انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بغاوتیں عبدالرحمن بن معاویہ اگرچہ کسی گروہ او رکسی فریق سے خصوصی تعلق نہ رکھتا تھا اور وہ سب سے یکساں برتاؤ کرنا چاہتا تھا مگر جو پہلے سے اندلس میں رنما تھے انکا یہ اثر ہوا کہ عبدالرحمن کو اپنی حکومت کے شروع میں بغاوتوں اور سرکشیوں کا مقابلہ کرناپڑا ،تفصیل اس اجمال کی یہ کہ یوسف فہری سابق امیر اندلس معاہدہ کے موافق قرطبہ میں مقیم یا یوں کہیے کے نظر بند تھا ،قرطبہ پر قابض ہونے کے بعد عبدالرحمن کو دوسال تک ملک کےصوبوں پر تسلط قائم کرنے اور سرکشوں کو اطاعت پر مجبور کرنے پر صرف کرنا پڑے،اس دوران میں عبدالرحمن کو ضرورت محسوس ہوئی کہ ہم ہم قوموں کو جہاں کہیں وہ بنو عباس کی تلواسے بچ گئے ہوں اپنے پاس بلوائے اور بربریوں کی ایک فوج مرتب کرنے جن سے حمایت وہمدردی کی اس کو توقع تھی ،خاندان بنو امیہ کا ایک شخص عبدالملک بن عمر بن مروان بن حکم اور اس کا بیٹا عمر بن عبدالملک عباسیوں کی تلوار سے بچتے ہوئے ابھی تک مصر میں موجود تھے انہوں نے جب اندلس پر قبضہ کا حال سنا تو مصر سےروانہ ہوئے اور بنو امیہ کےدس اور آدمی بھی جو ادھر ادھر چھپے ہوئے تھے ان کے ساتھ شامل ہوگئے اس طرح یہ بارہ آدمیوں کا قافلہ اندلس میں عبدالرحمن کے پاس پہنچ گیا ،عبدالرحمن اپنے رشتہ داروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا عبدالملک بن عمر کو اصبیلیہ کی اور عمر بن عبدالملک کو مورور کی حکومت پر مامور کیا۔ اس اجنبی ملک میں عبدالرحمن بالکل تنہا تھا اور مسلمانان اندلس کے مختلف فرقوں اور گروہوں سے اس کو یہ توقع نہ تھی کہ وہ سب کے سب عباسیوں کی مخالفت پر آمادہ ہوسکتے تھے اس لیے اس نے اول اول اپنے آپ کو اسی طرح ایک امیر اندلس کی حیثیت میں رکھا جیسا کہ اس سے پہلے بھی اندلس کے کے امیر ہوتے رہے تھے ،خطبہ میں وہ خلیفہ عباس ہی کا نام لیتا تھا؛ حالانکہ دل سے وہ عباسیوں کا دشمن تھا ،ان ہم قوم اور ہم قبیلہ بلکہ قریبی رشتہ داروں کو اس نے اپنے لیے بہت ہی غنیمت سمجھا اور ان کو بڑے بڑے عہدے جو بلا تامل دے سکتا تھا دیے، اندلس کے اندر عبدالرحمن کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہی بہت سے ایسے لوگ پیدا ہوچکے تھے جو بدل عبدالرحمن کی حکومت سے خوش نہ تھے اب جب کہ عبدالرحمن نے۱۴۱ھ میں عبدالملک اور اس کے بیٹے کو اشبیلیہ وغیرہ کی حکومت عطا کی تو ان لوگوں کو آزادانہ اور پہلے سے زیادہ چہ می گوئیوں کا موقع مل گیا اور غدر وبغاوت کی تحریک جلد جلد نشو نما پاکر خطرناک صورت اختیار کرگئی۔