انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تصحیح روایت میں محدثین پر اعتماد محدثین میں حدیث کی تصحیح کے دونوں طریقے رائج رہے ہیں: (۱)راویوں کی ثقاہت ان کے باہمی اتصال اور شذوذونکارت سے سلامتی معلوم کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہہ سکتے ہیں۔ (۲)کبھی ان تفصیلات میں جائے بغیر اکابر علمائے فن کی تصحیح پر اعتماد کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہا جاسکتا ہے۔ قبولیت روایت میں اصل الاصول اعتماد ٹھہرا توجس طرح سے بھی یہ اعتماد حاصل ہوسکے روایت قابلِ قبول ہوجاتی ہے۔ ہرفن میں اکابرِ فن کی تقلید کی جاتی ہے، اس سے انسان اسی وقت نکلتا ہے جب خود براہِ راست راویوں کی جانچ پڑتال کرسکے اور اس کی جملہ طرق پر نظر ہوسکے، اس کے بغیراعتماد سے چارہ نہیں، اس اعتماد کوبھی علم کی ہی ایک شان سمجھنا چاہیے، تقلید سے مراد دوسرے کے علم پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی دلیل مانگے بغیر اس کی بات کوقبول کرنا ہے، جس بات میں خود مضبوط علم حاصل نہ ہو تقلید سے چارہ نہیں، ہاں جب کسی بات کی براہِ راست تحقیق ہوجائے اور اس میں کوئی شک اور دغدغہ نہ رہے توپھرتقلید درست نہیں؛ لیکن جب تک راویوں کا پورا علم خود حاصل نہ ہو محدثین کرام جوائمہ فن ہیں ان کی تصحیح اور ان کی تضعیف سے بھی علماءِ حدیث کسی روایت کوصحیح یاضعیف کہہ سکتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) جرح وتعدیل کے جلیل القدر امام ہیں، آپ اس اعتماد کے یہاں تک قائل تھے کہ اسے الہام کا درجہ دیتے تھے، جس طرح الہام کی خارج میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، ایک وجدان ہے جواندر ہی اندر بولتا رہتا ہے؛ اسی طرح محدثین کرام کوفن کے کمال سے جوذوق ووجدان ملتا ہے اس پر وہ بعض حدیثوں کوراویوں کی ثقاہت اور سند کے اتصال کے باوجود قبول نہیں کرتے، حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) کہتے ہیں: "ومعرفۃ الحدیث الھام فلوقلت للعالم لعلل الحدیث من این قلت ھذا؟ لم یکن لہ حجۃ"۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:۱۱۳) ترجمہ: حدیث کی معرفت ایک الہامی چیز ہے جودل میں اُترتی ہے؛ اگرمیں علل حدیث کے کسی عالم سے کہوں کہ تم یہ بات کہاں سے کہہ رہے ہوتواس کے پاس اس کا جواب نہ ہوگا۔ حافظ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں: "اذالعمدةُ في زمانِنا ليسَ على الرواةِ بل على المحدِّثينَ والمقيِّدينَ والذين عُرِفَتْ عدالتُهم وصدقُهم في ضَبْطِ أسماءِ السَّامِعِيْنَ"۔ (میزان الاعتدال:۱/۴) ترجمہ:ہمارے پاس اس دور میں (تحقیق حدیث میں) اعتماد راویوں پر نہیں کیاجاسکتا؛ بلکہ محدثین اور اساتذہ پر ہے اور ان لوگوں پر جن کی عدالت اور سچائی راویانِ حدیث کے ناموں کویادرکھنے میں جانی پہچانی جاچکی ہے۔ جب تک راویانِ حدیث اپنی سند سے حدیثیں روایت کرتے رہےتحقیق حدیث کا طریق راویوں کی جانچ پڑتال ہی رہا؛ لیکن جب سندوالی کتابیں مدون ہوچکیں اور اس جمع شدہ ذخیرے سے ہی حدیث آگے چلی تواس دور میں علیحدہ علیحدہ راویوں کی جانچ پڑتال کے ساتھ حاذق محدثین کی تحقیق اور اکابراساتذہ فن کا ذوق بھی ساتھ Instinct چلنے لگے تواب راویوں کی بجائے اساتذہ فن کے فیصلوں پراعتماد کے بغیر آگے نہیں چل سکتے؛ یہاں اہلِ فن کی تقلید سے چارہ نہیں، ہرشخص کا ذوق اس درجے میں پختہ نہیں ہوتا کہ محض راویوں کے حالات جان کرپوری سندع اور پوری حدیث پر وہ کوئی حکم لگاسکے، حافظ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں: "ان الجرح انما جرز فی الصدرالاول حیث کان الحدیث یوخذ من صدور الاحبار لامن بطون الاسفار فاحتیج الیہ ضرورۃ للذب من الاثارومعرفۃ القبول والمردود من الحدیث والاخبار واماالآن فالعمدۃ علی الکتب المدونۃ"۔ (الکادی فی تاریخ السخاوی کما فی الرفع والتکمیل:۵۰) ترجمہ:راویوں پرجرح کرنا پہلے دور میں اس لیئے جائز رہا کہ حدیث علماء کے سینوں سے لی جاتی تھی نہ کہ کتابوں کے اوراق سے؛ سواس کی ضرورت رہی تاکہ آثار کی حفاظت کی جاسکے اور احادیث واخبار میں مقبول ومردود کو پہچانا جاسکے؛ لیکن اب اعتماد کتب مدونہ پر ہونا چاہیے۔ امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کی کتاب "کتاب العلل" ومعرفۃ الحدیث، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کی "کتاب العلل" اور ابن ابی حاتم کی "کتاب الجرح والتعدیل" اس سلسلہ کی بہت مفید کتابیں ہیں اور امام احمدؒ کی یہ کتاب انقرہ سے اور ابن ابی حاتم کی یہ کتاب حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ایک موضوع پر دوحدیثیں مروی ہوں راوی ہردوکے ثقہ ہوں اور اتصالِ رواۃ بھی اپنی جگہ قائم ہواور سند صحیح ہے توایسے موقعوں پر محدثین علل روایت میں چلے جاتے ہیں، علت کا پالینا ایک بڑی علمی مرتبہ ہے، عبدالرحمن بن مہدی اس کوالہامِ الہٰی سے تعبیر کرتے تھے؛ پھربھی کوئی حل نہ ملے توترجیح وتطبیق کی راہ لینے سے چارہ نہیں۔