انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت مسورؓبن مخزمہ نام ونسب مسور نام،ابو عبدالرحمن کنیت، نسب نامہ یہ ہے، مسور بن مخرمہ بن نوفل بن اسیب بن زہرہ ابن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی قرشی زہری،مسور مشہور صحابی حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ کے بھانجے تھے۔ پیدایش وبچپن مسور کی والدہ،عاتکہ دعوتِ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مشرف باسلام ہوئی تھیں اور شرفِ ہجرت سے بھی مشرف ہوئیں، مسوران ہی سعیدہ خاتون کے بطن سے ۶ھ میں مکہ میں پیدا ہوئے اورفتح مکہ کے بعد چھ برس میں مدینہ آئے۔ (اصابہ:۶/۱۹۸،مسور کی پیدائش کے بعد ان کی ماں نے ہجرت کی تھی ،لیکن مسور چھ برس تک اس لیے مکہ میں رہے کہ ان کے والد مخرمہ بن نوفل فتح مکہ کے بعد مشرف باسلام ہوئے ،مسور ان ہی کے ساتھ مکہ آئے) عہد نبوی میں بہت صغیر السن تھے،اس لیے اس عہد کے حالات میں طفلانہ واقعات کےسو اور کوئی واقعہ قابل ذکر نہیں ہے،آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ وضو فرما رہے تھے اور مسور آپ کی پشت پر کھڑے تھے،اتفاقا پشتِ مبارک سے چادر ہٹ گئی اورخاتمِ نبوت نظر آنے لگی،ایک یہودی ادھر سے گذرا، اس نے مسور سے کہا محمدﷺکی پیٹھ سے چادر ہٹا دو ،یہ بچے تھے ہٹانے لگے آپ نے ان کے منہ پر پانی کا چھینٹا مرا اسی طریقہ سے ایک مرتبہ چھوٹا سا تہ بند باندھے ہوئے ،ایک وزنی پتھر اُٹھائے ہوئے تھے،تہبند چھوٹا تھا،کھل گیا، ہاتھ پتھر میں پھنسے تھے اس لیے تہ بندھ نہ باندھ سکے اوراسی حالت میں پتھر لیے ہوئے چلے گئے،آنحضرتﷺ نے دیکھ کر فرمایا تہبند اٹھالو ننگے نہ پھرو۔ اسی صغر سنی میں حجۃ الوداع میں شریک ہوئے،لیکن واقعات سب یاد تھے؛چنانچہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفات میں خطبہ دیا اور حمد کے بعد فرمایا کہ بت پرست اور مشرک دن رہے جب آفتاب پہاڑ کے سر پر ہوتا تھا، یہاں سے چلے جاتے اورہم غروب آفتاب کے بعد جائیں گے اور لوگ مشعر حرام اس وقت جاتے ،جب آفتاب خوب پھیلا ہوتا تھا۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۲۴) عہد خلفاء خلفاء اربعہ کے زمانہ میں حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف مجلس شوری کے رکن تھے جب وہ مشورہ وغیرہ کے لیے جانے لگتے تو مسور بھی ان کے ساتھ ہو لیتے تھے۔ (استیعاب:۱/۲۱۹) حضرت عثمانؓ کے زمانہ تک مدینہ میں رہے، ان کی شہادت کے بعد مکہ میں اقامت اختیار کرلی،یزید اورعبداللہ بن زبیرؓ کے اختلافات میں عبداللہ بن زبیرؓ کےساتھ تھے،۶۴ھ میں جب شامی فوجوں نے حرم کا محاصرہ کیا، تو مسور بھی عبداللہ بن زبیرؓ کے ساتھ تھے، ۶۴ھ میں جب شامی فوجوں نے حرم کا محاصرہ کیا، تو مسور بھی عبداللہ بن زبیرؓ کے ساتھ محصور تھے اور حطیم میں نماز پڑہتے تھے۔ (اسد الغابہ ومستدرک حاکم ترجمہ مسود) شہادت اسی محاصرہ کے زمانہ میں جب کہ حرم پرگولہ باری ہورہی تھی،ایک دن مسور حسب معمول کھلے بندوں حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک پتھر آکر ان کے لگا، اس کے صدمہ سے پانچویں دن وفات پاگئے،عبداللہ بن زبیرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، اس وقت ۶۸ سال کی عمر تھی۔ (مستدرک :۲/۵۲۳،یہ محاصرہ ۷۳ تک جاری رہا تھا،۶۴ سے لیکر ۷۳ تک کسی وقت میں مسور کی شہادت ہوئی) فضل و کمال گو مسور آنحضرت ﷺ کی حیات میں بہت کم سن تھے،تاہم آپ سے سنی ہوئی کچھ حدیثیں ان کے حافظہ میں محفوظ تھیں،ان کی صغر سنی کی وجہ سے بعض محدثین ان کے سماع کے منکر ہیں،لیکن محدث حاکم نیشا پوری کے نزدیک ان کا سماع ثابت ہے (مستدرک حاکم:۳/۵۲۴) تاہم ان کی مرفوع روایات بہت کم ہیں،ان کی روایات کی مجموعی تعداد جس میں مرفوع اورغیر مرفوع سب شامل ہیں،بائیس ہے،ان میں سے دو متفق علیہ ہیں اورچار میں امام بخاری اورایک میں امام مسلم منفرد ہیں۔ (تہذیب الکمال:۳۷۷) اہل بیت نبویﷺ سے روابط اور عقیدت اہل بیتِ نبویﷺ سے خاص تعلقات اورعقیدت رکھتے تھے اور وہ سب بھی انہیں مانتے تھے،حضرت عائشہؓ عبداللہ بن زبیرؓ کی خالہ تھیں، اس لیے ابن زبیرؓ ان کی بڑی امداد کرتے تھے،حضرت عائشہؓ بڑی فیاض تھیں، جو کچھ ملتا سب خرچ کرڈالتیں ان کی اس فیاضی پر ابن زبیرؓ نے کہا کہ اگر وہ اپنا ہاتھ نہ روکیں گی،تو میں آیندہ کچھ نہ دوں گا حضرت عائشہؓ کو خبر ہوئی تو انہیں اس کا بڑا صدمہ ہوا اور قسم کھالی کہ اب میں ابن زبیر سے کبھی نہ کچھ لونگی اورنہ ان سے بولونگی،اس عہد پر عرصہ تک قائم رہیں،ابن زبیرؓ ان کے اس عہد سے بہت پریشان ہوئے، اوربہت سے لوگوں کو درمیان میں ڈال کر صفائی کی کوشش کی،لیکن حضرت عائشہؓ نے کسی کی سفارش نہ سنی،آخر میں ابن زبیرؓ نے مسور سے کہا کہ تم مجھے کسی طرح خالہ کے پاس پہنچا دو؛چنانچہ یہ ان کو اپنے ساتھ لے گیے، اوربڑی مشکلوں سے ان کی خطا معاف کرائی۔ (بخاری کتاب الادب باب الہجرۃ ملحضاً) ایک مرتبہ حضرت حسن بن حسنؓ بن علیؓ نے مسور کی لڑکی کے ساتھ اپنا پیام بھجوایا،مسور جاکر ان سے ملے اورعرض کیا ،خدا کی قسم کوئی نسب کوئی تعلق اورکوئی رشتہ میرے نزدیک آپ کے نسب،آپ کے تعلق اورآپ کےساتھ سسرالی رشتہ قائم کرنے سے زیادہ محبوب و معزز نہیں ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ،فاطمہ میرا گوشت وپوست ہے جس نے اس کو رنجیدہ کیا ،اس نے مجھ کو رنجیدہ کیا اورجس نے اس کو خوش رکھا اس نے مجھ کو خوش رکھا اور قیامت کے دن میرے نسبی اور سسرالی رشتہ اور تعلق کے سوا باقی تمام رشتے اور تعلقات ٹوٹ جائیں گے،ایسی حالت میں میرے لیے آپ سے رشتہ قائم کرنا باعثِ شرف وافتخار ہے،لیکن فاطمہ کی لڑکی (پوتی) آپ کے نکاح میں ہے،اس لیے میں اپنی لڑکی آپ کے ساتھ بیاہ کر فاطمہ کی لڑکی کو رنج و تکلیف نہیں پہونچا سکتا۔ آثار نبویﷺ سے بڑی گہری عقیدت تھی اوراس کی حفاظت کا بڑا خیال رکھتے تھے ،کربلا کے حادثہ عظمی کے بعد جب امام زین العابدینؓ مدینہ واپس آئے، تو مسور نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ جو خدمت میرے قابل ہو اس کے بجالانے کے لیے بسر وچشم حاضر ہوں ،زین العابدین نے کہا کوئی اس قسم کی ضرورت نہیں ہے،آنحضرت ﷺ کی تلوار زین العابدین کے پاس تھی، مسور کو خطرہ تھا کہ یہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گی، اس لیے عرض کیا آپ مجھ کو رسول اللہ ﷺ کی تلوار دے سکتے ہیں؟ مجھ کو خطرہ ہے کہ وہ آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے گی اوراگر میرے پاس رہے گی تو جب تک میری جان میں جان باقی ہے اس کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۳۲۶)