انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابراہیم بن اغلب اور شہر عباسیہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ ہارون الرشید ے صوبہ افریقہ کی حکومت پرمحمد بن مقاتل بن حکیم کوہرثمہ بن اعین کے مستعفی ہونے کے بعد بھیج دیا تھا، یہ محمد بن مقاتل ہارون الرشید کا رضاعی بھائی تھا، اس نے جاکر اہلِ افریقہ کی بغاوت کوفرو کیا، یہ بغاوت ہرثمہ بن اعین کے افریقہ سے جدا ہوتے ہی نمودار ہوگئی تھی، محمد بن مقاتل نے نہایت ہوشیاری اور قابلیت کے ساتھ اہلِ افریقہ کومطیع کیا؛ لیکن وہ لوگ طاقت کے آگے مجبور ہوکر خاموش ومطیع تھے، دل سے وہ بغاوت پرآمادہ اور محمد بن مقاتل سے ناراض تھے ان لوگوں کی بغاوت وسرکشی کا ایک خاص سبب یہ تھا کہ وہ ولایت زاب کے عامل ابراہیم بن اغلب سے ہمیشہ مشورے لیتے رہتے تھے اور ابراہیم بن اغلب باغیوں کے سرداروں سے مخفی طور پرساز باز رکھتا اور اُن کوامداد پہنچاتا رہتا تھا، صوبہ افریقیہ کی مسلسل بغاوتوں کے سبب یہ حالت تھی کہ خزانہ مصر یعنی خراج مصر سے ایک لاکھ دینار سالانہ صوبہ افریقیہ کے مصارف اور اس پرحکومت قائم رکھنے کے لیے دیا جاتا تھا، یعنی صوبۂ افریقیہ بجائے اس کے کہ سالانہ خراج بھیجے اور ایک لاکھ روپے سالانہ خرچ کرادیتا تھا، محمد بن مقاتل نے اگرچہ امن وامان قائم کردیا؛ لیکن مصر کے خزانہ سے جوروپیہ دیا جاتا تھا وہ بدستور دیا جاتا رہا، اب ابراہیم بن اغلب نے درخواست بھیجی کہ مجھ کوصوبہ افریقیہ کا گورنربنادیا جائے، میں نہ صرف یہ کہ ایک لاکھ سالانہ نہ لوں گا؛ بلکہ چار لاکھ سالانہ خراج خزانہ خلافت میں بھجواتا رہوں گا، ہارون الشرشید نے اس معاملہ میں مشیروں سے مشورہ کیا توہرثمہ بن اعین نے رائے دی کہ ابراہیم بن اغلب کوافریقیہ کی گورنری دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ چنانچہ ہارون الرشید نے مرحم سنہ۱۸۴ھ میں ابراہیم کے پاس سندگورنری بھیج دی، ابراہیم نے افریقیہ پہنچتے ہیں وہاں کے تمام باغی سرداروں کے جن سے ابراہیم خوب واقف تھا چن چن کرگرفتار کیا اور بغداد بھیج دیا جس سے تمام شورش یکا یک فرو ہوگئی، اس کے بعد ابراہیم بن اغلب نے قروان کے پاس ایک شہر آباد کیا اور اس کا نام عباسیہ رکھا؛ اسی عباسیہ کواس نے درالحکومت اس کے بعد اس کی نسل میں عرصہ دراز تک یہاں کی مستقل حکومت رہی جس کا حال آئندہ بیان ہوگا۔ اسی سال یعنی سنہ ۱۸۴ھ میں ہارون الرشید نے یمن اور مکہ کی بھی حکومت حماد بربری کوعطا کی اور سندط کی حکومت پرداؤد بن یزید بن حاتم کوروانہ کیا، قہستان کی حکومت یحییٰ حریش کواور طبرستان کی حکومت مہرویہ رازی کودی۔ سنہ۱۸۵ھ میں اہلِ طبرستان نے یورش کردی مہرویہ کومارڈالا تب بجائے اس کے عبداللہ بن سعید حریشی مامور کیا گیا؛ اسی سال یزید بن مزید شیبانی نے جوآذربائیجان وآرمیناکا گورنرتھا وفات پائی ، بجائے اُس کے اس کا بیٹا اسد بن یزید مامور کیا گیا۔ سنہ۱۸۶ھ میں جیسا کہ اوپرذکر ہوچکا ہے علی بن عیسیٰ خراسان کی تمام بغاوتوں پرغالب آکر وہاں امن وسکون قائم کرسکا اور وہب بن عبداللہ نسائی مارا گیا، علی بن عیسی ٰکوزیادہ دنوں چین سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوا، خراسان میں اس کے خلاف ایک اور طوفان برپا ہوگیا، اہلِ خراسان نے علی بن عیسیٰ کی شکایت میں مسلسل دربارِ خلافت میں عرضیاں بھیجنی شروع کیں، یحییٰ بن خالد بن عسیٰ کی گورنری خراسان سے خوش نہ تھا؛ چنانچہ یحییٰ کے دونوں چھوٹے بیٹوں موسیٰ ومحمد نے جن کواہلِ خراسان میں کافی رسوخ حاصل تھا، وہب بن عبداللہ اور حمزہ خارجی کوبغاوت پراکسادیا تھا اور انھیں کی درپردہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ خراسان میں مسلسل کئی برس تک بدامنی وفساد کا بازآر گرم رہا، اس عرصہ میں خلیفہ ہارون الرشید کویحییٰ وجعفر کی طرف سے کئی مرتبہ توجہ دلائی گئی کہ علی بن عیسیٰ کوخراسان سے معزول کردیا جائے؛ مگرہارون الرشید نے کوئی التفات نہیں کیا، اب جب کہ تیروشمشیر کے ہنگامے خراسان میں فرو ہوگئے توکاغذ کے گھوڑے دوڑنے شروع ہوئے، یعنی برمکیوں کی تحریک کا نتیجہ تھا کہ خراسانیوں نے علی بن عیسیٰ کی شکایتوں میں عرضی پرعرضی بھیجنا شروع کردی جب ان شکایتی عرضیوں کا شمار حد سے متجاوز ہونے لگا اور یہ شکایتیں بھی آنے لگیں کہ علی بن عیسیٰ نہ صرف ظلم وتشدد میں حد سے گذر گیا ہے؛ بلکہ وہ تختِ خلافت کے اُلٹ دینے کی تدابیر میں مصروف ہے توہارون نے مجبوراً خود بغداد سے کوچ کیا اور مقامِ رَے میں پہنچ کرقیام کیا، علی بن عیسیٰ خلیفہ کے آنے کا حال سن کرمعہ تحفہ وہدایا مرو سے چل کررَے میں آیا اور خلیفہ ہارون الرشید کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی فرماں برداری اور اخلاص کا ثبوت پیش کیا، ہارون نے خوش ہوکر اُس کوخراسان کی گورنری پرمامور رکھا اور رَے وطبرستان ونہاوند وتومس وہمدان کی ولایتوں کوبھی اس کی حکومت میں شامل کردیا۔