انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۱۷)ابالحسن علی بن عمرالدارِقطنی (۳۸۵ھ) بغداد کے محلہ "دارِقطن" کے رہنے والے تھے، خطیب تبریزی لکھتے ہیں: "كَانَ فَرِيدَ عَصْرِهِ وَقَرِيعَ دَهْرِهِ وَإِمَامَ وَقْتِهِ، انْتَهَى إلَيْهِ عِلْمُ الْحَدِیْثِ وَالْمَعْرِفَةِ بِالْعِلَلِ وَأَسْمَاءِ الرِّجَالِ وَمَعْرِفَۃِ الرُّوَاۃِ مَعَ الصِّدْقِ وَالْأَمَانَۃِ وَالثِّقَۃِ وَالْعَدَالَۃِ"۔ (الاکمال:) ترجمہ:اپنے عہد کے بےمثل محدث تھے زمانے کا مرجع اور امام وقت تھے، علم حدیث اس کی معرفت علل اسماء الرجال اور راویوں کوان کے صدق وامانت اور اعتماد وعدالت سے پہچاننا ان پر ختم تھا۔ معرفت علل میں اس درجہ پر تھے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم جیسی کتابوں پرتعقبات کیئے؛ گواکثرمقامات پران کی پکڑ بے جانکلی اور علمائے شیخین کی طرف سے ان کے شافی ووافی جواب دیئے؛ تاہم ان کی اس جرأت سے ان کے علم وعظمت کی ایک جھلک ضرور سامنے آجاتی ہے، امام ابوحنیفہؒ پر بھی اس زعم میں جرح کی؛ لیکن امام الجرح والتعدیل، امام یحییٰ بن معین کی توثیق کے سامنے ان کی کیا شنوائی ہوسکتی تھی، آپ شافعی المسلک تھے اور آپ کی اس جرح میں بلاشبہ ان کے تشدد کودخل تھا۔ اسماعیل صفار، ابوسعید اصطخری اور دیگر اساتذۂ فن سے حدیث سنی، طلب حدیث میں کوفہ، شام، واسط اور مصر کے کئی سفر کیئے، ابوعبداللہ الحاکم (۴۰۵ھ)، ابومحمد عبدالغنی، حافظ ابونعیم صاحب الحلیہ (۴۳۰ھ)، ابوبکر احمد البرقانی (۴۲۵ھ) اور قاضی ابوالطیب الطبری ان کے تلامذہ میں سے تھے، یہ صحیح ہے کہ آپ کی طبیعت میں تیزی اور تشدد تھا؛ لیکن اس میں شک نہیں کہ علل حدیث اور معرفت رجال میں اپنے وقت کے مقتداء تھے، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) کوآپ کے اس تفوق کاپورا اعتراف ہے، آپ اپنے مقام کے مناقب حدیث کی کوئی بلند پایہ کتاب نہ لکھ سکے، سنن دارِقطنی بیشک ایک مجموعہ حدیث ہے اور اس میں کئی ایسی حدیثیں ملتی ہیں جودوسری کتابوں میں نہیں؛ لیکن افسوس کہ آپ اس میں رجال واسانید کا کوئی معیار قائم نہ رکھ سکے اور موضوع روایات تک کواس میں جگہ دے دی، شارح بخاری علامہ عینی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: "روى في ( سننه ) أحاديث سقيمة ومعلولة ومنكرة وغريبة وموضوعة"۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری:۳/۶۷) ترجمہ:اس سنن میں سقم، معلول، منکر، غریب اور موضوع روایات تک روایت کردی ہیں۔ سنن دارِقطنی کوکسی جہت سے صحیح دارِقطنی نہیں کہا جاسکتا، ماسوائے مرزاغلام احمد قادیانی کے کسی نے اسے صحیح دارِقطنی نہیں لکھا، مرزاغلام احمد ایک مقام پر لکھتا ہے: "یہ حدیث اگرقابل اعتبار نہیں تھی تودارِقطنی نے اپنی صحیح میں کیوں اس کودرج کیا؛ حالانکہ وہ اس درجہ کا آدمی ہے کہ جوصحیح بخاری پر بھی تعاقب کرتا ہے"۔ (تحفہ گوٹرویہ:۲۸، مطبوعہ:سنہ۱۹۲۳ء، اس میں رمضان میں کسوف وخسوف کی منقطع روایت نقل کی گئی ہے)