ہی ہوں، ایک ٹپکا میں میں نے ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کا زادراہ باندھا تھا اور دوسرا ٹپکا عورت کا معمولی ٹپکا ہے جس سے وہ بے نیاز نہیں ہوسکتی ،آپﷺ نے فرمایا ہے کہ ثقیف میں ایک کذاب اورایک ہلاکو پیدا ہوگا، کذاب (مسلمہ) کوتو ہم دیکھ چکے ،میرا خیال ہے کہ ہلاکو تو ہے، حجاج اُٹھ کھڑا ہوا اورکچھ جواب نہ دیا۔ (مسلم ،کتاب الفضائل ،باب ذکر کذاب ثقیف وغیرہ) اعتراف گناہ اگرچہ صحابہ کرام چھوٹے سے چھوٹے گناہ کو بھی بڑا سمجھتے تھے اوراس سے اجتناب کرتے تھے؛ چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: إِنَّكُمْ لَتَعْمَلُونَ أَعْمَالًا هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنْ الشَّعَرِ إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمُوبِقَاتِ (بخاری ،کتاب الرقاق ،بَاب مَا يُتَّقَى مِنْ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ،حدیث نمبر:۶۰۱۱) تم لوگ بہت سے کام کرتے ہو جو تمہیں بال سے بھی زیادہ باریک یعنی حقیر نظر آتے ہیں، لیکن ہم لوگ عہد نبوت میں ان کو مہلک ترین گناہ میں شمار کرتے تھے۔ تاہم مقتضائے بشریت ان سے کبھی کبھی بعض گناہ سرزد ہوجایا کرتے تھے ؛لیکن ہم میں اوران میں فرق یہ ہے کہ ہم گناہ کرتے ہیں تو طرح طرح کے ریاکارانہ طریقوں سے اس کو چھپاتے ہیں ؛لیکن صحابہ کرام نہایت صداقت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے تھے اور طالب مغفرت ہوتے تھے۔ ایک بار ماہ رمضان میں حضرت سلمہ بنؓ صخر نے اپنی بی بی سے ظہار کیا لیکن ایک روز بی بی رات کو مصروف خدمت تھیں ان سے مقاربت کرلی؛ چونکہ اس حالت میں مقاربت ناجائز تھی پہلے اپنی قوم کو اس واقعہ کی خبر کی اورکہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلو، لوگوں نے انکار کیا تو خود گئے اورآپ کو واقعہ سے اطلاع دی، آپ نے فرمایا ،تم اور ایسا کام بولے،ہاں یا رسول اللہ میں خدا کے حکم پر صابر رہوں گا، جو فیصلہ ہو صادر فرمائیے۔ (ابوداؤد، کتاب الطلاق، باب فی الظہار) ایک بار روزے کے دن حضرت عمرؓ نے اپنی بی بی کا بوسہ لے لیا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں نے بڑا قصور کیا ہے آپ نے فرمایا اگر تم روزے کی حالت میں کلی کرلو تو اس کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے بولے اس میں تو کوئی حرج نہیں ارشاد ہوا کہ اسی طرح اس کو بھی جانے دو۔ ایک بار رمضان کے دن میں رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے ایک صحابی نے آکر کہا یا رسول اللہ میں برباد ہوگیا،آپﷺ نے پوچھا کیا حال ہے بولے بی بی سے مقاربت کرلی ۔ صداقت حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جھوٹ سے زیادہ کوئی بات اصحابِ رسول اللہ کے نزدیک مبغوض نہ تھی، اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں جھوٹ بول دیتا توآپﷺ کے دل میں اس وقت تک اس کی کھٹک باقی رہتی جب تک وہ توبہ نہ کرلیتا۔ مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے تمام مالِ غنیمت قریش کو دےدیا ،انصار کو خبر ہوئی تو بولے یا للعجب ہماری تلواروں سے جن کاخون ٹپک رہا ہے ہمارا مال غنیمت انہیں کو دیا جارہا ہے، آپ ﷺکو معلوم ہوا تو تمام انصار کو جمع کرکے پوچھا کہ کیا بات ہے، صحابہ کرام آپ کے خوف وادب سے کانپتے رہتے تھے اس لیے آپ ﷺکے سامنے اس گستاخی کا اقرار ان کے لیے نہایت مشکل تھا، تمام انصار نے صاف کہدیا کہ جو کچھ آپ ﷺکو معلوم ہوا واقعہ وہی ہے ،اس حدیث کے راوی حضرت انس بن مالکؓ اس واقعہ کے بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں "وکانو الا یکذبون" یہ اقرار اس بنا پر تھا کہ صحابہ کرام جھوٹ نہ بولتے تھے۔ غزوۂ تبوک کی عدمِ شرکت پر رسول اللہ ﷺ نے باز پرس فرمائی تو منافقین نے جھوٹی سچی معذرت کردی اور آپﷺ نے اسے قبول کرلیا؛ لیکن حضرت کعب بن مالکؓ نے سچ سچ کہہ دیا کہ اگر میں کسی دنیا دار آدمی کے پاس ہوتا تو چرب زبانی سے اس ناراضی سے بچ جاتا؛ لیکن اگر میں کوئی جھوٹاعذر کرکے آپﷺ کی ناراضی سے بچ جاؤں تو ممکن ہے کہ خدا آپﷺ کو مجھ پر ناراض کردے (یعنی بذریعہ وحی اصل حقیقیت سے خبر کردے) لیکن اگر سچ بولوں تو اگر آپ مجھ پر ناراض ہوجائیں گے تاہم مجھ کو خدا سے عفو ومغفرت کی توقع رہے گی ،خدا کی قسم میں بالکل معذور نہ تھا ،خدا کی قسم میں اس زمانے سے زیادہ کبھی متمول اور چاق وچست نہ تھا،آپﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا بالاخر آپ نے ان پر سخت ناراضی کا اظہار کیا؛ لیکن جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی تو ان کو خود اس صداقت پہ ناز ہوا؛ چنانچہ خود فرماتے ہیں: "مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ أَنْ هَدَانِي لِلْإِسْلَامِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا" (بخاری ،کتاب المغازی، باب غزوہ تبوک) اسلام لانے کے بعد خدانے مجھ پر کوئی ایسا احسان نہیں کیا جس کی عزت میرے دل میں اس سچائی سے زیادہ ہو جس کا اظہار میں نے آپ کے سامنے کیا، اگر میں جھوٹ بولتا تو اسی طرح ہلاک ہوجاتا جس طرح وہ لوگ ہلاک ہوئے جو جھوٹ بولتے تھے (یعنی منافقین)۔ اہلِ عرب خاندانی عصیبت اورشرافت کا بہت زیادہ لحاظ رکھتے تھے؛ لیکن ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انصار کے خاندانوں میں سب سے بہتر بنونجار ہیں، پھر بنو عبدالاشہل پھر بنو حارث بن خزرج، پھر بنو ساعدہ ،قبیلہ بنو ساعدہ کے بعض سربر آوردہ بزرگوں کو یہ ناگوار گذرا کہ آپ نے ان کو چوتھے نمبر پر رکھا ؛لیکن اسی قبیلہ کے ایک بزرگ حضرت ابو اسید ؓ نے جب یہ روایت کی تو فرمایا کہ اگر میں جھوٹ بولتا ،تو سب سے پہلے اپنے قبیلہ بنو ساعدہ کا نام لیتا۔ (مسلم، کتاب الفضائل ،باب فی خیر الانصار) صحابہ کرام جھوٹ کو اپنے دامن کا اس قدر بد نما داغ سمجھتے تھے کہ اگر ان پر کبھی کذب ودروغ کا اتھام لگ جاتا تو ان کے گھر میں صف ماتم بچھ جاتی ،ایک سفر میں عبداللہ بن ابی سلول نے اپنے رفقاء سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو بدو ہیں ان کو کچھ نہ دو یہاں تک کہ وہ بھاگ جائیں اب ہم اگر مدینہ کولوٹ کر جائیں گے تو وہاں سے معزز لوگ ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے، حضرت زید بن ارقمؓ نے سن لیا اوراپنے چچا سے اس کا ذکر کیا ،انہوں تو اس واقعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا، آپ نے عبداللہ بن ابی کو بلا بھیجا ،تو اس نے حلف اٹھایا کہ میں نے ایسا نہیں کہا ،آپﷺ نے اس کے قول کا اعتبار کرلیا اورحضرت زید بنؓ ارقم کی تکذیب کی اس کا ان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ عمر بھر کبھی نہ ہوا تھا یہاں تک کہ وہ اس صدمہ میں خانہ نشین ہوگئے اورفرط غم سے گردن جھک گئی، اس کےبعد جب سورۃ منافقون نازل ہوئی تو آپ نے ان کو طلب فرمایا اورکہا کہ خدا نے تمہاری تصدیق کی۔ (ترمذی، ابواب تفسیر القرآن، تفسیر سورۃ المنافقین) دیانت ایک بار حضرت ابی بنؓ کعب نے سو اشرفیوں کا توڑا پایا اورکمال دیانت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ان کا تذکرہ کیا، آپﷺ نے فرمایا ،کہ ایک سال تک مالک کی جستجو میں منادی کرتے رہو، انہوں نے تعمیل ارشاد کی،دوسرے سال پھر حاضر خدمت ہوئے ،آپ ﷺنے پھر یہی حکم دیا ، پھر تیسرے سال آئے، آپﷺ نے پھر یہی ارشاد فرمایا، پھربھی مالک نہیں ملاتو آپ ﷺنے فرمایا کہ بحفاظت رکھ لو، اگر مالک مل گیا تو خیر ورنہ خود خرچ کرڈالو۔ (ابوداؤد ،کتاب اللقطہ) ایک بار حضرت مقدادؓ بضرورت بقیع خنجبہ میں گئے دیکھا کہ چوہا بل سے اشرفیاں نکال کر ڈھیر کررہا ہے، انہوں نے گنا تو اٹھارہ نکلیں اٹھا لائے اورآپﷺ کی خدمت میں پیش کرکے کہا کہ اس کا صدقہ لے لی جئے،فرمایا خود تو بل سے نہیں نکالا تھا؟ بولے نہیں ارشاد ہوا خدا تمہیں برکت دے۔ (آیۃ کتاب الخزاج والا مار،باب جاء فی الرکاز) ایک بار حضرت سفیانؓ بن عبداللہ ثقی نے کسی کا توشہ دان پایا، تو حضرت عمرؓ کے پاس لائے، انہوں نے فرمایا کہ ایک سال تک اعلان کرو اگر مالک کا پتہ نہ چلے تو وہ تمہارا ہے سال بھر تک مالک کا پتہ نہ چلا تو وہ پھرا ٓئے ،حضرت عمرنے فرمایا تو وہ اب تمہارا ہے، بولےمجھے ضرورت نہیں، آخرکار حضرت عمرؓ نے اس کو بیت المال میں داخل کردیا۔ ایک بار حضرت جریر کا چرواہا گایوں کو چراکر لایا تو ساتھ ساتھ کسی دوسرے کی ایک گائے بھی آگئی، بولے یہ کس کی ہے؟ چرواہے نے کہا ،خبر نہیں گلے کے ساتھ آکر مل گئی ،فرمایا اس کو نکال دو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بھولے بھٹکے جانورکو صرف گمراہ پناہ دیتا ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الللقطہ) ایک صحابی کی اونٹنی گم ہوگئی اورانہوں نے دوسرے صحابی سے کہہ دیا کہ ملے تو پکڑ لینا ان کو اونٹنی مل گئی؛ لیکن اس کا مالک کہیں چلا گیا، انہوں نے اونٹنی اپنے یہاں رکھ چھوڑی کہ مالک آئے تو حوالہ کردیں ،اسی اثناء میں اونٹنی بیمار پڑی، بی بی نے کہا ذبح کرڈالو، فقر وفاقہ کی یہ حالت تھی کہ مردار کھانے پر مجبور تھے، چنانچہ اونٹنی مرگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کا گوشت کھانے کی اجازت بھی دے دی ؛لیکن کمال دیانت سے ذبح کرنے پر راضی نہ ہوئے، مالک آیا تو انہوں نے تمام سرگزشت کہہ سنائی، اس نے کہا ذبح کیوں نہیں کرڈالا، بولے تم سے شرم آتی تھی۔ (ابوداؤد، کتاب الاطعمہ ،باب فی المضطر الی المیتہ) حضرت زبیرؓ کی دیانت کا یہ حال تھا کہ جب کوئی شخص ان کے پاس امانت رکھتا تو کہتے کہ مبادہ کہیں یہ ضائع نہ ہوجائے، اس لئے ہم پر یہ قرض رہی، اس طرح ان پر کئی لاکھ کا قرض ہوگیا(بخاری ،کتاب الجہاد ،باب فی برکۃ الغازی فی مالہ حیاومیتا) متعدد صحابہ نے ان کی حفاظت میں اپنا مال دے دیا تھا اوروہ اس دیانت سے اس کی نگہداشت کرتے تھے کہ خود اپنے مال سے ان کے اہل وعیال کے نان و نفقہ کا انتظام کرتے تھے، مگر ان کا مال صرف نہیں کرتے تھے۔ (اصابۃ ،تذکرہ حضرت زبیرؓ بن العوام ) ایک صحابی کے پاس کسی کی وراثت کا مال محفوظ تھا،انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میرے پاس قبیلہ ازو کے ایک شخص کی وراثت کا مال محفوظ ہے، میں کسی ازوی کو نہیں پاتا کہ اس کے حوالہ کروں ،ارشاد ہوا کہ جاؤ ایک سال تک تلاش کرو ،ایک سال کے بعد آئے اور کہا کہ نہیں ملتا ،پھر یہی حکم ہوا، ایک سال کے بعد پھر آئے اور کہا نہیں ملتا ،فرمایا کہ پہلے جس خزاعی کو پاؤ اس کو سونپ دو۔ (ابوداؤد، کتاب الفرائض، باب فی میراث ذوی الارحام) حضرت عقیل بن ابی طالبؓ غزوۂ حنین سے پلٹے تو بی بی نے کہا کہ مالِ غنیمت میں کیا لائے، انہوں نے ان کو ایک سوئی دی کہ اس سے کپڑا سینا، اتنے میں رسول اللہ ﷺ نے منادی کروائی کہ دھاگا اورسوئی تک دے دو، انہوں نے فوراً سوئی لے لی اورمال غنیمت میں داخل کردیا۔ (اسد الغابہ، تذکرہ فاطمہ بنت شیبہ ) یہ دیانت صرف مال و دولت تک محدود نہ تھی، بلکہ اس کا اثر صحابہ کرام کی ہر چیز سے نمایاں ہوتا تھا، حضرت عمرؓ کا اخیر وقت آیا تو ایک خاص ضرورت سے حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا اور کہا کہ ،عمر کا سلام کہو، امیر المومنین نہ کہنا، کیونکہ میں اب امیر المومنین نہیں ہوں۔ صحابہ کرام صرف خود ہی دین دار نہ تھے، بلکہ دین دار لوگوں کے بہت بڑے قدرداں بھی تھے، ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ مدینہ کے اطراف میں سے نکلے، ایک خدا ترس چرواہا بکریاں چرارہا تھا ،انہوں نے اس کو کھانے پر بلایا ؛لیکن اس نے عذر کیا کہ میں روزے سے ہوں ،اب انہوں نے اس کے ورع وتقوی کا امتحان لینے کو کہا ،ان بکریوں میں سے ایک بکری فروخت کردو ہم تمہیں قیمت میں بھی دیں گے اورافطار کرنے کے لئے گوشت بھی؛ لیکن اس نے کہا کہ بکریاں میری نہیں ہیں میرے آقا کی ہیں انہوں نے کہا کہ تمہارا آقا کیا کرے گا؟ اب چرواہے نے پیٹھ پھیرلی اورآسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا " خدا کہاں چلا جائے گا" حضرت عبداللہ عمرؓ اس فقرے پر محو ہوگئے اور بار بار اس کو دہرانے لگے مدینہ میں پلٹ کر آئے تو اس کو اس کے آقا سے مع بکریوں کے خریدکر آزاد کردیا، اوربکریاں اس پر ہبہ کردیں۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) خاکساری اگرچہ دنیا صحابہ کرام کی خاکِ پاکو آنکھ کا سرمہ بناتی تھی؛ لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام تواضع وانکساری کے پیکر تھے ، ایک مرتبہ محمد بن حنفیہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کون شخص افضل الناس ہے؟ بولے ابوبکرؓ ،پھر پوچھا کہ ان کے بعد بولے عمرؓ اس کے بعدمحمد بن حنفیہ خود کہہ اُٹھے کہ ان کے بعد آپؓ،حضرت علیؓ نے فرمایا میں تو مسلمانوں کا ایک معمولی فرد ہوں۔ (ابوداؤد، کتاب الاعتصام بالسنۃ، باب فی تفصیل) حضرت سلمان فارسیؓ مداین کے گورنر تھے؛ لیکن طرز معاشرت اس قدر سادہ رکھا تھا کہ کوئی پہچان نہیں سکتا تھا، ایک بار کسی شخص نے گھاس خریدی اوران کو بیگار پکڑ کر گٹھیا سرپر لاددی، وہ چلے تو لوگوں نے کہا یہ امیر ہیں، صاحب رسول اللہ ﷺ ہیں ،اس نے کہا معاف فرمائیے میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا، بوجھ سرسے رکھ دیجئے، بولے نہیں اب تو تمہارے گھر پہنچا کر اتاروں گا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت سلمان فارسیؓ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ نہایت خاکسارانہ زندگی بسر کرتے تھے، ایک بار ان کے پاس کسی نے ہردی کپڑے ہدیۃ بھیجے ،انہوں نے واپس کردیا اورکہا کہ ہم غرور کے خوف سے اس کو نہیں پہن سکتے، اگر کسی مجلس میں جاتے اور کوئی ان کی تعظیم کو اٹھتا تو وہاں نہ بیٹھتے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ) حضرت امیر معاویہ ؓ کو جاہ پسند کہا جاتا ہے؛ لیکن ایک بار ابن عامران کی تعظیم کے لئے اٹھے تو انہوں نے منع کیا۔ (طحاوی،باب فی قیام الناس بعضا لبعض ودادب المفرد، باب قیام الرجل للرجل تعظیماً) عفودرگذر صحابہ کرام کی زندگی اس آیت کی حقیقی تفسیر ہے: "وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ" (آل عمران: ۱۳۴) غصے کے ضبط کرنے والے اورلوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ ایک بار حضرت صفوانؓ مسجد میں کمل بچھا کر سورہے تھے، ایک شخص آیا اوراس کو چرا کر چلتا ہوا، لیکن لوگ اس کو پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اورآپ ﷺنے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، حضرت صفوانؓ کو خبر ہوئی تو حاضر خدمت ہوکر عرض کیا :کیا۳ درہم (چادر کی یہی قیمت تھی) کے لیے آپ اس کا ہاتھ کاٹتے ہیں، میں یہ کمل اس کے ہاتھ فروخت کردیتا ہوں قیمت بعد کو ادا کردے گا، فرمایا میرے پاس لانے سے پہلے ہی کیوں نہ معاف کردیا۔ (ابوداؤد، کتاب الحدود، باب من سرق من حرزہ) ایک بار رسول ﷺ نے صدقہ فطر کی حفاظت حضرت ابوہریرہؓ کے متعلق کی، رات کو تین بار ایک چورآیا اورغلہ چراکر لے چلا ،حضرت ابوہریرہؓ نے اس کو ہر بار پکڑا ؛لیکن اس نے منت سماجت کی تو چھوڑدیا،اخیر میں معلوم ہوا کہ وہ شیطان تھا۔ (بخاری، کتاب الوکاء،باب اذا اوکل رجلا فترک الوکیل شیئا) حضرت عروہ بن مسعودؓ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک سے مشرف باسلام ہو کر اپنے وطن طائف میں واپس آکر اپنی قوم کو دعوتِ اسلام دی تو وہ لوگ دشمن ہوگئے، اوران کے قتل کا تہیہ کرلیا؛ چنانچہ صبح کے وقت انہوں نے اذان دی تو قبیلہ بنو مالک کے ایک شخص نے تیر مارا اوروہی زخم شہادت کا سبب بن گیا، ان کے خاندان والوں کو خبر ہوئی تو ہتھیار سج سج کے آئے اور کہا ہم ایک ایک کرکے مرجائیں گے؛ لیکن جب تک ان کے عوض میں بنو مالک کے دس سردار نہ قتل کرلیں گے ہم کو چین نہ آئے گا، لیکن حضرت عروہؓ نے فرمایا کہ میرے بارے میں جنگ و جدل نہ کرو میں نے باہمی اصلاح کیلئے اپنے خون کو معاف کردیا۔ (طبقات بن سعد تذکرہ حضرت عروہ بن مسعودؓ) حضرت عمرؓ اگرچہ مذہبی معاملات میں نہایت سخت تھے؛لیکن ایک بار طائف کے دو شخصوں نے مسجد نبوی ﷺ میں شور وغل کیا تو انہوں نے ان کو طلب کیااورکہا کہ مسجد نبوی ﷺ میں شور کرتے ہو اگر شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں تم کو سزادیتا۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب رفع الصوت فی المسجد) حمیت قومی اسلام نے اگرچہ تمام صحابہ کو بھائی بھائی بنادیا تھا، تاہم ان میں قومی حمیت باقی تھی، اورجب موقع آجاتا تھا تو دفعتہ یہ چنگاری سلگ اٹھتی تھی، حضرت محلم بنؓ جثامۃ اللیثی نے قبیلہ اشجع کے ایک شخص کو قتل کرڈالا، حضرت عیینہ بن حصن قبیلہ اشجع کے سردار تھے، اس لئے انہوں نے مقتول کی حمایت کی ،حضرت اقرع بن حابس کا تعلق قبیلہ بنو لیث سے تھا اس لئے وہ قاتل کی حمایت میں اٹھے، باہم سخت شوروغل ہوا، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیینہ دیت قبول کرلو، صحابہ کرام اگرچہ آپ کی اطاعت کو فرض عین سمجھتے تھے ؛لیکن اس موقع پر عیینہ نے کہا ،خدا کی قسم جس طرح اس نے ہماری عورتوں کو سوگ میں مبتلا کیا ہے اسی طرح میں اس کے قبیلہ کی عورتوں کو سوگوار کرکے چھوڑوں گا، پھر باہم سخت کشمکش ہوئی، آپﷺ نے حضرت عیینہ کو پھردیت لینے پر آمادہ کرنا چاہا؛ لیکن انہوں نے پھر وہی پہلا جواب دیا، بالآخر آپ نے خو دیت دلادی۔ (ابوداؤد، کتاب الدیات، باب الامام یامربالعفوبالدم) واقعہ افک کے متعلق جب آپ نے فرمایا: من یعذونی من رجل بلغنی اذاہ فی اھلی تو حضرت سعد بن معاذ اُٹھے، اورفرمایا خدا کی قسم اگر وہ ہمارے قبیلہ اوس کا ہوگا تو ہم اس کی گردن اُڑادیں گے اوراگر قبیلہ خزرج کا ہوگا تو آپ جو حکم دیں گے تعمیل ارشاد کریں گے، حضرت سعد بن عبادہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، ان کی حمیت قومی نے جوش مارا اور بولے جھوٹ بکتے ہو، خدا کی قسم تم اس کے قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، حضرت اسید بن ؓ حضیر اوسی کو بھی جوش آگیا بولے تم جھوٹ بکتے ہو ہم خدا کی قسم اس کو ضرور قتل کر ڈالیں گے، بات اس قدر بڑھی کہ اگر آپ نہ روکتے تو دونوں قبیلوں میں مٹ بھیڑ ہوجاتی۔ (بخاری ،کتاب الشہادت، باب تعدیل النساء بعضہن بعضا) شکرِالہی ایک شخص کا بیٹا مرجاتا ہے،دولت لٹ جاتی ہے، جائداد تباہ ہوجاتی ہے تو وہ ابتدا میں بدحواس ہوجاتا ہے؛لیکن مایوسی مجبوراً صبر کا خوگر بنادیتی ہے کہ" الیاس احدی الراحتین" لیکن جب خدا ایک لاولد شخص کو بیٹا دیتا ہے ،ایک مفلس کو دولت مل جاتی ہے، ایک ذلیل شخص معزز ہوجاتا ہے تو دفعۃ اس قدر مغرور اورخود پسند ہوجاتا ہے کہ اس حالت میں اس کو خدایاد نہیں آتا، اس لئے بعض صوفیہ کا قول ہے کہ صبر آسان اور شکر مشکل ہے، لیکن اسلام کے تمام دورصحابہ کرام کے سامنے تھے، وہ بھی جس میں وہ سخت مفلس اورمحتاج تھے اوروہ بھی جس میں وہ دولت مند اورمتمول ہوگئے تھے، پہلے دور میں انہوں نے صبر کیا تھا اور دوسرے دور میں خدا کا شکر ادا کرتے تھے، ایک دفعہ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے یتیمی کی حالت میں نشوونما پائی، مسکینی کی حالت میں ہجرت کی ،کھانے پر انبۃ غزوان کا ملازم تھا، جب وہ لوگ منزل پہ اترتے تھے تو ان کے لئے لکڑیاں چن لاتا تھا اورجب وہ اونٹ پر سوارہوتے تھے تو ان کی حدی خوانی کرتا تھا؛لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب مذہب نے قوت حاصل کرلی ہے اور ابوہریرہؓ امام بن گیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الاحکام، باب اجارۃ الاجیرعلی طعام بطنہ) ایک بار مدینہ کے کچھ لوگ ان کی خدمت میں آئے تو انہوں نے ایک شخص کو بھیجا کہ جاؤ گھر سے کھانا مانگ لاؤ، وہ گئے تو ان کی والدہ نے تین روٹیاں زیتون کے تیل اورنمک کے ساتھ بھیج دیں وہ سب کے سامنے رکھی گئیں تو حضرت ابو ہریرہؓ نے تکبیر کا نعرہ مارا اورکہا کہ اس خدا کا شکر ہے جس نے روٹی سے ہمارا پیٹ بھرا، حالانکہ اس سے پہلے ہماری غذا کھجوراورپانی کے سوا کچھ نہ تھی۔ (موطا امام مالک، کتاب الجامع، باب جامع ماجاء فی الطعام والشراب ) حضرت سلمان فارسیؓ کھانا کھاتے تھے تو کہتے تھے کہ اس خدا کا شکر ہے جو ہمارا کفیل ہو ااورہمارے رزق میں وسعت دی۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت سلمان فارسی ؓ) ایک بارحضرت عمرؓ نے نیا کپڑا پہنا تو فرمایا کہ میں اس خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے مجھ کو کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی شرم گاہ کو چھپاتا ہوں اور زندگی میں زینت حاصل کرتا ہوں۔ (ترغیب ۵۸/۲) استغناء کیمیا اگر خاک کو سونا بنادیتی ہے تو استغناء اوربے نیازی سونے کے ڈلے کو تودۂ خاک بنادیتے ہیں، صحابہ کرام کو اسی کیمیا کا نسخہ ہاتھ آگیا تھا، اس لئے وہ ہوس پرست کیمیا گروں کی طرح سونے کی حرص میں خاک نہیں چھانتےتھے؛ بلکہ ان کے سامنے لعل و گہر بھی آجاتے تھے تو ان کو بے پروائی کے ساتھ سنگریزوں کی طرح ٹھکرادیتے تھے۔ مال خمس میں سے ایک حصہ اہل بیت کو ملتا تھا، جس کی تقسیم کا انتظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کے متعلق کردیا تھا، شیخین کے زمانہ میں بھی وہ اسی خدمت پر مامور تھے، ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کہیں سے بہت سا مال آیا اور انہوں نے حسب معمول حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دینا چاہا تو بولے ،اس سال ہم تو اس سے بے نیاز ہیں؛ البتہ مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہے انہیں کو دے دیجئے ؛چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس کو بیت المال میں داخل کردیا ۔ (ابوداؤد، کتاب الخراج والا مارۃ ،باب فی بیان مواضع قسم الخمس وسہم ذی القربیٰ) ایک بار عبدالعزیز بن مروان نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو لکھا کہ میرے دربار میں اپنی ضرورتیں پیش کیجئے، انہوں نے جواب میں لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے،پہلے اس شخص کو دو جس کے تم کفیل ہو، نہ میں تم سے کچھ مانگتاہوں اورنہ اس رزق کو واپس کرتا ہوں جو خدا مجھ کو تمہارے ذریعہ سے دیتا ہے۔ (مسند ابن حنبل،جلد۲،صفحہ۴) ایک بار حضرت وائل بن حجرؓ حضرت امیر معاویہؓ کے پاس آئے، انہوں نے نہایت تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا اوران کو عطیہ دینا اوروظیفہ مقرر کرنا چاہا؛ لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اس سے بے نیاز ہیں جو اس کے ہم سے زیادہ مستحق ہیں وہ اس کو قبول کریں گے۔ (استیعاب ،تذکرہ وائل بن حجر) ایک بار حضرت عثمانؓ نے حضرت عبداللہ بن ارقم ؓکو تیس ہزار درہم دینا چاہے ؛مگر انہوں نے انکار کردیا۔ (ایضا، تذکرہ عبداللہ بن ارقمؓ) شرم وحیاء حدیث شریف میں آیا ہے الحیاء شعبۃ من الایمان ۔ (بخاری کتاب الایمان) حیاء ایمان کی شاخ ہے صحابہ کرام کے کشتِ دل میں ایمان کی یہ شاخ اس قدر سر سبز و شاداب تھی کہ بہت سے صحابہ کو بیوی کے ساتھ ہم بستر ہونے میں بھی شرم آتی تھی اورقضائے حاجت کی حالت میں بھی حیاء دامن گیر ہوتی تھی۔ حضرت عثمانؓ کی شرم وحیا کا یہ حال تھا کہ گھر کا دروازہ بند ہوتا تھا؛لیکن کپڑا اتار کر نہیں نہاتے تھے۔ (مسند ابن حنبل جلد۱،صفحہ ۷۴، مسند عثمان) خودرسول اللہ ﷺ ان کی شرم و حیاء کا لحاظ رکھتے تھے، ایک بار آپﷺ کی خدمت میں حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ آئے، اس وقت آپ گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی ران کھلی ہوئی تھی؛ لیکن جب حضرت عثمانؓ آئے تو آپ ﷺنے اس کو ڈھانک لیا، حضرت عائشہؓ نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ عثمانؓ شرمیلے آدمی ہیں، اگر میں اسی حالت میں رہتا تو وہ اپنی حاجت نہ پیش کرتے۔ (مسلم ،کتاب المناقب ،فضائل عثمانؓ) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اندھیرے گھر میں نہاتے تھے؛ تاہم شرم کے مارے سیدھےکھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ سکٹرتے رہتے تھے ،ایک دفعہ چند لوگوں کو دیکھا کہ پانی میں بغیر تہبند باندھے ہوئے کھڑے ہوئے ہیں، بولے مجھے یہ پسند ہے کہ مرکر زندہ ہوں پھر مروں پھر زندہ ہوں پھر مروں پھر زندہ ہوں ؛لیکن یہ بے حیائی پسند نہیں، ان کو ستر عورت کا اس قدر خیال تھا کہ سونے کی حالت میں خاص کپڑے پہن لیتے تھے کہ کہیں حالت نیند میں کشف عورت نہ ہوجائے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ) ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ حمام میں گئے دیکھا کہ کچھ لوگ برہنہ نہارہے تھے، آنکھ بند کرکے فورا ًواپس آئے ،حمامی کو معلوم ہوا تو اس نے سب کو نکال کر اورحمام کو خوب پاک و صاف کرکے ان کو بلوایا اورکہا کہ اب حمام میں کوئی نہیں، اندر داخل ہوئے توپانی نہایت گرم تھا، بولے کتنا برا گھر ہے جس سے حیا نکال دی گئی ہے اور کتنا اچھا گھر ہے جس سے آدمی چاہے تو عبرت حاصل کرسکتا ہے یعنی دوزخ کو یاد کرسکتا ہے ،ایک دن ان سے کسی نے کہا کہ آپ حمام کیوں نہیں کرتے؟ بولے میں پسند نہیں کرتا کہ میری شرمگاہ پر کسی کی نگاہ پڑے، اس نے کہا تو تہبند باندھ لیجئے، بولے میں کسی دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ (ایضا ،تذکرہ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ) طہارت اورنظافت صحابہ کرام نہایت طہارت ونظافت کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، اہل عرب عموماً قضائے حاجت کے بعد پانی سےآبِ دست نہیں لیتے تھے، لیکن صحابہ کرام میں اہل قباء پانی سے آبِ دست لیتے تھے اور عرب کی حالت کے لحاظ سے یہ ایک ایسی عظیم الشان فضیلت تھی کہ اس کے متعلق قرآن پاک میں ایک آیت نازل ہوئی۔ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ ،باب الاستنجاء) (مسجد قبا میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو طہارت کو پسند کرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ اورصحابہ بھی طہارت کا نہایت خیال رکھتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو طہارت کا اس قدر خیال تھا کہ شیشے میں پیشاب کرتے تھے اورکہتے تھے کہ "بنواسرائیل کے جسم پر اگر پیشاب کی چھینٹیں پڑجاتی تھیں تو اس کو قینچی سے کتر دیتے تھے۔ (مسلم ،کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین) حضرت عثمان ؓکو طہارت کا اس قدر خیال تھا کہ جب سے اسلام لائے معمولا ًایک بار روزانہ غسل کرتے تھے۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۱،صفحہ ۶۷،مسند عثمان) حضرت صرمہ بن انسؓ کی طہارت پسندی کا یہ حال تھا کہ جس گھر میں کوئی جنبی مرد یا حائضہ عورت ہوتی تھی، اس کے اندر نہیں جاتے تھے۔ (اصابہ، تذکرہ حضرت صرمہ بن انسؓ) صحابہ کرامؓ اگرچہ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے، تاہم غسل و طہارت کے لئے حضرت انسؓ کے گھر میں ایک حمام موجود تھا۔ (بخاری ،کتاب الصوم، باب اغتسال الصائم) نجاست کی حالت میں رہنا صحابہ کرام کو اس قدر گراں تھا کہ جب یہ حالت زائل ہوجاتی تھی گویا ان کے سرکابار اترجاتا تھا۔ حضرت ابوذرؓ مقام ربذہ میں اونٹ اوربکریاں چراتے تھے، چونکہ میدان میں پانی میسر نہیں آتا تھا، اوران کوابھی یہ معلوم نہ تھا کہ حالت جنابت میں بھی تیمم کیا جاسکتا ہے ، اس لیے جب ان کو غسل کی حاجت ہوتی تھی تو پانچ پانچ چھ چھ روز تک ناپاک رہ جاتے تھے، لیکن ان پر نجاست کا یہ زمانہ اس قدر شاق گذرتا تھا کہ جب ان کو رسول اللہ ﷺ نے اس غلطی پر تنبیہ کی اورپانی منگواکر نہلوایا تو ان کو محسوس ہوا کہ: فکانی القیت عنی جبلا (ابوداؤد کتاب الطہارت باب الجنب تیمم) گویا مجھ پر ایک پہاڑ لداہوا تھا جس کو اب میں نے اپنے اوپر سے پھینک دیا سخت سے سخت خود فراموشانہ مصیبت میں بھی صحابہ کرامؓ کو طہارت و نظافت کا خیال رہتا تھا، کفار جب حضرت خبیبؓ کو گرفتار کرکے لے گئے اور قتل کرنا چاہا تو انہوں نے اس آخری وقت میں سب سے پہلے استرہ طلب کیا۔ (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب المریض ،یوخذ من اظفارہ عانیہ) حضرت ابو سعید خدریؓ کے نزع کا وقت آیا تو نئے کپڑے منگا کر پہنے اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص جس کپڑے میں مرے گا اسی میں اس کا حشر ہوگا۔ (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب تطہیر ثیاب المیت) اگرچہ صحابہ کرام کو زیب و زینت کی پروانہ تھی، تاہم وہ طہارت و نظافت کی وجہ سے بالکل راہبانہ زندگی بھی بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے، حضرت ابوقتادہ انصاریؓ نے بال رکھ چھوڑے تھے، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ میں بالوں میں کنگھی کروں؟ فرمایا، ہاں کنگھی کرو اور اس کو گردوغبار سے بچاؤ، اس کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ وہ بسا اوقات دن میں دوبار ان میں تیل لگاتے تھے (موطا امام مالک، کتاب الجامع، باب اصلاح الشعرا) حضرت عمرؓ ریز ہائے مشک کا استعمال کرتے تھے۔ (موطا امام محمد، ابواب السیر، باب الطیب للرجل) زندہ دلی اسلام نے صحابہ کرام کے جذبات کو تروتازہ اورشگفتہ کردیا تھا، اس لئے ان میں زندہ دلی، پائی جاتی تھی، اوروہ مختلف طریقوں سے اس کا اظہار کرتے تھے، تمام صحابہ عید کے دن خوشیاں مناتے تھے، دعوتیں کرتے تھے اور ہمسایوں کو کھانا کھلاتے تھے، قربانی نماز کے بعد کی جاتی ہے؛ لیکن ایک صحابی نے نماز سے پہلے ہی قربانی کردی اورآپﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ کھانے پینے کا دن تھا، اس لئے میں نے جلدی کی خود کھایا بچوں اورہمسایوں کو کھلایا۔ (ابوداؤد، کتاب الاضاحی، باب، یجوز من السن فی الضحایا) عید کے دن معمولاً چھوکرے اورچھوکریاں رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوکر باجے بجاتے تھے اور مسرت کے ترانے گاتے تھے۔ (بخاری، کتاب العیدین باب سنۃ العیدین اہل الاسلام) اخیرزمانہ میں جب اس کا رواج جاتا رہا، توحضرت قیسؓ بن سعدؓ نے فرمایا آپ ؓ کے عہد کی کل چیزیں مجھ کو نظر آتی ہیں، بجز اس کے کہ میں عید کے دن بچوں کو گاتے بجاتے نہیں دیکھتا، حضرت عیاض اشعریؓ ابنار میں تھے،عید کا دن آیا تو تعجب سے پوچھا کہ جس طرح آپ ﷺ کے عہد میں بچے گاتے بجاتے تھے، اسی طرح تم لوگ کیوں نہیں گاتے بجاتے۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب الصلوٰۃ ،باب ماجاء فی التقلیس یوم العیدوبخاری) خود رسول اللہ ﷺ کے سامنے صحابہ کرام زمانہ جاہلیت کے واقعات کاذکرکرتے تھے ،اشعارپڑھتے تھے اورآپ بھی ان تذکروں کو سن کر کبھی کبھی مسکرادیتے تھے۔ (شمائل ترمذی، باب ماجاء فی صفۃ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الشعر) حضرت رباحؓ ایک صحابی تھے جو عرب کےاشعار گانےمیں بڑے ماہر تھے، وہ ایک سفر میں حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کے ساتھ تھے، انہوں نے اشعار گانا شروع کیا، تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا یہ کیا؟ بولے کوئی ہرج نہیں اس سے دل بہلاتے ہیں اور راستہ کی کلفت دور کرتے ہیں۔ (اسدالغابہ جلد۲،صفحہ ۱۶۲ تذکرہ رباح بن المعترفؓ) ایک بار حضرت عمرؓ سفر حج میں تھے، قافلہ کے ساتھ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اورحضرت عبدالرحمان بن عوفؓ بھی تھے لوگوں نے حضرت خواتؓ سے کہا کہ ضرار بن خطاب کے اشعار گاؤ،حضرت عمر بولے کہ ان کے اپنے ہی نتیجۂ افکار سنانے دو، چنانچہ وہ صبح تک متصل گاتے رہے صبح ہوئی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا اب بس کرو۔ (اصابہ ،تذکرہ حضرت خوات بن جبیرؓ) کبھی کبھی یہ زندہ دلی سنجیدہ ظرافت کی صورت اختیار کرلیتی تھی۔ ایک بار حضرت صہیب ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، سامنے روٹی اورکھجور رکھی ہوئی تھی، آپﷺ نے پاس بلا کر ان کو شریک کرلیا، وہ کھجور کھانے لگے ،کھجور آشوب چشم کے لئے مضر ہے، اس لئے آپﷺ نے ٹوکا کہ تمہاری آنکھوں میں آشوب ہے ،بولے یا رسول اللہ ﷺ آنکھ کے اس گوشہ سے کھاتا ہوں جس میں آشوب نہیں ،آپ مسکرادیے۔ (مسند ابن حنبل جلد۴،صفحہ۶۱) غزوہ تبوک کے زمانہ میں آپﷺ ایک چمڑے کے خیمے میں مقیم تھے، ایک صحابی آئے اور سلام کیا، آپ نے جواب سلام کے بعد فرمایا اندر آجاؤ بولے اپنے پورے جسم کے ساتھ یا رسول اللہ(یعنی اس میں یہ ظریفانہ تعریض تھی کہ خیمہ اس قدر تنگ ہے کہ پورا جسم بمشکل اس کے اندر آسکتا ہے)۔ صحابۂ کرام کبھی کبھی باہم دوڑ میں مسابقت کرتے تھے، ایک انصاری صحابی تھے جن کا دوڑ میں کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا،ایک غزوہ میں وہ فخریہ لہجے میں بار بار کہہ رہے تھے کیا کوئی مدینہ تک دوڑ میں میرا مقابلہ کرے گا؟ کیا کوئی مقابلہ کرنے والا ہے؟ حضرت سلمہؓ بن اکوعؓ کے کان میں یہ آواز پہنچی تو بولے تم کسی معزز شخص کی عزت نہیں کرتے؟ کسی شریف آدمی سے نہیں ڈرتے؟ جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی سے نہیں، بالآخر حضرت سلمہ بن اکوعؓ نے آپ سے اجازت لے کر دوڑ میں ان کا مقابلہ کیا اوربازی جیت لی۔ (مسلم کتاب الجہاد باب غزوۃ ذی قردوغیرہا) صحابۂ کرام کبھی کبھی سیر و شکار بھی کرلیتے تھے، حضرت ابو قتادہؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر حج میں تھے، لیکن احرام نہیں باندھا تھا، راہ میں ایک جنگلی گدھا نظر آیا گھوڑے پر سوار ہوئے ہاتھ میں برچھا لیا، اورگدھے کو جاکر ایسا برچھا مارا کہ وہ ڈھیر ہوکر رہ گیا۔ (ابوداؤد، کتاب المناسک، باب لحم الصید للمحرم) حضر صفوانؓ بن محمد نے ایک بار دوخرگوشوں کا شکار کیا اوران کو پتھر سے ذبح کیا، آپﷺ سے دریافت فرمایا تو آپ نے ان کو حلال قراردیا۔ (ابوداؤد کتاب الاضاحی باب فی الذبیحہ بالمروۃ) صحابہ کرامؓ میں حضرت عدی بن حاتمؓ اورحضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ مشہور شکاری تھے، اسی غرض سے باز اورکتے پال رکھے تھے اوران کو اس فن کی تعلیم دی تھی، تیروکمان سے بھی شکار کرتے تھے اور تین تین دن تک شکار کے پیچھے پیچھے دوڑتے رہتے تھے؛ لیکن یہ زندہ دلی اسی وقت تک تھی جب تک کوئی مذہبی کام پیش نہ آتا ؛لیکن جب کوئی مذہبی کام پیش آجاتا تو یہ تمام چیزیں خواب فراموش ہوجاتیں اورصحابہ کرام اس کی ذمہ داریوں کی گرانباری سے بدحواس ہوجاتے، ادب المفرد میں ہے: لم یکن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم متخرقین ولا متمادتین وکانواتینا شدون الشعرفی مجالسھم ویذکرون امرجاھلیتھم فاذااریداحدمنھم من شئی من امراللہ دارت حما لیق عینیہ کانہ مجنون۔ (ادب المفرد،باب الکبر) اصحابہ رسول اللہ مردہ دل اورخشک مزاج نہ تھے اپنی صحبتوں میں اشعار پڑھتے اورجاہلیت کے واقعات کا تذکرہ کرتے تھے؛ لیکن جب کوئی مذہبی کام آپڑتا تو ان کی آنکھیں اس طرح الٹ جاتیں گویا وہ پاگل ہیں۔ پابندی عہد معاہدہ ایک نازک رشتہ ہے جس کو صرف اخلاقی طاقت ہی مضبوط بنا سکتی ہے،صحابہؓ کرام میں یہ اخلاقی طاقت موجود تھی، اس لیے وہ نہایت مضبوطی کے ساتھ اس رشتہ کو قائم رکھتے تھے، ایک دفعہ امیر معاویہؓ نے رومیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، ابھی مدت معاہدہ گذرنے بھی نہ پائی تھی کہ حملہ کی تیاریاں کردیں کہ مدت گذرنے کے ساتھ ہی حملہ شروع کردیا جائے، فوج روانہ ہوئی تو حضرت عمروبن عنبسہؓ گھوڑے پر سوار ہوکر آئے، اورفرمایا، اللہ اکبر وفا کرنی چاہئے بے وفائی اوربد عہدی سزاوار نہیں۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الامام یکون بینہ وبین العدد العہد فیسیروالیہ) امیہ بن خلف اسلام کے دشمنوں میں تھا، اس میں اورحضرت عبدالرحمان بن عوفؓ میں تحریری معاہدہ ہوا تھا کہ وہ مکہ میں ان کی جان ومال کی حفاظت کرے گا، اوروہ مدینہ میں اس کی جان و مال کی حفاظت کریں گے ،غزوہ بدر پیش آیا اور لوگ سوگئے تو وہ اس کی حفاظت کو نکلے، حضرت بلالؓ نے امیہ کو دیکھ لیا، اورانصار کی ایک مجلس میں آکے کہا کہ اگر امیہ بچ کے نکل گیا تو میری جان کی خیر نہیں، انصار کے کچھ لوگ ان کے ساتھ ہولئے، اب حضرت عبدالرحمان ؓ بن عوف گھبرائے کہ کہیں وہ لوگ ہمارے پاس نہ پہنچ جائیں ،مجبورا ًامیہ کے بیٹے کو اس لیے پیچھے کردیا کہ وہ لوگ اسی کے قتل میں الجھے رہیں، انصار نے اس کو قتل کرکے ان لوگوں کا پیچھا کیا اُمیہ نہایت فربہ آدمی تھا، جب وہ لوگ پاس آئے تو حضرت عبدالرحمان بن عوف نے اس سے کہا کہ بیٹھ جاؤ، وہ بیٹھ گیا تو اپنے آپ کو اس کے اوپر ڈال دیا، لیکن صحابہ نے ان کو بچا کر ادھر ادھر سے تلواریں لگائیں یہاں تک کہ اس کو قتل کردیا،اور خود ان کے پاؤں میں زخم آئے۔ (بخای، کتاب الوکالۃ، باب اذاو کل المسلم حربیافی دارالحرب وفی دارالاسلام جاز) معاہدہ تو ایک بڑی چیز ہے صحابہ کرامؓ معمولی سے معمولی وعدے کو بھی لازمی طورپر پورا کرتے تھے ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے حضرت انسؓ سے کہا کہ میں فلاں دن سفر کرنے والا ہوں، میرے سفر کا سامان کردو، انہوں نے سامان کرنا شروع کیا، جب روانگی کا وقت آیا تو بولے کہ ذراسی کسررہ گئی ہے، اگر آپ ٹھہر جاتے تو میں اس کو پورا کردیتا، بولے میں گھر کے لوگوں سے کہہ چکا ہوں کہ میں فلاں دن سفر کروں گا، اب اگر ان سے جھوٹ بولتا ہوں تو وہ بھی مجھ سے جھوٹ بولیں گے، ان سے خیانت کرتا ہوں تو وہ بھی مجھ سے خیانت کریں گے، ان سے وعدہ خلافی کرتا ہوں تو وہ بھی مجھ سے وعدہ خلافی کریں گے چنانچہ وہ روانہ ہوگئے، اوراس کی کچھ پرواہ نہ کی کہ سامان سفر نا مکمل ہے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت ابوموسیٰ اشعری) راز داری راز داری ایک امانت ہے اور دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جو اس امانت کا بار اٹھا سکتے ہیں؛ لیکن صحابہ کرامؓ کا سینہ راز کا مدفن تھا جس سے وہ قیامت تک باہر نہیں نکل سکتا تھا، ایک دن حضرت انسؓ بن مالک بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ان کو کسی ضرورت سے بھیج دیا، اس کے پورا کرنے میں دیر ہوگئی گھر آئے تو ماں نے پوچھا کہاں رہ گئے تھے ،بولے آپ ﷺنے ایک ضرورت سے بھیجا تھا بولیں وہ کیا؟ انہوں نےکہا وہ ایک راز ہے بولیں آپ کا راز کسی سے نہ کہنا،چنانچہ حضرت انس بنؓ مالک نے اس کو اس طرح محفوظ رکھا کہ جب حضرت ثابت ؓ سے یہ واقعہ بیان کیا تو فرمایا کہ میں نے اگر وہ راز کسی سے بیان کیا ہوتا تو تم سے ضرور بیان کرتا۔ (مسند ابن حنبل، جلد۳،صفحہ۲۵۳) ایک دن آپﷺ کی خدمت میں تمام ازواج مطہرات جمع تھیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اسی حالت میں آگئیں، آپﷺ نے ان کو مرحبا کہا اوراپنے پہلو میں بٹھا لیا اورآہستہ سے ان کے کان میں ایک بات کہی، وہ چیخ مار کر روپڑیں، پھر آہستہ سے ایک بات کہی جس سے وہ ہنس پڑیں آپ چلے گئے تو حضرت عائشہ نے اس کی وجہ پوچھی بولیں، آپ کی زندگی میں آپ کا راز فاش نہیں کرسکتی۔ (مسلم، کتاب الفضائل ،مناقب فاطمہؓ) حضرت حفصہؓ بیوہ ہوئیں تو حضرت عمرؓ نے حضرت عثمانؓ سے ان کی منگنی کرنی چاہی؛ لیکن انہوں نے کہا میں اس سے معذور ہوں اب انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے درخواست کی وہ خاموش ہورہے، حضرت عمرؓ کو پہلی ناکامی کے بعد دوسری ناکامی کا بہت رنج ہوا، اس کے چند روز کے بعد رسول اللہ ﷺ نے خود نکاح کا پیغام بھیجا، نکاح ہوگیا توحضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اپنے رنج کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے حفصہ ؓ کا ذکر مخفی طورپر کیا تھا، لیکن میں آپ کا راز فاش کرنا پسند نہیں کرتا تھا، اگر آپ نکاح نہ کرتے تو میں ضرور نکاح کرلیتا۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ حضرت حفصہؓ) رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ میں منافقین کے نام صرف حضرت حذیفہؓ کو بتائے تھے اس لئے وہ صاحب سررسول اللہ کے لقب سے ممتاز تھے،(بخاری کتاب الاستیذان باب من القی لہ وسادۃ) حضرت حذیفہؓ نے اس راز کو عمر بھر فاش نہیں کیا، ایک بار حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ میرے عمال میں کوئی منافق بھی ہے بولے ایک شخص ہے لیکن نام نہ بتاؤں گا،(اسدالغابہ تذکرہ حضرت حذیفہؓ) ایک بار انہوں نے کہا کہ اب صرف چار منافق رہ گئے ہیں ایک بدونے کہا آپ لوگ اصحاب رسول اللہ ہیں ہم کو ان کی کچھ خبر نہیں ہے، آپ ہم کو ان کے نام بتائیے ،آخر کون لوگ ہیں جو ہمارے گھروں میں نقب لگاتے ہیں اور اسباب چرا لے جاتے ہیں؟ بولے یہ تو بدکار لوگ ہیں،منافق صرف چارہیں جن میں ایک اس قدر بوڑھا ہوگیا ہے کہ اگر ٹھنڈاپانی بھی پئے تب بھی اس کو اس کی ٹھنڈک کا احساس نہ ہو۔ (بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ براۃ تفسیر وقاتلو آئمۃ الکفر) جانوروں پر شفقت صحابہ کرام جس طرح انسانوں کے درد، دکھ کو نہیں دیکھ سکتے تھے، اسی طرح ان کو جانوروں کی اذیت و تکلیف بھی گوارانہ تھی، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب ہم منزل پر اترتے تھے تو پہلے اونٹوں کا کجاوہ کھول لیتے تھے پھر نماز پڑھتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب مایومر بہ من یقام علی الدداب والبہائہم) ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا کہ ایک چرواہا ایک جگہ اپنی بکریاں چرارہا ہے ان کو دوسری جگہ اس سے بہتر نظر آئی تو اس سے کہا کہ وہاں لے جاؤ ؛کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر راعی سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیاجائے گا۔ (ادب المفرد ،باب من اشار علی اخیہ وان لم یستشر) ایک دن آپ ﷺسے ایک صحابی نے کہا، یا رسول اللہ مجھے بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے، فرمایا اگر اس پر رحم کروگے تو خدا تم پر بھی رحم کرے گا۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۵ ،صفحہ۳۴) ایک دن کچھ لوگ حضرت عبید اللہؓ اورحضرت عبداللہ بن بشرؓ کی خدمت میں آئے اورپوچھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اوراس کو کوڑا مارتا ہے، اس کے متعلق آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی روایت سنی ہے بولے نہیں اندرسے ایک خاتون بولیں خدا خود کہتا ہے۔ وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ۔ (الانعام:۳۸) زمین کے جانور اورہوا کی چڑیاں بھی تمہاری ہی طرح ایک امت ہیں۔ یعنی وہ بھی قابل رحم ہیں۔ دونوں نے کہا، یہ ہماری بڑی بہن ہیں۔ (اصابہ، تذکرہ حضرت عبیداللہ بن بشرؓ المازنی) غیرت صحابہ کرام اگرچہ فخر وغرورسے سخت نفرت کرتے تھے،تاہم انہوں نے نہایت غیور طبیعت پائی تھی، ایک بار رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ کے حجرے میں جلوہ افروز تھے، حضرت زینبؓ نے آپ کے لئے ایک پیالے میں کھانا بھیجا، حضرت عائشہ ؓ نے اس کو ٹپک دیا، اوروہ چور چور ہوگیا، اس پر آپ نے فرمایا: غارت امکم تمہاری ماں کو غیرت آگئی حضرت عمرؓ اس قدر غیور تھے کہ ایک بار آپﷺنے فرمایا کہ مجھے خواب میں جنت نظر آئی جس میں ایک محل کے گوشے میں ایک عورت وضو کررہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ جواب ملا کہ عمرؓ کا میں نے اس میں داخل ہونا چاہا؛ لیکن عمرؓ کی غیرت کے خیال سے واپس آیا۔ (بخاری کتاب النکاح باب الغیرۃ) حضرت عمرؓ کی بیوی (حضرت عاتکہؓ )نماز فجر اورنماز عشا جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرتی تھیں اورحضرت عمرؓ کو یہ سخت ناگوار تھا تاہم چونکہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت دے دی تھی،اس لئے منع بھی نہیں کرسکتے تھے، (بخاری ،کتاب الجمعہ، بَاب هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدْ الْجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنْ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ) حضرت اسماؓ کہتی ہیں کہ میں اپنے شوہر حضرت زبیرؓ کے گھر کا تمام کام خود کرتی تھی، چنانچہ ایک بار وہ بڑی دور سے سرپر کھجوروں کی گٹھلی لارہی تھیں راستہ میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہوگئی اورآپ نے مجھ کو اپنے پیچھے سوار کرلینا چاہا لیکن میں حضرت زبیرؓ کی غیرت کے خیال سے سوار نہیں ہوئی۔ (مسلم ،کتاب السلام ،بَاب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الْأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ) جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا جو لوگ پاک دامن بی بیوں پر تمہت لگائیں اوراس پر چارگواہ نہ لاسکیں ان کو اسی کوڑے مارواور(آئندہ) ان کی شہادت کبھی نہ قبول کرو۔ توحضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسول اللہ اسی طرح یہ آیت نازل ہوئی ہے ، آپ نے انصار سے کہا دیکھو تمہارے سردار کیا کہتے ہیں؟ انصار نے کہا یا رسول اللہ ان کو ملامت نہ کیجئے وہ سخت غیور آدمی ہیں باکرہ عورت کے سوا کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کیا، اور جب کسی عورت کو طلاق دی تو ان کی غیرت کے خیال سے ہم میں کسی نے اس سے نکاح کرنے کی جرأت نہیں کی،حضرت سعدبن عبادہؓ بولے یا رسول اللہ ؓبخدا مجھے یقین ہے کہ یہ آیت حق ہے اورخدا کی جانب سے نازل ہوئی ہے؛ لیکن مجھے تعجب اس پر ہوا کہ میں ایک عورت کو دیکھوں کہ اس کو ایک شخص اپنی ران پر بٹھائےہوئے ہے اور اس کو میں اس وقت تک کچھ نہ کہہ سکوں جب تک چار گواہ نہ جمع کرلوں ۔ (مسند ابوداؤد الطیالسی،صفحہ۳۴۷)