انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ترقیاتِ علمیہ مامون الرشید کے عہدِ حکومت کا کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں جوجنگ وپیکار اور زدوخور کے ہنگاموں سے خالی ہو اور مامون الرشید کوملکوں اور صوبوں کے انتظامات اور باغیوں کی سرکوبی کے اہتمام سے فراغت حاصل ہوئی ہو؛ لہٰذا توقع نہیں کی جاسکتی کہ ایک ایسا مصروفِ افکاراور حالاتِ سلطنت سے ہمہ اوقات باخبر رہنے والا خلیفہ علوم وفنون کی طرف بھی توجہ کرسکا ہوگا؛ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ مامون الرشید عباسی کے عہدِ خلافت میں علوم وفنون کے جس قدر دریا بہے اور مامون نے اس طرف توجہ کرکے جوجوکارہائے نمایاں علمی دنیا کے لیے انجام دیئے اس کی نظیر دوسری جگہ دستیاب نہیں ہوسکتی اور یہی وجہ ہے کہ اُس کی شہرت وعظمت نے غیرمعمولی رتبہ بلند حاصل کرلیا ہے، ہارون الرشید بغداد میں بیت الحکمت کے نام سے ایک دارالترجمہ اور دارالتصنیف قائم کیا تھا جس میں مختلف ملکوں کے رہنے والے مختلف مذاہب کے پیرو اور مختلف زبانیں جاننے والے علماء مصروفِ کار رہتے تھے۔ مامون کوارسطو کی کتابوں کے ترجمے کرانے کا شوق ہوا تواُس نے قیصرِروم کولکھا کہ ارسطو کی تمام تصانیف جہاں تک دستیاب ہوسکیں فراہم کرکے ہمارے پاس بھیج دو، قیصر کواس حکم کی تعمیل میں کچھ تامل ہوا اور اس نے اپنے عیسائی علماء سے مشورہ لیا توانہوں نے کہا کہ فلسفہ کی کتابیں ہمارے ملک میں مقفل ومحفوظ ہیں اور ان کوپڑھنے پڑھانے کی کسی کواجازت نہیں؛ کیونکہ اس سے مذہبی احترام لوگوں کے دلوں میں باقی نہیں رہ سکتا، ان کتابوں کوآپ ضرور خلیفۂ اسلام کے پاس بھجوادیں؛ تاکہ وہاں فلسفہ کی اشاعت ہو اور مسلمانوں کا مذہبی جوش سرد پڑجائے، قیصر نے پانچ اُونٹ ان کتابوں سے لاد کرمامون الرشید کے پاس بھجوادیئے، مامون الرشید نے یعقوب بن اسحاق کندی کوان کے ترجمہ پرمامور کیا؛ پھرمامون نے خود اپنی طرف سے عیسائی علماء کوجو اس کے یہاں نوکر تھے، بلادِ روم ویونان کی طرف روانہ کیا کہ وہاں سے علوم وفنون کی کتابیں تلاش کرکے لائیں، قسطابن لوقا ایک عیسائی فلاسفر خود اپنے شوق سے روم کے ملک میں گیا اور وہاں سے کتابیں تلاش کرکے لایا، مامون الرشید نے اس کودارالترجمہ میں نوکر رکھ لیا۔ اسی طرح اُس نے مجوسی علماء کوببڑی بڑی بیش قرار تنخواہوں پرنوکر رکھ کرمجوسیوں کے علوم وفنون کے ترجمہ کی خدمت سپرد کی، ہندوستان کے راجاؤں کومعلوم ہوا توانہوں نے مامون الرشید کی خدمت میں سنسکرت کے عالموں اور بڑے بڑے پنڈتوں کوبطورِ تحفہ بھیج کرخلیفہ کی خوشنودی حاصل کی، بیت الحکمت کے مترجموں کی تنحواہیں ڈھائی ڈھائی ہزار تک تھیں اور ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی تھی، جن میں یعقوب کندی، حنین بن اسحاق، قسطابن لوقا بعلبکی، ابوجعفر یحییٰ بن عدی، جبرئیل بن بختیشوع وغیرہ بہت مشہور ہیں، علاوہ تنخواہوں کے مترجموں کوہرایک کتاب کے ترجمہ کی برابر سونا یاچاندی تول کردی جاتی تھی، فلسطین، مصر، اسکندریہ، سسلی، روم، ایران، ہندوستان وغیرہ ملکوں سے علوم وفنون کی کتابیں نگواکر عربی میں ترجمہ کرائی جاتی تھیں اور بہت سے مترجمین ترجموں کی اصلاح اور نظر ثانی پرمامور تھے۔ مامون الرشید کے ہی عہد میں ایک مشہور عالم محمد بن موسیٰ خوارزمی نے مامون الرشید کی فرمائش سے علم جبرومقابلہ پرایک کتاب لکھی اور وہ اصول قائم کئے کہ اُن اُوصولوں میں آج تک نہ ترمیم ہوسکی، نہ اضافہ ممکن ہوا، زمین کے گول ہونے کا حال جب یونانی کتابوں میں دیکھا تومامون الرشید نے جغرافیہ وہیئت کے علماء کوبلاکر حکم دیا کہ زمین کے محیط کی پیدائش معلوم کرنے کے لیے کوئی وسیع وہموار میدان انتخاب کرکے ایک درجہ کی پیمائش کریں؛ چنانچہ سنجار کا مسطح میدان انتخاب کیا گیا، ایک مقام پرقطب شمالی کی بلندی کے ساتھ زاویہ قائم کرکے ٹھیک شمال کی جانب جریب ڈالتے اور ناپتے ہوئے بڑھے ۶۹/میل شمال کی جانب جانے سے قطب شمالی کی بلندی کے زاویہ میں پوا ایک درجہ بڑھ گیا اور معلوم ہوگیا کہ جب ایک درجہ کی مسافت سطح زمین پر۶۹/میل ہے توزمین کا کل محیط ۲۴/ہزار میل ہونا چاہیے؛ کیونکہ ہرنقطہ پرتمام زاویوں کا مجموعہ ۳۶۰/درجہ ہوتا ہے اور ۳۶۰/کو۹۶/میں ضرب دینے سے ۲۴/ہزار میل کے قریب فاصلہ برآمد ہوتا ہے، دوبارہ یہی تجربہ صحرائے کوفہ میں بھی کیا گیا اور وہی نتیجہ برآمد ہوا۔ خالد بن عبدالملک مروروزی اور یحییٰ بن ابی منصور وغیرہ کے ذریعہ شماسیہ کی رسدگاہ تعمیر ومکمل کرائی اور اجرامِ سماویہ کے مطالعہ پرعلماء ہیئت مامور کئے، فرامین بھیج کرہرایک شہر اور ہرایک علاقے سے علماء وفضلا طلب کیے گئے، علمی مجلسیں اور مناظرے منعقد ہوتے مامون اُس میں شریک ہوکر حصہ لیتا، ادیب، شاعر، متکلم، طبیب؛ غرض ہرعلم وفن کے باکمال بغداد میں ایسے بلند پایہ موجود تھے جن میں سے کسی کا جواب دنیا میں ملنا دشوار تھا، اصمعی جولغاتِ عرب اور نحو وادب کا امام تھا پیرانہ سالی کی وجہ سے کوفہ چھوڑ کربغداد نہ آسکا، اس کووہیں وظیفہ ملتا تھا اور اہم مسائل حل کرنے کے لیے وہیں بھیجے جاتے تھے، فرّاء نحوی نے بغداد میں علمِ نحو کی تدوین کی اور کتابیں لکھوائیں، اُس کے لیے ایوانِ شاہی کا ایک کمرہ خالی کردیا گیا تھا جس میں علماء طالب علمانہ حیثیت سے استفادہ کرنے آتے تھے، فنِ خوشنویسی پرمامون ہی نے زمانے میں کتابیں لکھی گئیں اور اس فن کے اُصول وقواعد مدوّن ومرتب ہوئے؛ غرض مامون الرشید کی توجہ اور سرپرستی علوم کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے سامنے یونانیوں، ایرانیوں، مصریوں اور ہندیوں کے علوم وفنون سب یک جا بے نقاب ہوگئے؛ اگرچہ مسلمانوں کوقرآن وحدیث کے ہوتے ہوئے کسی علم وفن کی ضرورت نہ تھی؛ تاہم ان قدیم فلسفوں اور متفرق علوم کی طرف مسلمانوں کی توجہ نے مبذول ہوکر سب کواس طرح مرتب ومہذب کردیا کہ گویا نئے سرے سے ایجاد کیا، کامل آزادی سے کام لیا گیا اور بظاہر یہ مختلف قوموں کے حکمیہ علومِ فلسفہ، قرآن کے مقابلہ پرآئے اور خدامِ اسلام کوموقعہ ملا کہ انھوں نے اُن تمام فلسفوں اور تمام مخالف قرآن کے اُصولوں کوغلط اور نادُرست ثابت کیا، اس طرح مذاہب وعلوم کی معرکہ آرائیاں کا سللہ جاری ہوکر اسلام کوجوعلمی فتوحات حاصل ہوئیں وہ اُن ملکی فتوحات سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں، جوعہدِ بنواُمیہ میں حاصل ہوئیں اور علمی فتوحات ہیں جنھوں نے خلافتِ عباسیہ کے مرتبے کوخلافتِ بنواُمیہ کا ہمسر بنادیا؛ ورنہ فتوحاتِ ملکی کے اعتبار سے خلافتِ عباسیہ ہرگز خلافتِ بنواُمیہ کی حریف وہمسر نہیں ہوسکتی؛ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ فتوحاتِ ملکی کے اعتبار سے بنوعباس کی خلافت سخت ناکام ثابت ہوئی؛ کیونکہ وہ بنواُمیہ کے فتح کیے ہوئے ملکوں کوسنبھال بھی نہ سکی۔