انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمروبن جموح نام ونسب عمرو نام،قبیلۂ خزرج کے خاندان سلمہ سے ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے،عمرو بن جموح بن زید بن زید بن حرام بن کعب بن غنم بن کعب بن سلمہ بنوسلمہ کے رئیس تھے ،اس کے علاوہ مذہبی عزت بھی حاصل تھی، یعنی بت خانے کے متولی تھے۔ لکڑی کا ایک بت بنا کر گھر میں رکھ لیا تھا جس کا نام مناف تھا وہ اس کی بیحد تعظیم کرتے تھے،اسی زمانہ میں سر زمین مکہ سے اسلام کا غلغلہ بلند ہوا تو مدینہ کے کچھ لوگ اس کو لبیک کہنے کے لئے مکہ پہنچے اور عقبہ ثانیہ میں مسلمان ہوکر واپس آئے اس جماعت میں عمروؓ کے ایک لڑکے معاذ بھی شامل تھے۔ یہ لوگ مکہ سے واپس آئے تو شہر یثرب کا ہر ہر گوشہ تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا بنو سلمہ کے چند نوجوانوں نے جو مسلمان ہوچکے تھے،باہم مشورہ سے یہ طے کیا کہ کسی صورت سے عمرو کو بھی مسلمان بنایا جائے،ان کے بیٹے نے اس میں خاص کوشش کی ؛چنانچہ کچھ دنوں تک ان کا یہ مشغلہ رہا کہ شب کو معاذ بن جبل وغیرہ کو ہمراہ لے کر مکان آتے اور گھر والوں کو سوتا پاکر بت کو اٹھا لاتے اور باہر کسی گھڑے میں پھینک دیتے تھے، صبح کو اٹھ کر عمرو سخت برہم ہوتے اوراپنے خدا کو اٹھا کر اندر لیجاتے،نہلاتے اورخوشبو مل کر پھر وہیں رکھدیتے ،آخر عاجز آکر ایک دن بت کی گردن میں تلوار لٹکائی اورکہا کہ مجھے تو پتہ نہیں ،ورنہ ان لوگوں کی خود خبر لیتا، اگر تم کچھ کرسکتے ہو تو کرو، یہ تلوار موجود ہے اور لڑکوں کو اب ایک اور چال سوجھی رات کو آکر بت کو اٹھایا گردن سے تلوار علیحدہ کی اوراس میں ایک مرے ہوئے کتے کو باندھ کر کنوئیں پر لٹکا دیا،عمرو نے یہ کیفیت دیکھی تو بجائے اس کے کہ اپنے معبود کی توہین پر غصہ ہوتے ،راہ راست پر آگئے ،چشم ہدایت روشن ہوگئی اوراسی وقت مذہب اسلام قبول کرلیا۔ قدیم جہالت ،بت کا قصہ اور دفعۃ اسلام کی توفیق ان واقعات کو انہوں نے خود نظم کردیا ہے فرماتے ہیں: تالله لو كنت إلهاً لم تكن أنت وكلب وسط بئر في قرن أف لمصرعك إلهاً مستدن الآن فتشناك عن سوء الغبن فالحمد لله العلي ذي المنن الواهب الرزاق وديان الدين هو الذي أنقذني من قبل أن أكون في ظلمة قبر مرتهن یہ اشعار بھی اسی تقریب سےہیں: اتوب الی اللہ سبحانہ استغفر اللہ من نارہ واثنی علیہ بالائہ باعلان قلبی واسرارہ غزوات غزوۂ بدر کی شرکت میں اختلاف ہے،لیکن صحیح یہ ہے کہ شریک نہ تھے چونکہ پیر میں چوٹ آگئی تھی، اورلنگڑاکر چلتے تھے،اس لئے جب غزوہ کے لئے جانا چاہا تو لڑکوں نے آنحضرتﷺ کے حکم سے منع کیا کہ ایسی صورت میں جہاد فرض نہیں۔ غزوۂ احد میں بھی یہی واقعہ پیش آیا، بولے کہ تم لوگوں نے مجھ کو بدر جانے سے روکا اب پھر روک رہے ہو، لیکن میں ضرور جاؤں گا،بیٹوں نے رسول اللہ ﷺ کو خبر کی، آنحضرتﷺ نے بلاکر سمجھا یا، کہ تم معذور ہو، اس لئے سرے سے مکلف ہی نہیں لیکن وہاں شہادت کا سودا سوار تھا، عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! یہ لڑکے مجھ کو آپ کے ساتھ چلنے سے روک رہے ہیں،لیکن خدا کی قسم مجھے یہ امید ہے کہ میں اسی لنگڑے پیر سے جنت میں گھسیٹتا ہوا پہنچونگا، آنحضرتﷺ نے یہ سن کر زیادہ زور دینا پسند نہیں کیا اورلڑکوں کو سمجھا یا کہ اب ا صرار نہ کرو، شائدان کی قسمت میں شہادت ہی لکھی ہو۔ شہادت حضرت عمروؓ نے ہتھیار لیکر میدان جنگ کا رخ کیا اورکہا الہی مجھے شہادت نصیب کر!اور اب زندہ گھر واپس نہ لا، دعا نہایت خلوص سے کی تھی مقبول ہوئی،لڑائی کی شدت کے وقت جب مسلمان منتشر ہونے لگے،حضرت عمروؓ نے اپنے بیٹے خلاد کو لے کر مشرکین پر حملہ کیا اوراس قدر پامردی سے لڑے کہ دونوں باپ بیٹوں نے شہادت پائی اور حضرت عمروؓ اپنے لنگڑے پیر کے ساتھ جنت میں لنگڑاتے ہوئے پہنچ گئے۔ انا للہ وانا لیہ راجعون آنحضرتﷺ ان کی طرف سے گذرے تو دیکھا کہ شہید پڑے ہوئے ہیں فرمایا خدا اپنے بعض بندوں کی قسم پوری کرتا ہے، عمروؓ بھی انہی میں ہیں اورمیں ان کو جنت میں اسی لنگڑےپاؤں کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ اس کے بدلے ان کو وہاں صحیح وسالم پیر دیا گیا ہے ۔ حضرت عمروؓ کی بیوی کو ان کی شہادت کی خبر پہونچی تو ایک اونٹ لے کر آئیں اور اپنے شوہر اور بھائی عبداللہ بن عمروؓ (حضرت جابرؓ کے والد ماجد) کو اس پر لاد کر گھر لے گئیں،لیکن بعد میں احد کا دامن گنج شہیداں قرار پایا، اس بنا پر آنحضرتﷺ نے لاش منگوا کر یہیں تمام شہدا کے ساتھ دفن کیا،چنانچہ عبداللہ بن عمروؓ اورعمروؓ بن جموح ایک قبر میں دفن کئے گئے۔ اولاد چار لڑکے تھے اور چاروں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک تھے دو کے نام معلوم ہیں اور وہ یہ ہیں ،معاذ (عقبہ ثانیہ میں شریک تھے) خلاد احد میں شہید ہوئے۔ بیوی کا نام ہند بنت عمرو تھا،بنو سلمہ کے سردار عبداللہ بن عمرو بن حرام کی بہن اور حضرت جابر صحابی مشہور کی حقیقی پھوپھی تھیں۔ حلیہ گورا رنگ ،گھونگھر والے بال، پیر میں لنگ تھا۔ اخلاق جو دوسخا عرب کی ایک قدیم میراث ہے حضرت عمروؓ میں جس درجہ تک یہ صفت موجود تھی، اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے اسی کی وجہ سے ان کو بنو سلمہ کا سردار بنایا تھا۔ چنانچہ خاندان سلمہ کے کچھ لوگ آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور آپ نے دریافت کیا کہ تمہارا ذمہ دار کون ہے؟ تو انہوں نے کہا جد بن قیس ایک بخیل شخص ہمارا سردار ہے،آنحضرتﷺ نے فرمایا بخل سے بد تر کوئی چیز نہیں اس لئے تمہارا سردار عمرو بن جموح کو بناتا ہوں، اس واقعہ کو انصار کا شاعران الفاظ میں بیان کرتا ہے: وقال رسول الله والقول قوله لمن قال منا من تسمون سيدا فقالوا له: جد بن قيس على التي نبخله منها وإن كان أسودا فتی ما تخطی خطوۃ لدنیاء ولا مدفی یومی الی سؤ اۃ یدا فسود عمرو بن الجموح لجوده وحق لعمرو بالندي أن يسودا اذا جاءہ السٔول اذھب مالہ وقال خذوہ انہ مائد غدا آنحضرتﷺ جب نکاح کرتے تو عمرؓ ودعوت ولیمہ کرتے تھے۔ (اصابہ:۴/۲۹۱)