انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبدالرزاق بن ہمامؒ اتباع تابعین کے زمرہ میں جن علماء نے درس وافادہ کی مجلسیں گرم کرنے کے ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیئے ان میں عبدالرزاق ابن ہمام کا اسم گرامی بہت ممتاز ہے،حدیث میں ان کی شہرہ ٔ آفاق، مصنف، نہایت بلند واعلیٰ مقام کی حامل ہے،قدامت واہلیت کے لحاظ سے اس کا پایہ "مصنف"ابن ابی شیبہ سے بھی اونچا ہے۔ نام ونسب عبدالرزاق نام اور ابوبکر کنیت ہے،پورا سلسلہ نسب یہ ہے:عبدالرزاق ابن ہمام بن نافع،ان کے والد ہمام کا شمار ثقات تابعین میں ہوتا ہے۔ (تاریخ ابن خلکان:۱/۵۴۳) ولادت اوروطن ۱۲۶ھ میں یمن کے دارالحکومت اورمشہور ترین شہر صنعاء میں ان کی ولادت ہوئی (مرأۃ الحنان :۲/۱۲۶)اس مردم خیز سرزمین کو لا تعداد شیوخ وأئمہ کے مولد ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ (الباب فی تہذیب الانساب:۲/۶۱) (ملک شام میں بھی دمشق کے قریب صنعاء نام کا ایک گاؤں ہے، اس کی طرف بھی علماء اعلام کی ایک بڑی جماعت منسوب ہے جیسے،ابو الاشعث ثمر احیل بن کلیب الصنعانی اور حنش بن عبداللہ الصنعانی وغیرہ لیکن اکثر وبیشتر صنعانی کی نسبت صنعاء یمن ہی کی طرف ہوتی ہے) طلب علم انہوں نےابتدائےشعور ہی سے اپنے والد اوردوسرے مقامی علماء سے تحصیل علم شروع کردی تھی اوربیس سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں دسترس ومہارت پیدا کرلی تھی،مشہور امام فن معمر بن راشد کی بارگاہ علم میں کامل سات سال گذارےتھے، اس مخصوص صحبت اور زرین موقعہ سے وہ پورے طور پر بہرہ یاب ہوئے تھے؛چنانچہ ان کے عہد میں مرویات ابن راشد کا ان سے بڑا عالم و حافظ کوئی نہ تھا،یمن سے باہر ان کی رحلت علمی کا بصراحت ثبوت فراہم نہیں ہوتا، لیکن وہ اکثر بغرض تجارت شام وغیرہ ممالک کا سفر کیا کرتے تھے،یقیناً ان کا شغف علم انہیں وہاں کے مشاہیر شیوخ کی خدمت میں لے جاتا ہوگا ،حافظ ذہبی رقمطراز ہیں۔ رحل فی تجارتہ الی الشام ولقی الکبار (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۴) وہ تجارت کے سلسلہ میں شام کا سفر کرتے اوروہاں کے کبار علماء سے شرف نیاز حاصل کرتے تھے۔ شیوخ ان کے اساتذہ وشیوخ کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں والد بزرگوار ہمام اورعم محترم وہب کے علاوہ معمر بن راشد،عبید اللہ بن عمر،ایمن بن نابل، ابن جریج اوزاعی، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری،زکریا بن اسحاق،اسماعیل بن عیاش،ثور بن یزید،ہشیم بن بشیر،ابو معشر نجیح،عبدالعزیزبن زیاد کے نام لائق ذکر ہیں (تہذیب التہذیب:۶/۳۱۱،وابن خلکان:۱/۵۴۳)خصوصی فیض معمر بن راشد سے حاصل کیا تھا،خود بیان کرتے ہیں کہ: جالست معمرا سبع سنین (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۴۳) میں نے سات سال تک معمر کی ہم نشینی کی ہے۔ تلامذہ ان کے فضل وکرم کا شہرہ سُن کر اقضائے عالم سے تشنگانِ علم کا ہجوم ایک سیل رواں بن کر ان کے پاس آنے لگا، آئمہ اسلام کی ایک بڑی جمعیت ان کے دامانِ فیض سے وابستہ رہی،لائق ذکر مشاہیر میں امام احمد، اسحاق بن راہویہ،علی بن مدینی ،یحییٰ بن معین، محمود بن غیلان،ابو خثیمہ،احمد بن صالح،ابراہیم بن موسیٰ،عبدالرحمن بن بشر الحکم، عبد بن حمید محمد بن رافع، محمد بن غیلان ،محمد بن یحییٰ الذھلی، کے نام خصوصیت سے نمایاں ہیں، ان کے علاوہ معاصرین میں امام وکیع، ابو اسامہ، حماد بن سلمہ اورشیوخ میں سفیان بن عیینہ ومعتمربن سلیمان نے بھی ان سے روایت کی ہے۔ (مرأۃ الحنان:۲/۵۳،وتہذیب التہذیب:۶/۳۱۱) فضل وکمال ابن ہمام چمنستانِ علم وفن کے گل تازہ تھے،تبحر علمی،مہارتِ فنی اورقوتِ حافظہ میں ان کا مقام نہایت بلند تھا،خیر الدین زر کلی انہیں "من حفاظ الحدیث الثقات" علامہ یافعی"الحافظ العلامہ"اورحافظ ذہبی "احد الاعلام الثقات" لکھتے ہیں،مزید برآں علامہ شمس الدین ذہبی رقمطراز ہیں:کہ اگر ابن ہمام کے سوانح وکمالات کا استقصاء کیا جائے تو ایک مستقل ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۳) ہشام بن یوسف کہتے ہیں کہ عبدالرزاق ہم سب میں بڑے حافظ وعالم تھے۔ (تہذیب التہذیب:۶/۳۱۲) قوتِ حافظہ ان کے حفظ وضبط کی قوت نہایت حیرت انگیز تھی،ابراہیم بن عباد الدیری کا بیان ہے کہ ستر ہزار حدیثیں ان کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ تھیں۔ (الاعلام :۲/۵۱۹) مرجعیت اسی فضل وکمال کے نتیجہ میں دنیا کے دور دراز گوشوں سے طالبانِ علم اس شمع دین ودانش کی طرف پروانہ وار ٹوٹ پڑے اور صنعاء کا شہر قال اللہ وقال الرسولﷺ کے نغموں سے معمور ہوگیا۔ ان کے شیخ معمرنے اپنے لائق شاگرد کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی کہ اگر عبدالرزاق کی زندگی رہی تو لوگ دور دراز مقامات سے سفر کرکے اس کے گرد ہجوم کریں گے (تہذیب التہذیب:۶/۳۱۲) چنانچہ وقت نے ثابت کیا کہ یہ پیش بینی حرف بحرف حقیقت بن کر رہی۔ مؤرخین بالاتفاق اعتراف کرتے ہیں کہ عہد رسالت کے بعد کوئی شخصیت اتنی زبردست مرجوعہ خلائق اورپرکشش ثابت نہ ہوسکی،ممکن ہے اس رائے میں کسی حد تک مبالغہ ہو،لیکن یہ بہر حال ایک حقیقت ہے کہ أئمہ وعلماء جوق درجوق آکر علم کے اس چشمہ صافی سے سیراب ہوئے،علامہ یافعی انہیں "الموتحل الیہ من الآفاق لکھتے ہیں،مؤرخ ابن اثیر رقمطراز ہیں: مارحل الناس الی احد بعد رسول اللہ ﷺ مثل ما رحلوا الیہ (اللباب فی تہذیب الانساب:۲/۶۱) رسول اکرم ﷺ کے بعد کسی کے پاس اس قدر کثرت سے لوگ نہیں آئے،جتنے امام ابن ہمام کے پاس آئے۔ ثقاہت وعدالت ماہرین فن ان کی صداقت وعدالت پر متفق ہیں ،علامہ ذہبی کا بیان ہے کہ ابن ہمام کی ثقاہت پر علماء یک زبان ہیں،ان کے عدول وصدوق ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آئمہ صحاح نے ان کی روایتوں کی تخریج کی ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۴)امام احمد شہادت دیتے ہیں کہ معمر سے ابن ہمام کی روایت میرے نزدیک تمام بصری علماء سے زیادہ پسندیدہ اورقابل ترجیح ہے،انہی کا بیان ہے کہ ابن جریج کے تلامذہ میں عبدالرزاق "اثبت" ہیں۔ علاوہ ازیں یحییٰ بن معین،علی بن المدینی،یعقوب بن شیبہ، ابوداؤد الفریابی اور عجلی نے بھی ان کی توثیق کی ہے،ذہلی اوربزار بیان کرتے ہیں۔ کان عبدالرزاق ایقظھم فی الحدیث وکان یحفظ (تہذیب التہذیب:۶/۳۱۴) عبدالرزاق بن ہمام تمام محدثین میں سب سے زیادہ حاضر دماغ وبیدار مغز محدث اوربڑے حافظ تھے۔ بعض شکوک وشبہات کا ازالہ اس تمام تحسین وستائش کے باوصف بعض علماء نے ان کو نقد وجرح کا نشانہ بھی بنایا ہے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جرح کی بنیاد تمام تر شک وشبہ اورسوء تفاہم پر قائم ہے۔ ابن ہمام پر پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ رفض وتشیع کی طرف مائل تھے،ابن عماد حنبلی،حافظ ذہبی اورعلامہ ابن حجرؒ نے اس طرح کے متعدد اقوال نقل کیےہیں، لیکن تحقیق کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ اس نقد کی حقیقت پر کاہ سے زیادہ نہیں۔ امام احمدؒ سے ایک بار ان کے صاحبزادے عبداللہ نے دریافت کیا کہ: ھل کان عبدالرزاق یتشیع ویفرط فی التشیع؟ کیا عبدالرزاق غالی شیعہ تھے؟ امام موصوف نے جو ابن ہمام کی خدمت میں بہت حاضر باش تھے فرمایا: لم اسمع فی ھذا شیئاً (میزان الاعتدال:۲/۱۲۷) میں نے تو اس سلسلہ میں کچھ نہیں سُنا اغلب ہے کہ رفض وشیعیت کا شبہ لوگوں کو اس لیے ہوا کہ ابن ہمام اہل بیت کو بہت محبوب اورحضرت علی ؓ کے قاتل کو مبغوض رکھتے تھے،اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ شیخین (ابوبکرؓ وعمرؓ) پر حضرت علیؓ کی تفضیل کے قائل تھے، لیکن لوگوں کو سوء تفاہم ہوا حالانکہ خود ابن ہمام نے نہایت دو ٹوک الفاظ میں اس شبہ کا پردہ چاک کردیا تھا کہ: واللہ ما انشرح صدری قط ان افضل علیا علی ابی بکر و عمر رحم اللہ علی ابی بکر وعمر من لم یحبھم فما ھومؤمن واوثق اعمالی حبی ایاھم (تہذیب التہذیب:۶/۳۱۲) بخدا اس بات پر مجھے کبھی شرح صدر نہ ہوا کہ میں حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ،پر علی کو فضیلت دُوں،اللہ ابوبکرؓ و عمرؓ ؓ پر رحمت نازل فرمائے جو شخص ان سے محبت نہ کرے وہ مومن کامل نہیں اوران بزرگوں سے میری محبت حاصل اعمال ہے۔ ایک بار کسی نے شیخ ابن ہمام سے دریافت کیا کہ، آپ کے نزدیک کیا حضرت علی نزاعی جنگوں میں جادۂ حق پر قائم تھے، فرمایا بخدا نہیں ؛بلکہ خود جناب امیر کا بھی خیال تھا کہ وہ ایک آزمائش میں مبتلا ہیں اور میرا بھی یہی خیال ہے (ایضاً:۳۱۴)حُب آلِ رسول کی بنیاد پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پر بھی جب تشیع کا الزام عاید کیاگیا تو امام صاحب نے برملا جواب دیا کہ اگر آل محمد کی محبت ہی کا نام شیعیت ہے تو میں جن وانس کو شاہد بنا کر کہتا ہوں کہ میں یقیناً شیعہ ہوں۔ دوسرا شبہ ابن ہمام پر یہ ظاہر کیا گیاہے کہ وہ سوءِ حفظ اورفتورِ عقل میں مبتلا تھے اورضعیف ومنکر روایتیں بیان کیا کرتے تھے، یہ صحیح ہے کہ آخر عمر میں وہ ضعف بصر وغیرہ ایسے عوارض کا شکار ہوگئے تھے،جو جرح وتعدیل کے معیار میں خلل انداز ہوتے ہیں،لیکن اس سے ان کی پوری زندگی کی مرویات کو غیر معتبر قرار دینا درست نہیں ہے، ان کے عنفوان شباب کی حدیثوں پر کسی نے بھی نقد وجرح کی جرأت نہیں کی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اس حقیقت کو بصراحت بیان کیا ہے کہ ۲۰۰ھ تک ان کی بصارت بالکل درست تھی،اس کے بعد کے گیارہ سال کی روایات ضعیف ہیں،جن علماء نے اس سے قبل ان سے سماعت حدیث کی ہے وہ معتبر ومستند ہے۔ اتینا عبدالرزاق قبل المأتین وھو صحیح البصر ومن سمع منہ بعد ما ذھب بصرہ فھو ضعیف السماع (میزان الاعتدال:۲/۱۲۷) ۲۰۰ھ سے قبل ہمارے پاس عبدالرزاق آئے،تو ان کی بصارت قائم تھی،پس جس نے ان کی بینائی زائل ہونے کے بعد ان سے حدثیں سنی ہیں اس کا سماع ضعیف ہے۔ حافظ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ تمام حفاظ اورائمۃ حدیث نے ابن ہمام کی روایات کو حجت قراردیا ہے۔ ان کے بعض اوربھی اعتراضات ابن ہمام پر وارد کیے گئے ہیں،لیکن علامہ ابن حجر اور حافظ ذہبی نے انہیں لچر،مہمل اورناقابل اعتبار ٹھہرایا ہے۔ وفات ۱۵شوال ۲۱۱ھ کو یمن میں وفات پائی (طبقات ابن سعد:۵/۳۹۸) اس وقت ۸۵ سال کی عمر تھی۔ (ابن خلکان :۱/۵۴۳،ومرأۃ الحنان:۲/۵۱) تصنیف انہوں نے متعدد تصانیف بھی یادگار چھوڑیں،لیکن اکثر معدوم ہیں۔ خیر الدین زرکلی اورابن ندیم نے ان کی جن کتابوں کے نام دیے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں: (۱)جامع یاسنن عبدالرزاق (۲)تفسیر میں ایک کتاب (۳)کتاب السنن فی الفقہ (۴)مصنف عبدالرزاق ان میں مؤخر الذکر کتاب ابن ہمام کی مشہور ترین تصنیف ہے،ابوبکر بن ابی شیبہ کی مصنف گو مجموعی حیثیت سے اس سے زیادہ اہم اور وقیع ہے،لیکن قدامت کے اعتبار سے وہ بھی اس سے کم پایہ ہے،یہ کتاب فقہی ابواب کے مطابق مرتب کی گئی ہے،اس کی لائق ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اکثر حدیثیں ثلاثی ہیں،بقول شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی،یہ عجیب بات ہے کہ عبدالرزاق بن ہمام نے اپنی مصنف کو شمائل پر ختم کیا ہے اور شمائل کو آنحضرت ﷺ کے موئے مبارک کے ذکر پر تمام کیا ہے؛چنانچہ اس کے آخر میں یہ حدیث ہے۔ حدثنا معمر عن ثابت عن انس قال کان شعر النبی الی انصاف اذنیہ (بستان المحدثین:۴۸) مجھ سے معمر نے عن ثابت عن انس بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے موئے مبارک آپ کے کانوں کے نصف حصہ تک تھے۔ یہ مصنف تاہنوز زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوسکی ہے،مختلف کتب خانوں میں اس کے قلمی نسخے پائے جاتے ہیں۔