انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سب سے پہلے جنت میں جانے والے حضورﷺ اور آپ کی امت سب سے پہلے جنت میں جائیں گے: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: نَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَنَحْنُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ فَاخْتَلَفُوا فَهَدَانَا اللَّهُ لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنْ الْحَقِّ۔ (مسلم، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب هِدَايَةِ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ ،حدیث نمبر:۱۴۱۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ہم آخری امت ہیں (لیکن) روزِ قیامت (ہم) سب سے پہلے (قبروں سے) اٹھیں گے اور ہم ہی سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے بس اتنی بات ہے کہ ان (یہودونصاری کو) ہم سے پہلے کتاب (تورات، زبور، انجیل) عطاء کی گئی اور ہمیں ان کے بعد (قرآن پاک) عطاء کیا گیا؛ پس انہوں نے (ہم سے قرآن کے حق ہونے میں) اختلاف کیا؛ پس جس چیز کے حق ہونے میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے (اس میں) ہمیں ہدایت عطاء فرمائیں (اور اب اسلام آنے کے بعد وہ مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے گمراہی میں رہ کردوزخ کوجائیں گے)۔ سب سے پہلے انبیاء جائیں گے پھرآپﷺ کی امت: حدیث:حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں: إنَّ الْجَنَّةَ حُرِّمَتْ عَلَى الأنْبِيَاءِ كُلُّهُمْ حَتَّى أَدْخُلَهَا، وَحُرِّمَتْ عَلَى الأمَمِ حَتَّى تَدْخُلَهَا أُمَّتِيْ۔ (حادی الارواح:۱۵۳، بحاولہ دارِقطنی۔ کنزالعمال:۳۱۹۵۳، بحوالہ ابن النجار) ترجمہ:جنت تمام انبیاء پرحرام ہے جب تک میں اس میں داخل نہ ہوجاؤں (یعنی پہلے میں داخل ہوں گا پھرتمام انبیاء علیہم السلام) اور (جنت)تمام امتوں پرحرام ہے؛ حتی کہ میری امت اس میں داخل ہوجائے (اس کے بعد امتیں جنت میں جائیں گی)۔ فائدہ:یہ امت باقی امتوں سے پہلے زمین سے باہر آئے گی اور موقف میں سب سے اعلیٰ مقام پرسب سے پہلے سرفراز ہوگی اور سب سے پہلے سایہ عرش میں سبقت کرے گی اور سب سے پہلے ان کا حساب وکتاب ہوگا اور سب سے پہلے صراط کوعبور کرے گی اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگی؛ پس جنت سب انبیاء کرام پرحرام ہے جب تک حضرت محمدﷺ اس میں داخل نہ ہوں اور سب امتوں پرحرام ہے جب تک کہ حضورﷺ کی امت اس میں داخل نہ ہو۔ (حادی الارواح:۱۵۳) انبیاء علیہم السلام کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ پہلے جنت میں جائیں گے: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَرَانِي بَابَ الْجَنَّةِ الَّذِي تَدْخُلُ مِنْهُ أُمَّتِي فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ يَارَسُولَ اللَّهِ وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مَعَكَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَاإِنَّكَ يَاأَبَابَكْرٍ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي۔ (سنن ابی داؤد، كِتَاب السُّنَّةِ، بَاب فِي الْخُلَفَاءِ ،حدیث نمبر:۴۰۳۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:میرے پاس جبریل تشریف لائے تھے او رمیرا ہاتھ پکڑ کرجنت کا وہ دروازہ دکھلایا جس سے میری امت داخل ہوگی، حضرت ابوبکر (صدیقؓ) نے عرض کیا یارسول اللہ میں پسند کرتا ہوں کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا حتی کہ میں بھی اس دروازہ کودیکھ لیتا، توسرکارِ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سن لو! اے ابوبکر! میری امت میں سے سب سے پہلے آپ جنت میں جائیں گے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی جنت میں سبقت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا محل: حدیث:حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوبلایا اور فرمایا اے بلال! تم مجھ سے جنت میں کیسے سبقت کرگئے میں جب بھی جنت میں داخل ہوا اپنے سامنے سے تمہارے چلنے کی آواز سنتا ہوں (چنانچہ) میں گذشتہ رات بھی (جنت میں) گیا توپھراپنے سامنے سے تمہارے چلنے کی آواز سنی؛ پھرمیں ایک چوکور محل پرآیا جوسونے کا بنا ہوا تھا میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے بتایا یہ ایک عربی شخص کا ہے، میں نے کہا میں بھی توعربی ہوں یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ قریش کے آدمی کا ہے، میں نے کہا میں بھی توقریشی ہوں، یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: امتِ محمد کے ایک شخص کا ہے، میں نے کہا میں محمد ہوں، یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ہے، توحضرت بلالؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے جب بھی اذان دی ہے دورکعات ادا کی ہیں اور جب بھی وضو ٹوٹا ہے اسی وقت وضو کیا ہے اور میں نے تہیا کرلیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی دورکعات میرے ذمہ ہیں، توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (یہ سبقت) ان رکعات کی وجہ سے ہے۔ (مسنداحمد:۵/۳۵۴۔ ترمذی:۳۶۸۹، فی المناقب) فائدہ:اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے جنت میں جائیں گے؛ بلکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آگے آگے بطورِ دربان اور خادم کے چلیں گے۔ (حادی الارواح:۱۵۸) جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ جب حضورعلیہ السلام کوروزِ قیامت روضہ سے اٹھایا جائے گا توحضرت بلال آپ کے سامنے اذان دیتے ہوئے چلیں گے۔ (حادی الارواح:۱۵۸)