انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۹)امام زہریؒ (۱۲۴ھ) اعلم الحفاظ ابنِ شہاب زہری حدیث اور تاریخ کے بڑے امام تھے، آپ نے حدیث صحابہؓ میں سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ، سہل بن سعدؓ، حضرت انس بن مالکؓ سے اور تابعین میں سے حضرت سعید بن المسیبؒ، ابوامامؒ اور ابوسہلؒ وغیرہم من الائمہ الاعلام سے پڑھی، آپ سے صالح بن کیسانؒ، معمرؒ، شعیب بن ابی حمزہؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام اوزاعیؒ، ابن ابی ذئبؒ، لیث بن سعد مصریؒ، سفیان بن عیینہؒ اور دیگر کئی ائمہ علم نے روایت لی ہے، ابن المسیبؒ کے پاس آٹھ سال کے قریب رہے، لیث مصری رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے زہریؒ سے جامع علم کسی کونہیں دیکھا، ترغیب وترہیب کی احادیث ہوں یاانساب عرب کی، قرآن وسنت کی بات ہو یاحلال وحرام کی، ہرموضوع میں سبقت لے گئے نہیں، ابوالزناد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کنانطوف مع الزھری علی العلماء ومعہ الالواح والصحف یکتب کلما سمع"۔ (تذکرہ:۱۰۳) ترجمہ:ہم امام زہری کے ساتھ علماء حدیث کے ہاں گھوما کرتے تھے، آپ کے پاس کاغذات اور تختیاں ہوتیں آپ جوکچھ سنتے تھے، لکھتے جایا کرتے تھے۔ ابن المدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں ثقہ راویوں کا علم حجاز میں زہریؒ اور عمروبن دینارؒ پر بصرہ میں قتادہؒ اور یحییٰ بن کثیرؒ پر، کوفہ میں ابواسحاق السبیعیؒ اور اعمشؒ پر گردش کرتا ہے، اکثر صحیح حدیثیں ان چھ رواۃِ حدیث سے باہر نہیں، محدثین امام زہریؒ کی مرسل روایات کا اعتبار نہیں کرتے، آپ کہیں کہیں روایتِ حدیث کے دوران شرح الفاظ بھی کردیتے تھے، علماء بعض اوقات ان کے ادراج کو حدیث کا جزوسمجھ لیتے اور اُسے حدیث کے طور پر آگے روایت کردیتے؛ تاہم اُن کی علمی عظمت اور حدیثی عبقریت ہردائرۂ علم میں مسلم رہی ہے، آپ جب اپنے شیخ کا نام نہ لیں اور اس سے اُوپر کے شیخ سے صیغہ عن سے روایت کریں تواس سے آپ کی ثقاہت مجروح نہیں ہوتی؛ البتہ اس روایت کی صحت مشکوک ہوگی، شیعہ علماء نے اس تدلیس کوتقیہ سمجھ کر انہیں اپنے ہاں شیعہ شمار کرلیا تھا؛ سوجب کبھی وہ اُن کی روایت پیش کریں تویہ استدلال ان کے ہاں برسبیل مناظرہ نہیں برسبیل مجادلہ ایک الزامی دلیل سمجھا جائے گا۔