انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ارخان عثمان خان کا بڑا بیٹا علاؤ الدین تھا اورچھوٹا ارخان تھا،علاؤ الدین اگرچہ علم وفضل،عقل وبصیرت اورپ،ت واستقلال میں بے نظیر تھا،مگر ارخان کے فوجی اورجنگی کارنامے سب سے بڑی سفارش اس امر کی ہوئے کہ عثمان خان نے ارخان کو اپنا جانشین تجویز کیا، عثمان خان کی وفات کے بعد قوی احتمال ہوسکتا تھا کہ دونوں بھائی تخت و تاج کے لئے آپس میں لڑیں گے،مگر بڑے بھائی علاؤ الدین نے جوہر طرح سلطنت کی قابلیت رکھتا تھا،اپنے بڑے ہونے کے حق فائق کو باپ کی وصیت کے مقابلے میں بالکل ہیچ سمجھا اورنہایت خوشی کے ساتھ بھائی کو تخت و تاج کی مبارک باددیکر اس کے ہاتھ پر اطاعت کی بیعت کی اوراپنے لیے صرف اسی قدر کافی سمجھا کہ بروصہ کےمتصل اس کو صرف ایک گاؤں گذارہ کے لئے بطور جاگیر دے دیا جائے، ارخان بھی اپنے بھائی کی قابلیت اورپاک باطنی سے واقف تھا،اس نے بہ منت عرض کیا اور اراکین سلطنت کو سفارشی بنایا کہ وزارت قبول فرمالیجئے،علاؤ الدین کے لئے اپنے چھوٹے بھائی کا وزیر بننا موجب عزت نہ تھا لیکن اس نے بھائی کے اصرار پر اس عہدے کو قبول کرلیا اور اس خوبی اورنیک نیتی کے ساتھ مہماتِ سلطنت کو انجام دیا کہ دنیا کے پاک باطن اورعالی دماغ وزیروں کی فہرست میں اس کا نام اگر سب سے پہلے لکھا جائے تو کچھ بے جا نہیں ہے۔ سلطان ارخان نے تخت نشین ہوتے ہی ایک سال کے اندر تمام ویشیائے کوچک کو فتح کرکے درِدانیال کے ساحل تک اپنی سلطنت کو وسیع کرلیا اورایشائے کوچک کو بتمامہ عیسائی حکومت سے پاک کرکے اپنے بھائی علاؤ الدین کے مشورے سے اپنی مملکت میں ایسے آئین و قوانین جاری کئے جس سے سلطنت کو استحکام حاصل ہوا،اس وقت تک یہ دستور تھا کہ بہادر وجنگجو سرداروں کو ملک کے چھوٹے چھوٹے قطعات بطور جاگیر دے دیئے جاتے تھے،ان جاگیروں کا سرکاری محصو یا لگان یہی تھا کہ ضرورت کے وقت بادشاہ کے طلب کرنے پر مقررہ تعداد کی فوج لے کر بادشاہ کے ساتھ میدان جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے نظر آتے اورجو سر دار ایک وقت میں زمیندار جاگیردار ہوتے تھے،دوسرے عقت میں وہی سپہ سالار نظر آتے تھے،ایشیائے کوچک میں پہلے ہی سے مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد تھی اوران میں ترک خاندانوں کا زیادہ حصہ شامل تھا؛کیونکہ معتصم باللہ عباسی کے زمانے سے ایشائے کوچک کے اندر سرحدی شہروں میں ترکوں کے آباد کرنے کا سلسلہ جاری کردیا گیا تھا،سلجوقیوں کے عہدِ حکومت میں بہت سے قبائل ترکستان سے آ آ کر ایشیائے کوچک میں آباد ہوئےتھے،سلاجقہ روم کی حکومت نے بھی بہت سے اپنے ہم وطنوں یعنی ترکوں کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا،ترکانِ غز کی ترک تاز اورمغلوں کے حملوں نے بھی خراسان ایران اورعراق کی طرف سے ترکوں کو اس طرف ریل یا تھا،اس طرح ایشیائے کوچک کا تمام مشرقی حصہ جو اکثر مسلمانوں کے قبضہ میں رہا تھا،ترک قبائل سے پُر تھا،صرف شمالی ومغربی ایشیائے کوچک میں عیسائیوں کی کثرت تھی۔