انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فرقہ سبائیہ کی ایک اور شرارت حضرت عائشہؓ کو بصرہ سے روانہ کرنے کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بصرہ کے بیت المال کو کھولا اوراس میں جس قدر زر نقد تھا وہ سب ان لشکریوں میں تقسیم کردیا جو معرکہ جمل میں حضرت علیؓ کے زیر علم لڑ رہے تھے،ہر شخص کے حصہ میں پانچ پانچ سو درم آئے یہ روپیہ تقسیم کرکے آپؓ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ ملکِ شام پر حملہ آور ہو کر فتح یاب ہوگئے تو تمہارے مقررہ وظائف کے علاوہ اتنا ہی روپیہ اور دیا جائے گا،عبداللہ بن سبا کا گروہ جس کا فرقہ سبا کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے،جنگ جمل کے ختم ہوتے ہی حضرت علیؓ کے خلاف علانیہ بدزبانیاں شروع کرچکا تھا اوراس بد زبانی اور طعن وتشنیع کے لئے حضرت علیؓ کے اس حکم کو وجہ قرار دی تھی کہ آپ ؓ نے مال واسباب کو لوٹنے سے منع کردیا تھا،اب تک تو اس حکم کے خلاف یہ فرقہ شکایات کرتا اورلوگوں کو بھڑکاتا تھا،اب جبکہ ہر ایک لشکر کو پانچ پانچ سو درم ملے تو اس پر بھی اعتراضات کا سلسلہ شروع کردیا اور یہ مخالفت یہاں تک سختی و شدت کے ساتھ شروع کی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لئے ان کی طرف سے چشم پوشی اختیار کرنا دشورار ہوگیا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جس قدر اس گروہ کو نصیحت وفہمائش کی اسی قدر اُس نے شوخ چشمی میں ترقی کی اورنوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ لوگ ایک رو ز سب کے سب بصرہ سے نکلے کر چل دئیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ملک میں جا کر فساد برپا نہ کریں، اُن کے تعاقب کے لئے آپ ؓ بصرہ سے لشکر لے کر نکلے لیکن وہ ہاتھ نہ آئے اور غائب ہوکر اپنے کام میں مصروف ہوگئے، اس جگہ یاد کرنا چاہئے کہ عبداللہ بن سبا نے اپنے آپ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فدائی اورطرفدار ظاہر کیا تھا اورحضرت علیؓ کی محبت کے پردہ میں اُس نے حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے سامان مہیا کئے تھے،اب تک وہ حضرت علیؓ کے شیدائیوں میں اپنے آپ کو شمار کرتا اورلوگوں کو بہکاتا تھا،لیکن اب فتح بصرہ اورجنگ جمل کے بعد اس سبائی گروہ نے دیکھا کہ حضرت علیؓ کی مخالفت کا اظہار کرنے سے اسلام کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے تو وہ بلا تامل مخالفت پر آمادہ ہوگیا،یہی گروہ جو درحقیقت مسلم نما یہودیوں اوراسلام کے دشمنوں کا گروہ تھا آئندہ چل کر گروہِ خوارج کے نام سے نمودار ہونے والا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد سے دشمنانِ اسلام کی خفیہ سازشوں ،خفیہ سوسائٹیوں اورخفیہ انجمنوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ آج تک دنیا میں مسلسل موجود ہے اور کوئی زمانہ ایسا نہیں بتایا جاسکتا ہے جس میں یہ دشمنِ اسلام خفیہ گروہ اپنی سازشوں اورریشہ دوانیوں میں مصروف نہ رہا ہو،کھبی یہ ابو لولو اوراس کے ترغیب دہندوں کی شکل میں تھا کبھی یہ عبداللہ بن سبا اور سبائیہ گروہ کی صورت میں دیکھا گیا،کبھی اس کا نام گروہِ خوارج ہوا کبھی یہ عباسیوں اور علویوں کی سازش بنو امیہ کے خلاف کرتا تھا ،کبھی یہ عباسیوں کے خلاف عاملوں کی طرف سے کوشش میں مصروف تھا کبھی اس کا نام فدائی اسمعیلہ گروہ ہوا کبھی اس نے فریمیسن کی شکل اختیار کی ،کبھی اس خفیہ سو سائٹی نے نہلسٹوں اورانارکسٹوں کی شکل وصورت میں ظہور کیا، کبھی اس نے ڈپلومیسی اورپالیسی کا جامہ پہنا،کبھی شہنشاہیوں اوربادشاہیوں کی وزارتِ خارجہ کے دفتروں میں اس کو جگہ ملی،اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخر ایام سے پہلے پہلے کا تمام زمانہ بھی ان خفیہ سازشوں والے گروہ سے خالی نہیں ہے، کبھی یہ بابلِ میں ہاروت وماروت اورحضرت حزقیل ودانیال کی تدابیر کے کامیاب بنانے میں مصروف تھا،کبھی اس نے بابلیوں کو یک لخت برباد کردیا، کبھی اس گروہ نے ہندوستان میں مہانند کے خاندان کی عظیم الشان سلطنت کو مٹاکر چانکیہ برہمی کے ذریعہ چندر گپت کو کامیاب بنایا، کبھی اسی گروہ نے رستم کوہلاک کرکے کیانیوں کے مشہور خاندان کے زوال کو دعوت دی،کبھی اس نے بودھ مذہب کو ہی نہیں ؛بلک بودھوں کی حکومت،تمدن، معاشرت وغیرہ ہر ایک چیز کو ہندوستان سے نیست و نابود کرکے دکھایا،کبھی جولیس سیزر کو قتل کراکر سلطنت روما کی عظمت وشوکت کےطلسم کومٹایا،عرضیکہ دنیا میں صرف بیس پچیس سال ہی ایسے گزرے ہیں جب ہم اس سازشی خفیہ گروپ کو ہم معدوم وغیرہ معلوم پاتے ہیں اور یہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ،ابوبکر صدیقؓ اورعمر فاروقؓ کا زمانہ تھا، اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی یہ خفیہ گروہ برابر دنیا میں موجود پایا جاتا ہے، بہر حال اس تاریخ کے پڑھنے والوں اور خلافتِ راشدہ کے نصفِ آخر کی تاریخ کے مطالعہ کرنے والوں کو اس دشمنِ اسلام خفیہ سازشیں کرنے والے گروہ کو چشم گرم سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ فرقہ سبائیہ جو علی الاعلان اظہارِ مخالفت کرکے بصرہ سے فرار ہوا اُس نے بہت جلد عراق عرب کے مختلف مقامات میں منتشر ہوکر اوباش اور واقعہ پسند لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے ایک معقول جمعیت فراہم کرلی اور اول صوبہ سجستان کا رخ کیا،مدعا ان لوگوں کا یہ تھا کہ یکے بعد دیگرے تمام ایرانی صوبوں کو باغی بناکر خلیفۃ المسلمین کو یہ موقع حاصل نہ ہونے دیں کہ وہ مسلمانوں کی ایک مستقل سلطنت پھر قائم کرسکیں،ایرانی صوبوں میں بغاوت پیدا کرنے سے وہ چاہتے تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اطمینان اورفروغ خاطر حاصل نہ ہو اور وہ ملکِ شام پر حملہ آور ہونے اور فتح پانے کا موقع بھی نہ پاسکیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سجستان کی طرف ان لوگوں کی توجہ کا حال سن کر عبدالرحمن بن جرو طائی کو ان کے استیصال کی غرض سے روانہ کیا، ان لوگوں سے جب مقابلہ ہوا تو لڑائی میں عبدالرحمن طائی شہید ہوئے،یہ خبر سُن کر ربعی بن کاس چار ہزار کی جمعیت لے کر روانہ ہوئے،انہوں نے ان اوباشوں کو شکست دے کر منتشر کردیا، اسی عرصہ میں جنگ صفین کے لئے طرفین سے تیاریاں شروع ہوگئیں اوران مسلم نما یہودیوں یعنی گروہ سبائیہ نے حضرت علیؓ کے لشکر میں شامل ہوجانا ضروری سمجھا؛چنانچہ وہ ہر ایک ممکن اورمناسب طریقے سے آ آکر لشکرِ علیؓ میں شامل ہوگئے۔