انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حفاظت قرآن کا ایک اہم پہلو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کی تشریح وتوضیح کرنے کے لیے خدا کی طرف سے مامور تھے ("وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ" النحل:۴۴) قرآن پاک میں بہت سے احکام ہیں جو بہت مجمل صورت میں بیان ہوئے، جیسے نماز اور زکوٰۃ وغیرہ جب تک حضورﷺ کی تشریح و توضیح کو ان مجمل احکام کے ساتھ نہ ملایا جائے، اس وقت تک ہم معلوم نہیں کرسکتے؛ کہ اللہ تعالی نے ہمیں کس چیز کا مکلف ٹھہرایا ہے،ان مجمل احکام کی وہ تفصیل جو آنحضرتﷺ نے عملا اختیار کی، اگر محفوظ نہ رہی ہو اوراس بیان رسول کے محفوظ رہنے کی کہیں کوئی ذمہ داری نہ ہو، تو ان صورتوں میں قرآن پاک کی ان آیات سے جو گو مجمل ہیں مگر صریح نہیں کبھی کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا اورقرآن کریم کے بہت سے احکام جن کا اللہ تعالی نے ہمیں مکلف کیا ہے یکسر معطل ہوکر رہ جائیں گے، نتیجہ لازم یہ ہوگا؛کہ ہم ان مقامات میں خدا تعالی کی صحیح مراد نہ جان سکیں گے(الاحکام لابن حزم:۱۲۱) کیااس سے حفاظت قرآن سے امان نہ اٹھ گئی ؟ اورحفاظت قرآن مجروح نہ ہوئی۔ یہ صورت حال قرآن پاک کی ابدی حفاظت کو بری طرح متاثر کرے گی،پس ہم اس اقرار پر مجبور ہیں؛کہ قرآن پاک کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی وہ تفصیل بھی پوری طرح محفوظ ہے،جو آنحضرتﷺ نے عملا اختیار فرمائی،اسے بیان کیا یا اسے دوسروں کے سامنے منظوری بخشی گو یہ سکوت سے ہو، سو! ہمیں اس یقین سے چارہ نہیں ؛کہ حفاظت قرآن حفاظت حدیث کو بھی شامل و لازم ہے؛ ورنہ حفاظت قرآن کا وعدہ بھی بے کار اور بے سود ہو کر رہ جائے گا اور یہ سمجھا جائے گا؛کہ قرآنی حفاظت کا وعدہ محض لفظوں کا کھیل ہے اورقرآن اپنے مفہوم کو قطعی شکل میں محفوظ رکھنے میں فیل ہے۔(معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) ظاہر ہے کہ کوئی صاحب علم اس کی تائید نہ کرسکے گا۔