انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وہب بن منبہ رحمہ اللہ وہب بن منبہ کی عام کتب سماوی خصوصاً تورات اور انجیل سے واقفیت اور ان سے متعلق ان کے معلومات کی کثرت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اہلِ کتاب میں سے تھے؛ لیکن چونکہ ارباب رجال میں سے کسی نے ان کے اہلِ کتاب ہونے کی تصریح نہیں کی ہے، اس لیے مجھے ان کواس فہرست میں داخل کرنے سے تامل تھا؛ لیکن ابن ندیم کی یہ تصریح مل جانے کے بعد کہ اہلِ کتاب میں سے جولوگ ایمان لائے تھے، ان میں وہب بن منبہ بھی تھے (فہرست ابن ندیم:۳۲) زمرۂ اہلِ کتاب تابعین میں داخل کرلیا گیا؛ مگراس کے بعد ایک دوسرا سوال کہ وہ عیسائی تھے یایہودی باقی رہ جاتا ہے، ان میں سے کسی ایک کی تصریح نظر سے کہیں نہیں گذری؛ لیکن کتب تفسیر میں عام ظور پر اور ابونعیم نے حلیۃ الاولیاء میں خاص طور پران کے جواقوال نقل کیے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عیسائی لٹریچر کے مقابلہ میں یہودی لٹریچر سے زیادہ واقف تھے؛ نیز سیف بن ذمی یزن یمنی یہودی سے ان کا عزیزانہ تعلق بھی تھا، اس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ یہودی رہے ہوں گے، اب اس مختصر تمہید کے بعد ان کے حالات لکھے جاتے ہیں: نام ونسب وہب نام (یہ حالات زیادہ تر تابعین سے ماخوذ ہیں)، ابوعبداللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے، وہب بن منبہ بن کامل بن مسیحابن ذمی کنازیمنی صنعانی، ایک روایت یہ ہے کہ وہب عجمی النسل تھے، ان کے والد منبہ کسریٰ کے زمانہ میں جب اس نے سیف بن ذی یزن حمیری کی قیادت میں حبشہ پرمہم بھیجی تھی، یمن آئے تھے اور پھریہیں آباد ہوگئے اور عہدِ نبوی میں مشرف باسلام ہوگئے۔ پیدائش سنہ۳۴ھ میں پیدا ہوئے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۸) فضل وکمال اسلامی علوم میں وہب کا کوئی خاص درجہ نہ تھا؛ بلکہ جیسا کہ آگے چل کرمعلوم ہوگا کہ بمقابلہ اس کے وہ دوسرے مذاہب کی کتابوں اور صحیفوں کے عالم تھے؛ تاہم وہ اسلامی علوم سے بیگانہ نہ تھے، تابعین میں ممتاز شخصیت کے مالک تھے، علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ وہ جلیل القدر تابعی ہیں، ان کی توثیق پرسب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۴۹) حدیث حدیث میں متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے فیضیاب ہوئے تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، انس بن مالک اور نعمان ابن بشیر سے ان کی روایت ملتی ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۱۶۷) ان کے صاحبزادے عبداللہ وعبدالرحمن اور بھتیجے عبدالصمد اور عقیل اور عام لوگوں میں عمروبن دینار، سماک بن فضل اسرائیل وغیرہ نے ان سے سماع حدیث کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۱۶۷) فقہ ان کے تفقہ کے سلسلہ میں صرف اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں صنعا کے عہدۂ قضاء پرمامور تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۵) غیرمذاہب کے صحیفوں کا علم وہب دوسرے مذاہب کے صحیفوں کے بڑے نامور عالم تھے؛ بلکہ اس بارے میں ان کی جماعت میں ان کا کوئی مقابل نہ تھا، امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ وہ گذشتہ کتابوں کے علم ومعرفت میں مشہور ہیں (تہذیب الاسماء:۱/۱۴۹) حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ وہ بڑے وسیع العلم تھے اور اپنے زمانہ میں کعب احبار کے نظیر مانے جاتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۹) استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بانوے الہامی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا، جن میں سے بعض ایسی تھیں جن کے متعلق لوگوں کوکم واقفیت ہے، داؤد بن قیس صنعانی کا بیان ہے کہ میں نے وہب سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے بانوے آسمانی کتابیں پڑھیں جن میں سے بہتر کنیسوں میں اور لوگوں کے پاس موجود ہیں اور با ئیس کتابوں کا علم بہت کم لوگوں کو ہے، ان تمام کتابوں میں یہ مضمون مشترک ہے کہ جوانسان مشیت کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے وہ کافر ہے، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تیس کتابیں ایسی جوتیس نبیوں پراُتری تھیں، ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے؛ بلکہ دونوں صحیح ہیں، تیس کتابیں ایسی رہی ہوں گی جن کی حیثیت مستقل مصاحف کی ہوگی اور بقیہ مستقل کتابیں نہ رہی ہوں گی اس قدر مسلم ہے کہ وہ کتب ماضیہ کے سب سے بڑے عالم تھے اور قدیم صحیفوں کے مشہور اور نامور علماء کعب احبار اور عبداللہ بن سلام دونوں کا مجموعی علم ان کی تنہا ذات میں جمع تھا۔ تصنیفات عہدِ اسلام میں فن تاریخ پرسب سے پہلی کتاب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اخبار الماضیین لکھی گئی، اس کے بعد وہب بن منبہ کویہ فخر حاصل ہے کہ انھوں نےاس فن میں ایک مفید کتاب ذکرالملوک لکھی، یہ اس وقت ناپید ہے؛ لیکن ساتویں صدی تک موجود تھی، علامہ ابن فلکان نے اس کتاب کودیکھا تھا؛ انھوں نے لکھا ہے کہ اس میں یمن کے متعلق بہت مفید معلومات ہیں اور اس میں ملوک حمیر کے اخبار وانساب اور ان کے مقابر واشعار کا تذکرہ تفصیل سے موجود ہے۔ (ابنِ خلکان:۲/۱۸۰) اس کتاب کے علاوہ صاحب کشف الظنون نے ان کی ایک کتاب کا تذکرہ کیا ہے، کشف الظنون کی عبارت یہ ہے: أول من صنف فيها: عروة بن الزبير وجمعها أيضا: وهب بن منبه۔ (کشف الظنون:۲/۱۷۴۶، شاملہ، موقع المحدث المجاني، المؤلف: مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني (المتوفى:۱۰۶۷ھ)) ترجمہ: مغازی میں سب سے پہلے عروہ بن زبیر نے تصنیف کی، اس کے بعد اس فن کووہب ابن منبہ نے جمع کیا۔ اس کتاب کا ایک نسخہ ہیڈن برگ (جرمنی) میں موجود ہے، اس نسخہ پرسنہ کتابت سنہ۲۲۸ھ درج ہے اور راوی کا نام محمد بن بکر عن عبدالمنعم عن ابیہ عن ابی الیاس عن وہب درج ہے، وہب نے اپنی عادت کے مطابق اس میں بھی اسناد کا استعمال نہیں کیا ہے، اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انھوں نے کہیں اسرائیلیات کوداخل نہیں کیا ہے۔ (ضحی الاسلام:۲/۳۲۳) فضائلِ اخلاق وہب فطرۃ نہایت صالح تھے، دینی کتابوں کے مطالعہ نے اُن کواور زیادہ حلیم اور عبادت گزار بنادیا تھا، وہ عابد شب زندہ دار تھے، ساری رات عبادت کرتے تھے، کامل بیس سال تک انھوں نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی، طبیعت میں نرمی اس قدر تھی کہ کسی ذمی روح کے لیے ان کی زبان سے گالی یادرشت کلمہ نہ نکلا۔ غیرمعتبرروایات لیکن کعب احبار کی طرح ان کی ذات بھی مسلمانوں میں غیرمعتبر اسرائیلیت کی اشاعت کا باعث ہوئی۔ حکیمانہ مقولے حلیۃ الاولیاء میں وہب بن منبہ کے بہت سے حکیمانہ اقوال درج ہیں، ان میں سے چند یہاں نقل کیے جاتے ہیں، فرمایا کہ بے عمل اور آوارہ آدمی حکماء میں نہیں ہوسکتا (حلیۃ الاولیاء:۴/۲۷) فرمایا کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے کونصیحت کی کہ اے نورِ چشم اہلِ ذکر اور اہلِ غفلت کی مثال نور اور ظلمت کی ہے، یعنی اہلِ ذکر میں خدا کا نور ہوتا ہے اور اہلِ غفلت میں ظلمت ہوتی ہے، ایک بار نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ترازو کے پلڑوں کی طرح ہرچیز کے دوکنارے ہوتے ہیں؛ اگرایک کوپکڑوگے تودوسرا جھک جائے گا، اس لیے چاہیے کہ وسط کوپکڑو؛ تاکہ دونوں میں سے کوئی نہ جھکنے پائے، یعنی ہرکام میں اعتدال ملحوظ رکھنا چاہیے۔ (حلیۃ الاولیاء:۴/۳۵) فرمایا: ہرچیز ابتداء میں چھوٹی ہوتی ہے؛ پھرآہستہ آہستہ بڑی ہوجاتی ہے؛ لیکن مصیبت کا حال اس کے بالکل برعکس ہے، وہ ابتداء میں بڑی ہوتی ہے؛ پھرآہستہ آہستہ چھوٹی ہوجاتی ہے، عینی اس کا اثرگھٹ جاتا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء:۴/۶۳) فرمایا جوشخص علم حاصل کرتا ہے اور اس پرعمل نہیں کرتا اس کی مثال اس طبیب کی سی ہے جس کے پاس دوا اور شفا کا سامان موجود ہے؛ لیکن وہ انھیں استعمال نہیں کرتا (حلیۃ الاولیاء:۴/۷۱) کسی نے ان سے دریافت کیا کہ ایک شخص نماز میں طویل قیام کرتا ہے اور دوسرا سجدہ میں، دونوں میں کون افضل ہے؟ فرمایا: جواللہ تعالیٰ سے زیادہ تعلق اور محبت رکھتا ہو۔ (حلیۃ الاولیاء:۱/۳۴) فرمایا:منافق کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ تعریف کوپسند کرتا ہے اور تنقید کوناپسند (حلیۃ الاولیاء:۲/۴۱) فرمایا:اگرکسی بچہ میں دووصف موجود ہیں تواس سے رشدوصلاح کی توقع ہے، ایک حیا، دوسرے خوف۔ (حلیۃ الاولیاء:۲/۳۶) ایک مرتبہ فرمایا کہ ہرچیز کی کوئی نہ کوئی علامت اور شناخت ہوتی ہے، دین کی علامت تین چیزیں ہیں، ایمان، علم اور عمل؛ پھرایمان کی بھی تین علامتیں ہیں، اللہ پر، ملائکہ پر اور اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پرایمان، عمل کی بھی تین شناخت ہے، نماز، روزہ، زکوٰۃ، علم کی تین علامتیں یہ ہیں، اللہ کا اور اس کی رضا اور عدم رضا کا علم، تصنع اور تکلف کرنے والوں کی تین علامتیں یہ ہیں، اللہ کا اور اس کی رضا اور عدم رضا کا علم، تصنع اور تکلف کرنے والوں کی تین پہچان ہے، جو اس سے اونچے ہوتے ہیں، ان کی ہرچیز میں وہ مقابلہ کرتا ہے اور جوچیز اسے معلوم نہیں ہوتی اس کے بارے میں وہ اپنی معلومات کا اظہار کرتا ہےاور جوچیز اللہ نے اسے فطرۃ دی نہیں یاوہ پا نہیں سکتا اس کے حصول کی کوشش کرتا ہے، منافق کی شناخت کی تین صورتیں ہیں جب وہ تنہا ہوتا ہے توکسل مند ہوتا ہے اور جب اس کے یہاں کوئی جاتا ہے تونشاط اور چستی کا اظہار کرتا ہے اورہرکام میں تعریف کا خواہاں ہوتا ہے، حاسد کے پہچاننے کی تین صورتیں ہیں، جن سے وہ حسد کرتا ہے، جب وہ غائب ہوتا ہے تواس کی غیبت کرتا ہے اور جب وہ سامنے موجود ہوتا ہے توا س کی خوشامد کرتا ہے اور مصیبت کے وقت گالی گفتہ کرتا ہے، مسرف کی تین عادتیں ہوتی ہیں، وہ اس چیز کوخریدتا ہے جواس کے لائق اور اس کے لیے مفید نہیں ہے، کھانا وہ کھاتا ہے جو اس کے لیے نہیں ہے، کپڑے وہ پہنتا ہے جو اس کے لیے نہیں ہیں، یعنی ہرکام میں اپنا معیار بلند کرتا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء:۱/۴۷) ان اقوال میں انھوں نے مختصر طور سے اخلاق وعمل کے تمام پہلوؤں پرروشنی ڈال دی ہے، اللہ ہمیں اس کی توفیق دے ۔ وفات ہشام بن عبدالملک کے عہد میں سنہ۱۱۰ھ میں صنعاء میں وفات پائی۔ اولاد کتب رجال میں اولاد کی کوئی تصریح نہیں ملتی؛ لیکن ابن ندیم نے ان کے پرنواسے عبدالمنعم کا ذکر کیا ہے؛ جنھوں نے تاریخ کی ایک کتاب المبتدی کے نام سے تصنیف کی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے ایک صاحبزادی تھیں۔ (حلیۃ الاولیاء:۱/۱۳۸)