انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۸)خارجیت انکارِ حدیث کے سائے میں انکارِ حدیث کی تحریک ادارہ طلوع اسلام یابلاغ القرآن تک نہیں ٹھہری، کراچی کا فتنہ خارجیت بھی انکارِ حدیث کی اسی اساس پراُٹھا ہے، محمود احمد عباسی کے حلقہ کے ایک صاحب عزیز احمد صاحب صدیقی ہیں؛ اُنہوں نے "اُم المؤمنین سیدہ خدیجہؓ" کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، دیکھئے آپ اس میں کس طنزیہ انداز میں حدیث کا انکار کرتے ہیں، عزیز احمد صاحب صدیقی صحیح بخاری کے متعلق لکھتے ہیں: "یہ کتاب قرآن کے بعد سب سے زیادہ سچی کتاب کہلاتی ہے؛ کیونکہ یہ قرآن کی ناسخ ہے، مسلمان حدیث کوقرآن پرجوترجیح دیتے ہیں، اس لیے دیتے ہیں کہ اس میں وہ مزیدار باتیں ہیں جوقرآن میں نہیں"۔ (ام المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ:۹۵) پھرلکھتے ہیں: "بخاری صاحب نے اپنے مجوسی معاشرے کی حرامکاری، عیاشی اور بدکاری کوکس خوبی سے مشرف بہ اسلام فرمایا ہے" (ام المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ:۱۰۴) پھراپنی دوسری کتاب "اَنمٹ باتیں" میں لکھتے ہیں: "ہماری تاریخ، ہماری فقہ، ہماری روایات یعنی حدیثیں اور تفسیریں سب مجوسیوں نے تیار کی ہیں"۔ (انمٹ نقوش:۶) فتنہ انکارِ حدیث یہیں تک نہیں رُکا کہ عباسی صاحب کے حلقہ کوحلقہ بدام کرکے کچھ آرام کرلے؛ ہمیں افسوس ہے کہ مولانا احمدرضا خان کے حلقے کے بھی بعض ناعاقبت اندیش علماء اسی حلقے کے اسیر نکلے، صحیح بخاری کے بارے میں جوزبان عزیز احمد صاحب صدیقی نے استعمال کی ہے وہی زبان اس حلقے کے بعض علماء صحیح بخاری کے بارے میں استعمال کرچکے ہیں "انوارِشریعت" ان کے پانچ علماء کا مشترکہ فتاوےٰ ہے جوفیصل آباد سے دوجلدوں میں شائع ہوا ہے، اس میں صحیح بخاری کے متعلق یہ زبان استعمال کی گئی ہے: "امام بخاریؒ نےمرجئہ وشیعہ وقدریہ وجہمیہ واہلِ بدعت وہوایہ فرقہ سے حدیثیں نقل کی ہیں جن کی باتوں پراعتماد کرنا منع ہے" (انوارِشریعت:۲/۴۲۷) "بخاری شریف کی بہت سی حدیثیں کتاب اللہ کے خلاف ہیں"۔ (انوارِشریعت:۲/۲۳۶) "بیشک بخاری میں ایک دوسرے کے خلاف بھی بہت سی حدیثیں درج ہیں"۔ (انوارِشریعت:۲/۲۳۶) "امام بخاری وغیرہ نے تمام مذاہب باطلہ کے لوگوں سے حدیثیں لی ہیں، جن کا ذکر جلد اوّل کے ضمیمہ میں گذرچکا ہے"۔ (انوارِشریعت:۲/۲۳۴) پھراِن حضرات نے اپنے مولانا عبدالکریم سے نقل کیا ہے: "امام بخاری نے توصحابہ کرام رسول علیہ السلام کی سخت توہین کی ہے "وَھُوَ ھَذَا بَاب قَوْلِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ اخْسَأْ" (بخاری:۹۱۱، مطبوعہ: احمدی) یعنی یہ باب ہے قول رجل کا واسطے رجل کے اخسا؛ پس یہاں پررجل اول سے مراد محمدرسول اللہﷺ اور رجل دوم سے مراد ابن صیاد ہے "بَاب قَوْلِ الرَّجُلِ مَرْحَبًا" (بخاری:۱۱۱۲، مطبوعہ: احمدی) اس جگہ بھی رجل سے مراد رسول اللہﷺ ہیں، سوم باب "بَاب مَاجَاءَ فِي قَوْلِ الرَّجُلِ وَيْلَكَ" یعنی یہ باب ہے قول میں رجل کے ویلک (بخاری:۹۱، مطبوعہ: احمدی) یہاں بھی رجل سے مراد رسول اللہﷺ ہیں "بَاب قَوْلِ الرَّجُلِ لِلشَّيْءِ لَيْسَ بِشَيْءٍ وَهُوَيَنْوِي أَنَّهُ لَيْسَ بِحَقٍّ" (بخاری:۹۱۷، مطبوعہ: احمدی) اس مقام پر بھی رجل سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؛ بس! اب دیکھئے کہ بخاری کی متعدد جگہوں میں رسول اللہﷺ کی شان میں لفظ رسول اللہﷺ نہ کہا بلکہ بجائے اس کے لفظ "رجل" کا جوکہ عوام الناس کے حق میں بولا جاتا ہے کس کشادہ پیشانی سے بے دھڑک استعمال کیا گیا ہے کہ جوہرحال میں سخت افسوس کے قابل ہے، بخاری پرست جورسول اللہﷺ کومثل اپنے ایک آدمی جانتے ہیں اس کا ماخذ بھی کتاب بخاری ہوتوتعجب نہیں"۔ (انوارِشریعت:۲/۴۳۶،۴۳۷) یہ عبارت نقل کرنے کے بعد ملانظام الدین نے اس پر کوئی نکیر نہیں کی مندرجہ ذیل عبارت سے جلتی پر اور تیل ڈالاہے، دیکھئے،جلد:۲، صفحہ:۴۲۷: "بیان کریں کہ بدوں کتاب اللہ کے کونسی کتاب علم حدیث میں ہے جس میں حدیثیں بناوٹی اور نامعقول باتیں درج نہیں؛ اگرکہو کہ صحاحِ ستہ میں سے بخاری شریف اعلیٰ کتاب بعد کتاب اللہ قابل عمل ہے تومیں کہتا ہوں کہ یہ بات بالکل لغو اور بناوٹی ہے؛ کیونکہ اس مجموعہ بخاری کی حدیثوں کی صحت پرکسی زمانہ میں کسی محدث کا اتفاق نہیں ہوا"۔ (۲/۴۲۷) یہ جامع الفتاویٰ مولانا احمد رضا خان، حامد رضا خان، نعیم الدین مرادآبادی اور نظام الدین ملتانی کے فتوں کا مجموعہ ہے، جسے غلام سرور قادری رضوی نے لکھا، مولانا محمداسلم علوی قادری رضوی نے مرتب کیا اور سنی دارالاشاعت رضویہ نے ڈجکوٹ روڈ لائلپور سے شائع کیا ہے، یہ خیال نہ کیا جائے کہ یہ ساتوں علماء صرف صحیح بخاری کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں موصوف کی یہ عبارت بھی دیکھ لیجئے: "امام بخاری وغیرہ نے تمام مذاہب باطلہ سے حدیثیں لی ہیں..... ذرہمدانی مرجیہ سے تھا، کتاب بخاری "بَاب التَّيَمُّمُ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ" اور ترمذی نسائی اور ابن ماجہ کا حال بھی عنقریب لکھا جائے گا" (انوارِ شریعت:۲/۲۳۴) بایں ہمہ تحریرات انہیں منکرینِ حدیث میں جگہ نہیں دی جاسکتی یہ منکرینِ کتب حدیث توہوسکتے ہیں، منکرین حدیث نہیں؛ لیکن یہ بات پھرحل طلب ہے کہ اگرحدیث کے موجودہ ذخیرے ان کی نظروں میں یہی درجہ رکھتے ہیں توپھر وہکون سے بااعتماد ذرائع ہیں جن سے ان کی علم نبوت تک رسائی ہوتی ہوگی؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ علمائے دیوبند کا موقف ان کتب حدیث کے بارے میں وہی ہے جومحدثین دہلی حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا تھا، وہ ان کتابوں کوبڑی عظمت سے دیکھتے دورہ حدیث میں پڑھاتے اور ہروہ شخص جوان کتابوں کی توہین کرے اسے بدعتی اور گمراہ سمجھتے تھے، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ونحن بحمد اللہ نعتقد فی ھٰذین الکتابین الجلیلین بمااعتقد ونقول بماقال بہ شیخ شیوخنا ومقدم جماعتنا مولانا الامام الشاہ ولی اللہ الدھلوی قدس اللہ روحہ فی حجۃ اللہ البالغۃ وھذا لفظہ اماالصحیحان فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع مافیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع (ای بالتفصیل الذی ذکرنا) وانھما متواتعان الی مصنفیہما وانے کل من یہون امرھما فھو مبتدع (ضال) متبع غیرسبیل المؤمنین"۔ (فتح الملہم:۱/۱۰۸) ترجمہ:اور ہم خدا کے فضل سے ان دوجلیل کتابوں (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتے ہیں اور وہی بات کہتے ہیں جوہمارے اساتذہ کے استاد اور جماعت کے سردار امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے حجۃ ٓللہ البالغہ میں کہی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ صحیحین کے بارے میں محدثین کا اجماع ہے کہ ان میں جوبھی (سنداً) متصل اور (حضور تک پہنچنے والی) مرفوع حدیثیں ہیں سب یقینی طور پرصحیح ہیں اس تفصیل سے جوہم ذکر کرآئے ہیں اور دونوں اپنے مصنفین تک تواتر سے پہنچتی ہیں اور جوکوئی ان دوکتابوں کی توہین کرے وہ بدعتی ہے، گمراہ ہے اور اس راہ پر چلا ہے جومؤمنین کی راہ نہیں۔