انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قرآن اور عقلی دلائل (قرآن وسنت سے جو باتیں ثابت ہوتی ہیں ہم انھیں نقلی دلائل سے تعبیر کرتے ہیں،اور عقل سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں انھیں عقلی دلائل کہتے ہیں) عہد حاضر کے بعض مصنفین قرآن وسنت کے ارشادات میں بعض اوقات یہ کہہ کر دور دراز کار تاویلات اختیار کرتے ہیں کہ ان ارشادات کا ظاہری مفہوم عقل کے خلاف ہے، اس لیے ان کی ایسی تاویل کرنی ضروری ہے جو عقل کے خلاف نہ ہو۔ حضرت مولاناحفظ الر حمن صاحب سیو ہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : دراصل اس قسم کے مباحث علمیہ کے لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو مسائل علم یقین اور مشاہدے کی حد تک پہنچ چکے ہیں اور قرآنی حکم اور وحی الہی ان حقائق کا انکار نہیں کرتے (کیونکہ قرآن عزیزمشاہدے اور بداہت کا کبھی بھی انکار نہیں کرتا)تو ان کو بلا شبہ تسلیم کیا جائے ،اس لیے کہ ایسے حقائق کا انکار بے جا تعصب اور تنگ نظری کے سوا اور کچھ نہیں اور جو مسائل ابھی تک یقین اور جزم کی اس حد تک نہیں پہنچے جن کو مشاہدہ اور بداہت کہا جاسکے تو ان کے متعلق قرآن عزیز کے مطالب میں تاویلات نہیں کرنی چاہیے،اور خوامخواہ ان کوجدید سانچے میں ڈھالنے کی سعی ہر گز جائز نہیں؛ بلکہ وقت کا انتظار کرنا چاہیے کہ وہ مسائل اپنی حقیقت کو اس طرح آشکارا کردیں کہ ان کے انکار سے مشاہدے اور بداہت کا انکار لازم آجائے اس لیے کہ یہ حقیقت ہے کہ مسائل علمیہ کوتو بار ہا اپنی جگہ سے ہٹنا پڑا ہے ؛مگر علوم قرآنی کو کبھی ایک مرتبہ بھی اپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔