انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نماز کے صحیح ہونے کی شرطیں یہاں چند چیزیں ایسی ہیں جو نماز کی حقیقت میں داخل نہیں ہیں، لیکن وہ نماز کی صحت کے لئے اس طرح لازم ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی چیز چھوٹ جائے تو نماز صحیح نہیں ہوتی ان چیزوں کو نماز کی شرطیں کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں: (۱) پہلی شرط:بغیر طہارت کے نماز صحیح نہیں ہوتی ۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ(بخاري بَاب فِي الصَّلَاةِ ۶۴۴۰) بند طہارت کا مطلب:(الف)نمازی کا حدث اکبر اور اصغر سے پاک ہونا۔حوالہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا (المائدة:۶) بند (ب)نمازی کے بدن کا پاک ہونا۔حوالہ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهَا قَالَتْ سَأَلَتْ امْرَأَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ كَيْفَ تَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ إِحْدَاكُنَّ الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ فَلْتَقْرُصْهُ ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِمَاءٍ ثُمَّ لِتُصَلِّي فِيهِ (بخاري بَاب غَسْلِ دَمِ الْمَحِيضِ ۲۹۶) بند (ج)نمازی کے کپڑے کا پاک ہونا۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (المدثر:۴) (د)جس جگہ نماز پڑھ رہا ہو اس جگہ کا پاک ہونا، جگہ کی پاکی میں دونوں پیروں ، ہاتھوں اور پیشانی کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے۔حوالہ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ(البقرة:۱۲۵)عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ :رَآنِي مُجَاهِدٌ وَأَنَا أَنْضَحُ مَكَانًا مِنْ سَطْحٍ لَنَا نُصَلِّي فِيهِ ، فَقَالَ :لاَ تَنْضَحْ ، إنَّ النَّضْحَ لاَ يَزِيدُهُ إِلاَّ شَرًّا ، وَلَكِنِ اُنْظُرْ إلَى الْمَكَانِ الَّذِي تُرِيدُهُ تَسْجُدُ فِيهِ فَانْفُخْهُ.(مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فِي الْمَكَانِ الَّذِي لَيْسَ بِنَظِيفٍ ۵۳۴/۲) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ(ترمذي بَاب مَا ذُكِرَ فِي تَطْيِيبِ الْمَسَاجِدِ۵۴۲) بند (۲)دوسری شرط:ستر کاچھپانا۔حوالہ يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف :۳۱) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْحَائِضِ إِلَّا بِخِمَارٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ إِلَّا بِخِمَارٍ۳۴۴) بند شرمگاہ چھپانے پر قدرت ہونے کے باوجود شرمگاہ نہ چھپانے سے نماز صحیح نہیں ہوتی ، نماز کے شروع سے لیکر ختم تک شرمگاہ کا چھپا ہوا ہونا ضروری ہے ، نماز شروع کرتے وقت ہی سے اگر چوتھائی عضو کھلا ہوا ہو تو نماز نہیں ہوتی ، اگر دوران نماز ایک رکن کی ادائیگی کی مدت چوتھائی عضو کھل جائے تو نماز باطل ہو جائیگی۔حوالہ وَإِنْ انْكَشَفَتْ عَوْرَتُهُ فِي الصَّلَاةِ فَسَتَرَهَا بِلَا مُكْثٍ جَازَتْ صَلَاتُهُ إجْمَاعًا وَإِنْ أَدَّى رُكْنًا مَعَ الِانْكِشَافِ فَسَدَتْ إجْمَاعًا (الهندية الْبَابُ الثَّالِثُ فِي شُرُوطِ الصَّلَاةِ:۴۵۱/۲)أَنَّ الشَّرْعَ أَقَامَ الرُّبْعَ مَقَامَ الْكُلِّ فِي كَثِيرٍ مِنْ الْمَوَاضِعِ ، كَمَا فِي حَلْقِ الرَّأْسِ فِي حَقِّ الْمُحْرِمِ ، وَمَسْحِ رُبْعِ الرَّأْسِ كَذَا هَهُنَا ، إذْ الْمَوْضِعُ مَوْضِعُ الِاحْتِيَاطِ .(بدائع الصنائع ( فَصْلٌ شَرَائِطُ الْأَرْكَانِ: ۴۷۷/۱) بند مرد کےستر کی حد: ناف سے لیکر گھٹنے کے ختم تک ہے،گھٹنہ بھی شرمگاہ ہے، برخلاف ناف کے کہ وہ شرمگاہ نہیں ہے۔حوالہ قَالَ مُوسَى وَاسْمُهُ عُقْبَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا رضى الله عنه يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم « الرُّكْبَةُ مِنَ الْعَوْرَةِ(دار قطني باب الأَمْرِ بِتَعْلِيمِ الصَّلَوَاتِ وَالضَّرْبِ عَلَيْهَا وَحَدِّ الْعَوْرَةِ الَّتِى يَجِبُ سَتْرُهَا ۹۰۱)عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا زَوَّجَ أَحَدُكُمْ خَادِمَهُ عَبْدَهُ أَوْ أَجِيرَهُ فَلَا يَنْظُرْ إِلَى مَا دُونَ السُّرَّةِ وَفَوْقَ الرُّكْبَةِ(ابوداود باب فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ﴿ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ ﴾ ۳۵۸۷) بند باندی کےستر کی حد:ناف سے لے کر گھٹنے کے ختم تک ، پیٹ اور پیٹھ سمیت۔حوالہ عن عطاء أن عمر ابن الخطاب كان ينهى الاماء من الجلابيب أن يتشبهن بالحرائر ،(مصنف عبد الرزاق باب الخمار ۱۳۵/۳) بند آزاد عورت کے ستر کی حد:چہرہ، دونوں ہتھیلیوں اور دونوں پیروں کے علاوہ پورا جسم۔حوالہ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ قُنْفُذٍ عَنْ أُمِّهِ أَنَّهَا سَأَلَتْ أُمَّ سَلَمَةَ مَاذَا تُصَلِّي فِيهِ الْمَرْأَةُ مِنْ الثِّيَابِ فَقَالَتْ تُصَلِّي فِي الْخِمَارِ وَالدِّرْعِ السَّابِغِ الَّذِي يُغَيِّبُ ظُهُورَ قَدَمَيْهَا(ابوداود بَاب فِي كَمْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ ۵۴۴) بند (۳) تیسری شرط :استقبال قبلہ پر قدرت کے باوجود استقبال قبلہ نہ ہونے کی وجہ سے نماز صحیح نہیں ہوتی ۔حوالہ قبلہ کیا ہے؟ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرة:۱۴۹) فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ(البقرة:۱۵۰) وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ وَكَبِّرْ(بخاري بَاب التَّوَجُّهِ نَحْوَ الْقِبْلَةِ حَيْثُ كَانَ ۱۵۸/۲) بند قبلہ عین کعبہ ہے:یہ اس شخص کا قبلہ ہے جو مکہ مکرمہ کا باشندہ ہو اور اس کے دیکھنے پر قادر ہو۔حوالہ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا وَلَمْ يُصَلِّ حَتَّى خَرَجَ مِنْهُ فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي قُبُلِ الْكَعْبَةِ وَقَالَ هَذِهِ الْقِبْلَةُ(بخاري بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى﴿ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ﴾ ۳۸۳) بند یا کعبہ کی سمت ہے:یہ اس شخص کا قبلہ ہے جو خانہ کعبہ کو دیکھ نہیں سکتا ہو، اسی طرح جو مکہ مکرمہ سے دور ہو، اس کا قبلہ بھی سمت کعبہ ہے۔ جو شخص مرض یا دشمن کے ڈر کی وجہ سے کعبہ کا استقبال نہ کرسکتا ہو، وہ جس جہت پر قادر ہو نماز پڑھ سکتا ہے۔حوالہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ (بخاري بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِبْلَةِ وَمَنْ لَمْ يَرَ الْإِعَادَةَ عَلَى مَنْ سَهَاالخ۳۸۸) عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْخَوْفِ… فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ هُوَ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ صَلَّوْا رِجَالًا قِيَامًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ أَوْ رُكْبَانًا مُسْتَقْبِلِي الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرَ مُسْتَقْبِلِيهَ(بخاري بَاب قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ ﴿ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ الخ ۴۱ ( بند (۴)چوتھی شرط :نماز کا وقت۔وقت آنے سے پہلے نماز صحیح نہیں ہوتی ۔حوالہ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (النساء:۱۰۳) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَقْرَبُ إِلَى الْجَنَّةِ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى مَوَاقِيتِهَا(مسلم، بَاب بَيَانِ كَوْنِ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ تَعَالَى أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ ۱۲۱)نماز کے اوقات کا تفصیلی ذکر پیچھے گذر چکا ہے۔ بند (۵)پانچویں شرط : نیت۔بغیر نیت کے نماز صحیح نہیں ہوتی ۔حوالہ عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البينة:۴) مذکورہ حدیث کی وجہ سے نماز کے صحیح ہونے کی ایک شرط نیت قرار دی گئی، اس لیے کہ اعمال کا دارومدار اسی کے اوپر ہے۔ بند اگر فرض نماز ہو تو اس کی تعیین ضروری ہے جیسے ظہر یا عصر کی نماز، اسی طرح اگر نماز واجب ہو تو اس کی تعیین ضروری ہے جیسے وتر یا عیدین کی نماز، ہاں !اگر نماز نفل ہو تو نیت کی تعیین شرط نہیں ہے ، بلکہ مطلق نماز کی نیت کافی ہے۔حوالہ عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البينة:۴) مذکورہ روایت کی وجہ سے نیت کرنا توضروری ہے ہی چونکہ فرض نماز کے جواوقات ہیں وہ ان کے لیے اس اعتبار سے ظرف ہیں کہ ہروقت میں وقتیہ نماز کے علاوہ اور بھی بہت ساری نمازیں پڑھنے کی گنجائش ہوتی ہے، اس لیے جب تک تعیین نیت نہ ہوگی اس وقت تک وقتیہ نماز کا اپنے ذمہ سے نکلنا دشوار ہے، برخلاف نفل کے، اس میں ذمہ میں کوئی وجوب نہیں ہوتا اس لیے صرف نماز کی نیت کافی ہوگی؛ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے فرائض وواجبات میں تعیین نیت (آج کی ظہر، یا آج کی عصر وغیرہ) کوضروری قرار دیا۔ الأصل عندنا أن المنوي ؟ إما أن يكون من العبادات أو لا فإن كان عبادة فإن كان وقتها ظرفا للمؤدى بمعنى أنه يسعه وغيره فلا بد من التعيين كالصلاة كأن ينوي الظهر فإن قرنه باليوم كظهر اليوم صح وإن خرج الوقت أو بالوقت(الاشباه والنظائر تعيين المنوي وعدمه: ۴۳/۱) بند اگر مقتدی ہو تو اسے امام کی اتباع کی نیت کرنا ضروری ہے۔حوالہ عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور متابعت ایک ایسا عمل ہے جونیت کا محتاج ہوتا ہے؛ اس لیے مقتدی کے لیے نیت کوضروری قرار دیا گیا۔ بند (۶)چھٹی شرط : تحریمہ۔تحریمہ کا مطلب خاص اللہ کے ذکر سے نماز شروع کرنا جیسے:اللہ اکبر یا اللہ اعظم،یا سبحان اللہ کہے۔حوالہ عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ :إذَا سَبَّحَ ، أَوْ هَلَّلَ فِي افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ ، أَجْزَأَهُ مِنَ التَّكْبِيرِ(مصنف ابن ابي شيبة ما يجزئ مِنَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ.۲۳۸/۱) بند نیت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان کسی نماز کے منافی عمل سے فصل نہ کرے جیسے کھانا، پینا۔حوالہ السابع : في وقتها : الأصل أن وقتها أول العبادات ولكن الأول حقيقي وحكمي فقالوا في الصلاة : لو نوى قبل الشروع ؟ فعند محمد لو نوى عند الوضوء أنه يصلي الظهر أو العصر مع الإمام ولم يشتغل بعد النية بما ليس من جنس الصلاة إلا أنه لما انتهى إلى مكان الصلاة لم تحضر النية ؟ جازت صلاته بتلك النية وهكذا روي عن أبي حنيفة و أبي يوسف كذا في الخلاصة(الاشباه والنظائر وقت النية: ۵۸/۱) بند تحریمہ کی شرط یہ ہے کہ اسے رکوع کے لئے جھکنے سے پہلے کھڑے ہوکر بجالائے ۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ وَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ يُصَلِّي كَمَا صَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ فَعَلِّمْنِي فَقَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا الخ (بخاري بَاب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ الخ: ۷۱۵) مذکورہ حدیث کے علاوہ بہت ساری احادیث ہیں جن میں نماز کی ترتیب کوبتلایا گیا اولاً تکبیرِتحریمہ پھرقیام پھرقرأت اور رکوع وغیرہ، نماز کی صحت کے لیے اس ترتیب کوبرقرار رکھنا ضروری ہے؛ اگرجھکتے ہوئے تکبیر کہی جائے توقیام نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہ ہوگی؛ اس لیے اولاً کھڑے ہوکر تکبیر کہے اور یہ صورت امام کی متابعت میں پیش آتی ہے۔ بند تکبیر تحریمہ سے نیت کو موخر نہ کرے ۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ وَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ يُصَلِّي كَمَا صَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ فَعَلِّمْنِي فَقَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ الخ (بخاري بَاب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ الخ: ۷۱۵) مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذاقمت الی الصلاۃ فکبر یعنی جب نماز کے لیے کھڑے ہو توتکبیر کہو اس جملے میں اذاقمت الی الصلاۃ سے نیت کی طرف اشارہ ملتا ہے اور یہ تکبیر سے پہلے ہے اس لیے نیت کوتکبیر سے مؤخر نہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ بند اور" اللہ اکبر " اس طرح کہے کہ خود کو سنائی دے۔حوالہ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (المدثر: ۳)عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ مِفْتَاحَ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ: ۳) مذکورہ نصوص کی وجہ سے تکبیرِتحریمہ کے تلفظ کوفرض قرار دیا گیا اور تلفظ کی کم سے کم مقدار خود کوسنائی دینا ہے۔ ( وَأَدْنَى الْمُخَافَتَةِ إسْمَاعُ نَفْسِهِ ) فَقَطْ وَهُوَ قَوْلُ الْهِنْدُوَانِيِّ وَعَلَى أَكْثَرِ الْمَشَايِخِ ( فِي الصَّحِيحِ ) (مجمع الانهر فصل في احكام القراءة في الصلاة: ۳۰۹/۱) بند